لاہور پَھل نہیں پھول رہا ہے
سترھویں صدی کے عظیم پنجابی صوفی بزرگ اور شاعر بابا بلھے شاہ کا کلام ہے، اپنے کلام 'ڈال ڈال دس خان شہر لاہور اے اندر’ میں حقیقی طور پر خود آگاہی، اپنے ضمیر سے آشنائی، اپنی کمزوریوں اور طاقت کو جاننے کی اہمیت کے بارے میں ہم کلام ہوتے ہیں۔
مگر شہرِ لاہور کا تذکرہ اور اس کے در و دروازے، اینٹیں اور کنوؤں پھر عشق والوں کی عظمت کے بیان سے کلام آپ کے سامنے ایک تصوراتی خیال جوڑتا جاتا ہے، جس میں معرفت کے متلاشی، معرفت حاصل بھی کر لیتا ہے۔ مگر اس کلام سے شہر لاہور کا نقشہ بھی کھنچتا جاتا ہے۔
اس تحریر میں بات بھی اس قدیم شہر لاہور کی ہو رہی ہے۔
کسی کو وہ لاہور یاد ہے، جس کی گلیوں میں برتن کلی کرنے والوں کی آوازیں گونجتی تھیں؟ کسی کو وہ لاہور یاد ہے، جس کے تھڑوں پر شطرنج کی عارضی بیساکھ پر بوڑھے پتھر کے گھوڑوں، وزیروں اور بادشاہوں کی چالیں چلتے تھے؟
وہ لاہور جس کے سڑک کنارے لگے گھنے درختوں کی چھاؤں تلے شدید گرمی میں بھی پابی ٹُھلا یا رنگ کھیلا جاتا تھا۔ جس لاہور شہر کی بسنت پر کوٹھوں پر فلڈ لائٹس لگتی تھیں۔ آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے سجتا تھا اور فضا بو کاٹا کے نعروں سے گونجتی تھی۔
جس لاہور کی نالی والی گلیوں میں کسی گھر کے باہر کھڑے بچے، چیخ چیخ کر آوازیں لگارہے ہوتے تھے، "بالو کڑیو، چیز ونڈی دی لے جاؤ"۔
ممکن ہے کہ 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کے لیے یہ تمام باتیں کچھ سنی سنی سی لگی ہوں۔ جو کسی بھی نصابی کتاب میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے حیرانگی کا باعث ہوں گیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک وقت تھا جب لاہور کی ہر گلی، ایک الگ ہی ثقافت، کلچر اور تہذیب کا گڑھ تھی۔
لاہور کی گلیوں میں روزانہ رونما ہونے والے یہ واقعات یقیناً ان لاہوریوں کو یاد آگئے ہوں گے، جن کی پیدائش 70 یا پھر 80 کی دہائی کی یا اس سے پہلے کی ہوگی۔ مگر انہیں بھی یہ تمام واقعات زیادہ تفصیلاً یاد نہیں ہوں گے اور اس کی وجہ یہ کہ ان دو دہائیوں میں پیدا ہونے والوں کی اکثریت، اب اپنے پیدائشی علاقوں سے ایسے علاقوں میں منتقل ہو چکی ہے جہاں نہ تو لوگ برتن کلی کرواتے ہیں اور نہ ہی ان علاقوں کے بزرگ، تھڑوں پر بیٹھ کر شطرنج کی چالیں چلتے ہیں۔
ساڈا لہور کتھے گیا؟
21 ویں صدی کے آغاز میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں جب ملٹی نیشنل کمپنیز اور میڈیا کی وجہ سے سماج میں مثبت تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں تب شہر لاہورکے باسیوں نے بھی اپنے رہن سہن کو بدلنے کی ٹھانی۔ جس کے بعد آج ایسا لگتا ہے کہ پرانے لاہور کے لاہوری کسی ایسے علاقے میں رہائش پزیر ہیں جو علاقہ کبھی لاہور کا مضافاتی علاقہ کہلاتا تھا۔ جہاں جانے کے لیے لاہوری تب سوچتے تھے جب کسی لاہوری کو یا تو خالص دیسی گھی چاہیے ہوتا یا پھر کسی لاہوری نے اپنے ہاتھوں سے سرسوں کا ساگ خود توڑ کر پکانا ہوتا تھا۔
