مغل سپر ہیروز متعارف کرانے والے 2 پاکستانی امریکی ڈاکٹر
نیویارک میں رہنے والے عمر مرزا اور خرم مہتاب الدین پیشے کے لحاظ سے تو ڈاکٹر ہیں مگر انہوں نے مصروفیات کے باوجود اپنے شوقیہ کام کے لیے وقت نکالا۔
انہوں نے زندان (جیل) کے نام سے ایک کامک (خاکوں کی) سیریز بنائی، جس میں انہوں نے برصغیر کے دور بادشاہت کے مغل سپر ہیروز کو پیش کیا۔
ویسے یہ خود ایک تجسس میں ڈالنے والی بات ہے کہ کس طرح نیویارک میں بسنے والی 2 ڈاکٹرز نے برصغیر کے مغل بادشاہوں پر مبنی فکشن کہانیاں تیار کیں۔
پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹرز نے اپنے کام کے حوالے سے گفتگو کے دوران بتایا کہ کس طرح انہوں نے اس تھیم کے تحت اپنا پیغام دوسروں تک پہنچایا۔
خرم مہتاب الدین اور عمر مرزا کہتے ہیں کہ ہم چاہتے تھے کہ وہ برصغیر کی تاریخ دلفریب انداز میں حقیقت سے زیادہ پرکشش طریقے سے پیش کریں، اور ہمارے پاس اس داستان کو نئی شکل دینے کا ایک موقع بھی تھا، کیوں کہ آج کل کے دور میں اگر ٹی وی یا خبریں دیکھی جائیں تو دنیا کے اس حصے کو بہت ہی منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، تو ہم نے سوچا کہ ہمیں اس خطے کے ہی ہیروز کو پیش کرنا چاہئیے۔
عمر مرزا بتاتے ہیں کہ جب آپ یہاں بیٹھ کر ہیروز کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کو نیویارک کے ان سفید فام (کاکیشن) لوگوں کی طرف بھی دیکھنا پڑتا ہے، ہم بتانا چاہتے تھے کہ ہیروز پوری دنیا میں موجود ہوتے ہیں، اور ہم بچوں کو ان جیسے ہی ہیروز دکھانا چاہتے تھے، جن کی رنگت گہری، داڑھی براؤن یا سرخ اور بال لمبے اور کالے ہوں‘۔
آپ کو عمر اور مہتاب کی فکشن پر مبنی کہانی سے پہلے ان کے بچپن کی کہانی سننے پڑے گی کہ وہ کیسے اور کہاں بڑے ہوئے۔
عمر مرزا امریکی ریاست اوہائیو کے شہر سنسیناٹی میں بڑے ہوئے،انہیں پیٹر پارکر (اسپائیڈر مین) کا کردار بہت پسند تھا، کبھی کبھار انہیں لگتا تھا کہ اسپائیڈر مین ان کے اندر ہے۔
عمر مرزا نے دوسری جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے ایک کامک تیار کی، جو صرف پیٹر پارکر کی کوششوں پر مبنی تھی، اس میں پیٹر کے ساتھیوں کا ذکر نہیں تھا۔
جب عمر مرزا ہائی اسکول میں پہنچے تو انہیں احساس ہوا کہ حقیقت میں سپر ہیرو نہیں ہوتے، پھر انہوں نے ایک اور کیریئر کا انتخاب کیا، جس میں لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں، اس غرض سے وہ نیویارک منتقل ہوئے، اور وہاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔
اور وہاں عمر مرزا کی ملاقات ایک اور پاکستانی خرم مہتاب الدین سے ہوئی۔
خرم مہتاب الدین نیویارک کے علاقے البانی میں پلے بڑھے، جو عمر مرزا کے شہر سنسیناٹی سے 11 سو کلو میٹر سے زائد کے فاصلے پر ہے۔
اس وقت دونوں تقریبا بچپن کی زندگی گزار رہے تھے، جب کہ وہ پاکستانی نژاد والدین کی پرورش میں امریکی طرز زندگی سے بھی شناسا ہو رہے تھے۔
دونوں میڈیکل اسکول کی تعلیم کے دوران اچھے دوست بن گئے۔
بہت جلد ہی انہیں پتہ لگا کے ڈاکٹر بننے کے پس منظر میں ان کے من میں کئی خواہشات بھی موجود ہیں، جبکہ دونوں میں کوئی چیز مشترک ہے، اور وہ تھی دونوں کی جانب سے کامک کو پسند کرنا۔
آج جب لوگ عمر مرزا اور خرم مہتاب الدین سے ملتے ہیں تو وہ یہ جان کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دونوں کامک سیریز کے مصنف بھی ہیں۔
ہم بھی دونوں کے ساتھ بیٹھ گئے، اور ان سے کچھ سوالات کرنے سمیت اور بھی بہت کچھ پوچھا۔
ڈان: آپ نے کامک سیریز کتاب تیار کی اور ساتھ ہی آپ ڈاکٹرز بھی ہیں، کیا ڈاکٹر ہونا دیسی ہونے کی وجہ سے ہے؟
عمر مرزا: یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کو امریکا میں ہمارے جیسے بہت سے دیسی لوگ ملیں گے، آپ ان سے پوچھ بھی لیں، تو وہ اپنے پیشے کے حوالے سے بس یہی بتائیں گے کہ وہ انجنیئر، وکیل یا ڈاکٹر ہیں۔
اسی دوران خرم مہتاب الدین نے گفتگو میں حصہ لیتےہوئے کہا کہ ’اور یہ کوئی بری بات تو نہیں‘۔
عمر مرزا نے ایک بار پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ واقعی یہ کوئی بری بات نہیں، ہمارے والدین کا ہماری زندگی پر بہت اثرات ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے اس پیشے کو جاری رکھنے کی کوشش کریں گے۔
مرزا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے خرم مہتاب الدین نے کہا کہ اس ملک میں آنے کے بعد جو بات ہمیشہ ہمارے سامنے رکھی گئی وہ تھی تعلیم، تعلیم اور تعلیم، کیوں کہ اچھی تعلیم کے بغیر آپ دنیا میں کہیں بھی نہیں جا سکتے، لہذا ہماری تعلیم کے لیے شعبہ طب ایک طرح کا محفوظ کیریئر ہے۔
یہاں پر عمر نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر ہم تاریخ پر روشنی ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ایک عظیم آرٹسٹ ایک اچھا سائنسدان بھی ہوتا تھا، انہوں نے مثال دی کہ، ڈاونچی صرف ایک آرٹسٹ نہیں تھے بلکہ وہ ایک بہترین موجد بھی تھے۔
عمر کے مطابق حالیہ دور میں سائنس اور آرٹ کو علیحدہ کردیا گیا ہے مگر انہیں نہیں لگتا کہ یہ تقسیم درست ہے۔
انہوں نے اس کے بعد گزشتہ برس ہونے والی میڈیکل کانفرنس میں پیش آنے والا قصہ سنایا جہاں ان کے دونوں شوق یعنی طب اور زندان کا کا ملاپ ہوا۔
ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف پاکستانی ڈسینٹ آف نارتھ امریکا(اے پی پی این اے،اپنا) کانفرنس پاکستانی نژاد ڈاکٹروں، ان کے اہل خانہ اور دوستوں کو آپس میں گھلنے ملنے، ہنسنے، مل کر کھانا کھانے اور دیگر سماجی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
عمر مرزا نے ابھی ’ہسپتال کے وارڈز سے اسٹوری بورڈ تک‘ کے موضوع پر تبصرہ ختم ہی کیا تھا اور وہ کانفرنس ہال کے ایک کونے میں سجائے گئے زندان کے اسٹال پر موجود تھے جہاں کومک کے کرداروں زین اور تیمور کے 10 فٹ اونچے بینرز لگے تھے۔
ایک بچہ جس کا نام تیمور ہے اور اس کی عمر تقریباً 4 برس ہے، بینر کو دیکھتا ہے اور بھاگ کر اسٹال کی آتا ہے۔
بچہ عمر سے کردار کے بارے میں پوچھتا ہے اور کہتا ہے کہ :
تیمور: کیا یہ میری طرح ہے؟
عمر : ہاں، ہاں یہ بلکل ایسا ہی ہے، جیسے آپ۔
تیمور :کیا آپ اسے میری سالگرہ کی تقریب میں لاسکتے ہیں؟
عمر : آپ کی سالگرہ کب ہے؟
تیمور (اپنی ماں سے پوچھتا ہے) : میری سالگرہ کب ہے؟
عمر مرزا نے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پہلی بارمحسوس ہوا کہ یہ ان کی بہت ہی بڑی کامیابی ہے، کیوں کہ انہوں نے صرف بچے کے چہرے اور اس کے تاثرات کو دیکھ کر ہی محسوس کیا کہ کس طرح بچے نے بہت ہی جلدی سے کردار کو پہنچان لیا۔
مہتاب دین نے بھی عمر کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں بچہ تھا تو مجھے کوئی ایسی چیز جیسے اسٹیکر یا کی چین وغیرہ نہیں ملا جس پر میرا نام لکھا ہو، لہٰذا ہمارے لیے یہ ضروری تھا کہ ہمارے کرداروں کے نام زین اور تیمور جیسے ہوں‘۔
ترجمہ : ساگر سہندڑو (یہ مضمون انگریزی میں پڑھیں)