کابل-طالبان شراکت اقتدار کی پاکستانی تجویز پر افغانستان برہم

کابل: افغانستان کے نائب وزیر خارجہ ارشاد احمدی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغانستان اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے سلسلے میں دونوں فریقین کے درمیان شراکت اقتدار کی تجویز پیش کی ہے جس کا افغانستان میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
احمدی نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے یہ آئیڈیا جمعے کو پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز اور افغان سفیر کے درمیان ملاقات کے موقع پر پیش کیا۔
پاکستان نے وفاقی حکومت قائم کرنے کے ساتھ کچھ صوبوں میں افغانستان کو حکومت دینے کی تجویز پیش کی۔
ان کے مطابق اس تجویز کی پیشکش کے ساتھ ہی جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کی امید بھی دم توڑ گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس پیشکش کے بعد برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے گزشتہ ہفتے کے آخر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ طالبان سے امن مذاکرات کے سلسلے میں کیے گئے دورے کے مقاصد بھی ان کی آمد سے قبل ختم ہو گئے۔
احمدی کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے یہ تجویز پیش کرنے کا مقصد ان مقاصد کا حصول ہے جو وہ جنگ کے میدان میں اپنے حامیوں(طالبان) کی مدد سے حاصل نہ کر سکا۔
دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے صوبوں میں طالبان کو اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے کسی بھی بیان کی تردید کرتے ہوئے رائٹرز کو بتایا کہ یہ ایک رسمی ملاقات تھی جس میں پاکستانی مشیر اور افغان سفیر کے درمیان دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس دوران کچھ صوبے طالبان کے حوالے کرنے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔
پاکستان کا کوئٹہ میں مقیم افغان طالبان کی قیادت پر انتہا سے زیادہ اثر ورسوخ ہے۔
موجودہ حالات میں یہ بیان خاصی اہمیت کا حامل ہے جہاں امریکا اور افغان حکومت افغانستان میں امن کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں اور 2014 میں نیٹو افواج کے انخلا کے پیش نظر یہ کوششیں مزید تیزی اختیار کر چکی ہیں۔
افغانستان طالبان شدت پسندی کا شکار پاکستان پر 12 سال سے جاری افغان جنگ میں دہرا کردار ادا کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے جہاں اس کا کہنا ہے کہ پاکستان عوامی سطھ پر امن کے اعلان کرتا ہے لیکن درپردہ اس فوج میں موجود کچھ عناصر خراب کردار ادا کر رہے ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے بھی ہفتے کو کیمرون کے ساتھ نیوز کانفرنس کے موقع پر امن عمل کے دوران پاکستان کے ارادوں پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
کرزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کو ایک یا دو صوبے دینے کا مقصد افغان عوام کو مقبوض کرنے کے مترادف ہو گا۔
اس موقع پر احمدی نے مزید کہا کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کی جانب دفتر کے افتتاح موقع پر افغان حکومت کے برخلاف جھنڑے اور نام کے حوالے سے پیش رفت درحققت پاکستان کی حکمت عملی تھی جس کا مقصد طالبان کی عالمی سطح پر ساکھ میں اضافہ کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت میں ایسے عناصر موجود ہیں امن عمل کے ذریعے افغان ریاست کو کمزور کرنے کا بڑے منصوبہ بنایا ہے جہاں وہ ملک بھر میں افغانستان میں اپنے سب سے بڑے اثاثے طالبان کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جاگیریں قائم کرنا چاہتے ہیں۔
احمدی نے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ نواز شریف کی حکومت افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی روک تھام پر زور دیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اب کابل محسوس کرتا ہے کہ ملکی جمہوری انتظامیہ فوج اور ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کی جانب سے کھیلے جا رہے دوہرے کھیل میں ان کی مدد کر رہی ہے۔
افغان نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی میں ایسے عناصر موجود ہیں جو افغان ریاست کو کمزور کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور ایسا محسوس ہوتا کہ انہیں کسی حد تک دیگر اداروں کی بھی حمایت حاصل ہے جس پر ہمیں شدید تحفظات ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ دوحہ میں طالبان دفتر سے جھنڈا اتارنے کے بعد طالبان کے وفد نے دوحہ میں آئی ایس آئی کے افسران باقاعدہ ایک میٹنگ میں ملاقات کی، ہم ان سب چیزوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ مستقل رابطے ہیں۔