چترال:مبینہ ’گستاخانہ کلمات‘ پر مشتعل ہجوم کا ایک شخص پر حملہ
خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں مبینہ طور پر گستاخانہ کلمات پر مشتعل ہجوم نے نماز جمعہ کے بعد مسجد میں ہی ایک شخص پر حملہ کرکے اسے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
جائے وقوع پر موجود مقامی شخص نے ڈان نیوز کو بتایا کہ تشدد کا نشانہ بننے والے شخص پر، جس کی ابھی تک شناخت نہیں ہوسکی، الزام عائد کیا گیا کہ اس نے نماز جمعہ کے بعد مسجد میں موجود لوگوں سے بات کرنے کے لیے امام مسجد کو دھکا دیا۔
عینی شاہدین نے دعویٰ کیا کہ اس شخص نے گستاخانہ کلمات بولے۔
پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے شخص کی ذہنی صحت کا تعین کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جسے اس کی ہی حفاظت کے لیے مقامی پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر چترال شہاب یوسف زئی نے ڈان نیوز کو بتایا کہ مذکورہ شخص کے خلاف گستاخی اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صورتحال پر قابو پالیا گیا ہے جبکہ پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
شہاب یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ’اس وقت میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ زیر حراست شخص کی ذہنی حالت سے متعلق کوئی تبصرہ کر سکوں، جبکہ ڈاکٹروں کی ٹیم اس کی ذہنی صحت سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرے گی۔‘
ہجوم پولیس اسٹیشن بھی پہنچ گیا
نماز جمعہ کے بعد مسجد میں موجود افراد مبینہ طور پر گستاخانہ کلمات بولنے والے شخص کو اس وقت تک تشدد کا نشانہ بناتے رہے، جب تک امام نے اس کی جان بچانے کی خاطر اسے پولیس کے حوالے نہیں کردیا۔
تاہم مشتعل ہجوم نے پولیس کی جانب سے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شدید شیلنگ کے باوجود پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول دیا اور حراست میں لیے گئے شخص کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس
پولیس کی ہوائی فائرنگ کے باعث قریبی ٹرانسمیشن لائنز کو نقصان پہنچا جس سے علاقے کی بجلی چلی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ صورتحال اب بھی مخدوش ہے اور وہ ہجوم کو کنٹرول کرکے علاقے میں امن کی بحالی کوشش کر رہی ہے۔
پولیس عہدیدار نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے فرنٹیئر کور کے اہلکار بھی پولیس اسٹیشن پہنچ گئے، تاہم اب بھی 3 سے 4 ہزار افراد پولیس اسٹیشن کے باہر موجود ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل مردان کے عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام پر طلبہ نے تشدد کرکے طالب علم مشعال خان کو ہلاک کردیا تھا۔