ہمارے فیصلے صدیوں تک قانون کا حصہ رہتے ہیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اعجاز افضال خان کا کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے دیا جانے والا حکم ایک مثال قائم کردیتا ہے اور کئی صدیوں تک یاد رکھا جاتا ہے۔
اورنج میٹرو لائن ٹرین کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضال خان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے فیصلے قانون کا حصہ بن جاتے ہیں اور کئی صدیوں تک برقرار رہتے ہیں'۔
واضح رہے کہ جسٹس اعجاز افضال خان نے اس موقع پر مخصوص کیس کا حوالہ نہیں دیا جبکہ وہ اورنج لائن ٹرین کیس کی سماعت کررہے تھے اس کے علاوہ وہ پاناما لیکس کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچ کا حصہ بھی ہیں تاہم بینچ نے فیصلہ محفوظ کررکھا ہے۔
اسی سبب اورنج لائن ٹرین کیس کے ایک وکیل نے اپنے اختتامی دلائل میں پاناما کیس کا تذکرہ بھی کیا تھا۔
یہ بینچ پنجاب حکومت، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)، پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی (پی ایم ٹی اے) کی جانب سے دائر کی گئی ایک پٹیشن کی سماعت کررہا تھا، جس میں لاہور ہائی کورٹ کے اورنج لائن ٹرین منصوبے میں متاثر ہونے والے تاریخی مقامات کے حوالے سے دیئے گئے ایک فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ معمار اور سماجی رضاکار کامل خان ممتاز کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن پر دیا گیا تھا۔
ان مقامات میں شالیمار گارڈن، گلابی باغ گیٹ وے، چوبرجی، زیب انساء کا مزار، لکشمی، جنرل پوسٹ آفس، ایوان اوقاف، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری، سینٹ اینڈریوز نولکھا چرچ اور بابا موج دریا بخاری کا مزار شامل ہے۔
انسانی حقوق کے رضا کار آئی اے رحمٰن کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد محسن نے سپریم کورٹ کو یاد دہانی کرائی کہ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسو نے کہا تھا کہ عدالتی فیصلے کو لوگ 20 سال بعد بھی یاد رکھتے ہیں، جو انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اورنج لائن ٹرین کیس میں بھی ایسا ہی فیصلہ سنایا جانا چاہیے، جو طویل عرصے تک یاد رکھا جاسکے۔
انھوں نے زور دیا کہ پاناما پیپز کیس میں صرف وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ شامل ہیں جبکہ اورنج لائن ٹرین منصوبے پر کسی بھی فیصلے سے تمام قوم متاثر ہوگی۔
لیکن جسٹس سعید نے وکیل کے مذکورہ دلائل سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عدالت فیصلے کے اثرات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ماس ٹرانزٹ منصوبے کی تعمیر سے تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچے کا خدشہ ہے۔
جسٹس سعید کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک بوجھ ہے اور ہم نے اس بوجھ کو اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے'۔
جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ 'دونوں عدالتیں اور کیس کے مدعی کا نظریہ ایک ہی ہے، جیسا کہ مقصد تاریخی مقامات کا تحفظ اور انھیں محفوظ رکھنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاریخی مقامات ہمارے بھی ہیں لیکن عوام کا پیسہ داؤ پر لگا ہے، جسے ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس موقع پر خواجہ محسن نے زور دیا کہ ان کے موکل ماس ٹرانزٹ منصوبے کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کا مقاصد لاہور کے تاریخی مقامات کا تحفظ ہے، جو مذکورہ تاریخی مقامات کے قریب میں اورنج لائن ٹرین منصوبے کی انڈر گراؤنڈ تعمیر سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس سعید کا کہنا تھا کہ ٹرین کو انڈر گراؤنڈ چلانے کیلئے 20 میٹر گہری کھدائی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے اور یہ بات عملی بھی نہیں لگتی۔
بعد ازاں نیسپاک کے وکیل شاہد حامد نے ایم وی ایشیا کنسلٹنٹ کی جانب سے 2007 میں تیار کی گئی ایک رپورٹ پیش کی جس میں تجویز دی گئی تھی کہ منصوبے کو انڈر گراؤنڈ بنانے سے لاگت کئی گناہ بڑھ جائے گی۔
یاد رہے کہ عاصمہ جہانگیر سول سوسائٹی کے رضاکاروں کی جانب سے اپنے دلائل آج بروز بدھ عدالت میں پیش کریں گی۔