پاناماکیس: جے آئی ٹی کیلئے سپریم کورٹ کو نام موصول
اسلام آباد: پاناما لیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے 6 اداروں کے ارکان پر مشتمل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جےآئی ٹی) کے ناموں کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی۔
عدالت عظمیٰ نے 20 اپریل کو اپنے فیصلے میں فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کو ایک ہفتے میں نام جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
ذرائع نے ڈان کو فہرست جمع کرانے کی مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل بتایا کہ 'سپریم کورٹ کو حکومت کے چھ اداروں کی جانب سے نام موصول ہو چکے ہیں'۔
سپریم کورٹ نے متعلقہ اداروں کو 3،3 نام فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی جہاں سپریم کورٹ 6 رکنی جے آئی ٹی کے لیے ہرادارے سے ایک نام چن لے گی۔
جے آئی ٹی کے اعلان کے ساتھ ہی مختلف سیاسی جماعتوں نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا تھا، چند کا خیال تھا کہ وزیراعظم مشکل میں ہوں گے جبکہ دیگر کا کہنا تھا کہ تفتیشی ٹیم شریف خاندان کے لیے صرف 'ڈرائی کلیننگ شاپ' ثابت ہوگی۔
پیر (24 اپریل) کو پاک فوج کے کورکمانڈرز نے بھی سپریم کورٹ کے اعتماد کے پیش نظر جے آئی ٹی میں شفاف کردار ادا کرنے کے لیے ادارے کی شرکت کو یقینی بنانے کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاناما لیکس جے آئی ٹی: 'فوج شفاف، قانونی کردار ادا کرے گی'
جے آئی ٹی کی سربراہی ایف آئی اے کے سینئر افسر کریں گے جو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سے کم گریڈ کا نہیں ہوگا اور یہ ذمہ داری وائٹ کالر کرائم کی تفتیش میں تجربہ رکھنے والے افسر کو سونپی جائے گی۔
ٹیم میں متعقلہ ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے نامزد کردہ نیب کا ایک رکن، ایس ای سی پی کے نامزد منی لانڈرنگ اور وائٹ کالر کرائم سے واقفیت رکھنے والے ایک افسر، ایس بی پی کا ایک افسر، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے عہدیداران شامل ہوں گے۔
گوکہ افسران کے نام کو عام نہیں کیا گیا کہ لیکن ایف آئی اے نے 3 ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا، احمد لطیف اور ڈاکٹر شفیق کے نام فراہم کردیئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ
سپریم کورٹ ان میں سے کسی کو جے آئی ٹی کی سربراہی کے لیے چن لے گی، واجد ضیا کا تعلق پولیس کیڈر سے ہے جنھوں نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں، اسی طرح احمد لطیف بھی یہی تجربہ رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جے آئی ٹی کی تفتیش کے دائرہ کار کو بھی واضح کیا ہے جس کے مطابق تفتیش میں یہ سوالات پیش نظر ہوں گے: متحدہ عرب امارات میں گلف اسٹیل ملز کیسے وجود میں آئی، اس کی فروخت کیوں ہوئی، اس کے اثاثے کہاں گئے، اس کی فروخت کا معاملہ کہاں مکمل ہوا، جدہ کیسے پہنچے، اسی طرح قطر اور برطانیہ کیسے پہنچے، کیا اس وقت حسین نواز اور حسن نواز فلیٹ کی خرید اور ملکیت رکھنے کی عمر کے تھے اور اچانک پیش کیا گیا قطری خط ایک افسانہ ہے یا حقیقت؟
مزید پڑھیں: پاناما لیکس کیس: جے آئی ٹی کی عالمی اداروں تک رسائی نہیں
عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ کا اصل اور حقیقی مالک کون ہے، لندن میں چار فلیٹ کیسے تقسیم کیے، ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کیسے وجود میں آئی، فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے لیے پیسے کہاں سے آئے اور دیگر کمپنیاں جو حسن نواز نے قائم کیں اور کمپنیوں کو چلانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اور حسین نواز نے کروڑوں کی رقم وزیراعظم کو تحفے کے طور پر کہاں سے دی۔
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز بھی ضرورت پڑنے پر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے اور تعاون کریں گے، جے آئی ٹی کی تفتیش پر نظر رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے ایک خاص بنچ تشکیل دیا جائے گا۔
یہ خبر 27 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (2) بند ہیں