بدقسمتی سے شاہ درہ کے راوی پُل سے شروع ہونے والا لاہور آج بھی شروع آزادی چوک سے منسلک پرانے راوی پل سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن جو لاہور ایک طرف ٹھوکر نیاز بیگ، دوسری طرف چونگی امر سدھو، تیسری طرف پرانے ایئرپورٹ اور چوتھی طرف واہگہ بارڈر پر ختم ہوتا تھا۔ وہ واہگہ سے آگے ہندوستانی بارڈر ہونے کی وجہ سے آگے تو نا بڑھ سکا لیکن باقی تمام اطراف خود رو جڑی بوٹیوں کی مانند بڑھتا جا رہا ہے۔
آج کے لاہور میں موٹر وے پر چڑھنے کے لیے ٹھوکر نیاز بیگ کا پُل عبور کرتے ہی ایک نیا لاہور شروع ہوتا ہے۔ وہاں نئی تعمیر ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ایک عالیشان لاہور کی جھلک دکھاتی ہیں۔
جہاں نہ تو لاہور کے پرانے علاقوں کی طرح سڑکوں پر تجاوازات ہیں اور نہ ہی دیواروں پر رنگ برنگے پوسٹرز اور مردانہ قوت کی واپسی کے اشتہارات دیواروں پر لکھے ہیں۔ ان کم گنجان آبادیوں میں نہ تو بدبو زدہ خالی پلاٹوں پر آوارہ کتوں کا ڈیرہ ہے اور نہ ہی پلاٹوں میں پھینکے گئے کوڑے سے آوارہ کتے اور بلیاں شاپنگ بیگز چیڑ پھاڑ کر رزق تلاش کرتے ہیں۔
حیران کن طور پر جلوموڑ سے ہوتے ہوئے واہگہ بارڈر جانے والی نہر کنارے آباد سوسائٹیز کی تعداد قدرے کم ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ ابھی تک ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی نے نہر کے اس جانب آباد آبادیوں پر شفقت نہیں بخشی، جس کی وجہ سے جلوموڑ کی جانب جاتی نہر کے اطراف قائم سوسائٹیز وہ شان اور اہمیت نہیں رکھتیں جو ملتان روڈ کے ساتھ جاتی نہر کنارے آباد سوسائٹیاں رکھتی ہیں۔
ڈی ایچ اے کی طرف سے لاہور کی میاں میر نہر کے اس حصّے کو ترجیح نہ دینے کی ممکنہ وجہ نہر کنارے آباد علاقوں جیسے باغبانپورہ، ہربنس پورہ اور تاج پورہ کے وہ انتہائی گنجان اباد علاقے ہیں، جہاں سے گزر کر نہر کنارے آباد علاقوں میں پہنچا جا سکتا ہے۔
پنجاب حکومت کی طرف سے بھی نہر کی اس سائیڈ کو ترجیح نہیں دی گئی اور نہر پر بنائے جانے والے تمام منصوبے ٹھوکر نیاز بیگ اور ملتان روڈ کی طرف جانے والی نہر پر تعمیر کیے گئے۔ تاہم باغبانپورہ کے گنجان ترین علاقے کی ٹریفک سے بچانے کے لیے آج کل 2.6 ارب کی لاگت سے 1.3 کلومیٹر لمبا چاؤ بُچا انڈر پاس زیرِ تعمیر ہے۔ جس کے بعد یہ امید بھی کی جا رہی ہے شاید ڈی ایچ اے کو اس علاقے کا خیال آ جائے۔
اس کے علاوہ لاہور شہر کے نئے ائیرپورٹ کی تعمیر کی وجہ سے پرانے ایئرپورٹ سے آگے کےعلاقے، جو کبھی لاہور کے مضفات میں شمار ہوتے تھے، اب لاہور شہر کا حصّہ تصور کیے جانے لگے ہیں۔ علامہ اقبال ایئرپورٹ کے سامنے تعمیر ہونے والے ڈی ایچ اے کے فیز 8 کی وجہ سے اس علاقے کی زمینوں کی قدر بھی آسمان سے باتیں کرنی لگی ہے۔ برکی روڈ کے ایک جانب فیز 8 اور دوسری طرف دیگر سوسائٹیوں کی وجہ سے لاہور بی آر بی نہر تک پھیل چکا ہے۔ ڈی ایچ اے کے فیز 5 اور 6 کے لیے ملٹی لین براڈ وے تعمیرکی جا رہی ہے۔
برکی روڈ کے قریب واقع بیدیاں روڈ پر بھی ڈی ایچ اے فیز 6 اور 5 تعمیر ہونے کی وجہ سے بیدیاں روڈ بھی لاہور کا رہائشی علاقہ سمجھا جانے لگا ہے۔ جہاں لاہور کے امیروں نے شہر کے شور سے دور اپنے فارم ہاؤسز بنا رکھے تھے۔
ان سوسائٹیز کی خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح افزائش کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جیسے لاہور پھل نہیں رہا بلکہ پھول بھی رہا ہے اور اس کا نقصان بھی لاہوریوں کو پھولے ہوئے پیٹ کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کی طرح ضرور ہوگا۔
کسے اپنا کہیں
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ لاہور کے پرانے علاقے آج بھی قائم تو ہیں مگر وہاں کے رہائشی بھی دیگر پوش علاقوں کے دیکھا دیکھی وہ تمام سہولتیں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے گھروں اور رہن سہن میں شامل کر رہے ہیں۔ آج بھی لاہور کے اندرونی علاقوں کی پتلی گلیوں میں سیوریج کے پائپ بے شک پھٹے ہوں۔ لیکن انٹرنیٹ اور کیبل ہر گھر میں لازمی ہے۔
لاہور کے مختلف علاقوں میں تین دہائیوں سے زیادہ گزارنے کے بعد میں بھی اب ایسی ہی ایک سوسائٹی میں منتقل ہو گیا ہوں جہاں برتن کلی کرنے والوں کی آوازیں نہیں آتیں اور سبزی والا گلا پھاڑ پھاڑ کر آلو، پیاز اور ٹنڈے نہیں بیچتا۔ جہاں گاڑیوں کا شور نہ ہونے کے برابر اور سیکیورٹی باقی لاہور کے علاقوں کی نسبتاً کافی حد تک بہتر ہے۔
لیکن اتنے پرسکون ماحول میں دل نہیں لگتا۔ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے نہ تو دوستوں کے ساتھ گھنے درختوں کی چھاؤں تلے بیٹھ سکتا ہوں اور نہ ہی سڑک پر کرکٹ کھیل سکتا ہوں۔ دنیا والوں کو اس سوسائٹی میں رہنے کی وجہ سے میں بہت پرسکون نظر آتا ہوں لیکن درحقیقت میرا دل اس سوسائٹی سے دور بھاگتا ہے، جہاں نہ تو محلے میں کسی سے جان پہچان ہے اور نہ کوئی کسی دوسرے ہمسائے کو اس قابل سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ وقت گزارا جائے۔
میری سوسائٹی میں بھی شبرات، 10 ویں محرم اور 12 ربیع الاول پر نیازیں بانٹی جانتی ہیں۔ لیکن یا تو وہ بازاری بریانی ہوتی ہے یا پھر ٹھنڈی جلیبیاں۔ کسی کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ کس گھر سے نیاز بھیجی گئی ہے۔ بس نوکر بیل بجاتا ہے اور گھر کا نمبر بتا کر نیاز دے جاتا ہے۔ جس کے بدلے میں میرے گھر والے بھی انہی نمبروں والے گھروں میں نیاز بھیج دیتے ہیں۔
بڑا دل کرتا ہے کہ میں اس سوسائٹی سے کسی ایسے علاقے میں چلا جاؤں جہاں کم از کم بوقت ضرورت محلے دار کام تو آسکیں۔ جہاں مجھے پتہ تو ہو کہ کس گھر میں کون رہتا ہے۔ جہاں ونڈی کی چیز کو میں بھی لے سکوں۔ لیکن پھر اپنے بچوں کا خیال آتا ہے کہ آج کے حالات میں میرے بچے جو اس سوسائٹی میں محفوظ ہیں وہ کہیں اور نہیں ہوسکتے۔ تمام اچھے اسکول بھی قریب میں ہیں کیونکہ اب سب کچھ کرنا تو بچوں کے لیے ہی ہے۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ ٹوئیٹر پر navidnasim@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں