زمین کے 17 'خلائی' مقامات
ہمارے سیارے پر ایسے بے شمار مقامات موجود ہیں، جو کسی بھی طرح زمین کا حصہ معلوم نہیں ہوتے۔
ان میں سے کچھ مقامات کو قدرت نے ہزاروں برس کے دوران تشکیل دیا جبکہ کچھ انسان کے ہاتھوں کا شاہکار ہیں۔
ایسے ہی کچھ مقامات کو دیکھیں جن کو دیکھ کر آنکھوں پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور ان کی خوبصورتی انسان پر جادو طاری کردیتی ہے۔
جہنم کا دروازہ، ترکمانستان
جہنم کا دروازہ قرار دیئے جانے والے اس سوراخ سے 1971 سے مسلسل شعلے بلند ہورہے ہیں، ایسا اُس وقت ہوا جب ماہر ارضیات نے حادثاتی طور پر یہاں کی زمین کو ڈرل کیا جس کے بعد سے یہاں ہر وقت آتش فشاں کی طرح آگ کے شعلے بھڑکتے رہتے ہیں۔
سقوطرہ جزیرہ، یمن
یہ جزیرہ انوکھے نظر آنے والے درخت ڈریگن بلڈ ٹری کا گھر ہے، درحقیقت یہاں پائے جانے والے ایک تہائی درخت ایسے ہیں جو دنیا میں کسی اور جگہ نظر نہیں آتے۔
دنا کیل دپریشن، ایتھوپیا
ایتھوپیا کے جنوب مشرقی کونے پر موجود یہ صحرائی علاقہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے جہاں درجہ حرارت 145 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ دو متحرک آتش فشاں، ایک لاوے پر مشتمل جھیل، گیزرز، تیزابی تالاب اور متعدد معدنیاتی ذخائر کے ساتھ یہ جگہ کسی اور ہی سیارے کا منظر پیش کرتی ہے۔
تیان زی ماﺅنٹین، چین
یہ وہ جگہ ہے جس سے متاثر ہوکر فلم اواتار میں تیرنے والی پہاڑیوں کو تیار کیا گیا تھا، یہ خوبصورت مقام کسی کو بھی مسحور کردینے کے لیے کافی ہے۔
جائنٹ کازوے، آئرلینڈ
شمالی آئرلینڈ کا جائنٹ کازوے نامی علاقہ زمانہ قدیم میں آتش فشاں کے پھٹنے کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ یہ جگہ آپس میں جڑے 40 ہزار ستونوں پر مشتمل ہے جو سبالٹ (سنگ سیاہ) نامی پتھر سے بنے ہوئے ہیں جو کہ لاوے کے ٹھنڈے ہونے سے شروع ہو کر سیڑھیوں کی شکل میں سمندر میں اتر جاتے ہیں۔ یہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے، اس سے قبل لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں غیر فطری طاقتوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔
کپاڈوکیہ، ترکی
ترکی کے علاقے کپاڈوکیہ میں واقع پراسرار چٹانیں بھی دیکھنے والے کو حیران کردیتی ہیں۔ پریوں کے آتش کدے اور فیئری چمنی کے نام سے مشہور یہ چٹانیں قامت میں طویل اور گول مخروطی شکل میں قائم ہیں۔ سطح زمین کے قریب ان کا قطر زیادہ ہے اور بلندی پر مخروطی انداز میں ان کا قطر کم ہوجاتا ہے۔ تمام چٹانوں میں حیرت انگیز طور پر مشابہت ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے انہیں ہاتھ سے تراشا ہے۔
گوانژو لوجیکل پارک، چین
چین کی یہ رنگا رنگ زینگ یائی ڈانژیا نامی پہاڑیاں 27 ملین سال پہلے تشکیل پائی تھیں جو سرخ پتھروں کی فرسودگی کا نتیجہ تھا اور اب یہ کسی اور ہی دنیا کا منظر پیش کرتا ہے۔
صحارا کی آنکھ، موریطانیہ
صحارا نامی صحرا دنیا کا سب سے بڑا ریگستانی مقام ہے جسے صحرائے اعظم بھی کہا جاتا ہے، تاہم موریطانیہ میں موجود 25 میل چوڑا یہ گڑھا دیکھنے والوں کو دنگ کردیتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی خلائی کریشن لینڈنگ کا نہیں بلکہ زمین میں آنے والی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔
ویٹومو گلووارم غار، نیوزی لینڈ
نیوزی لینڈ کے دور دراز علاقے میں واقع نارتھ آئی لینڈ میں 3 کروڑ سال پرانے ایسی غار موجود ہیں، جن کی قدرتی خوبصورتی دنیا میں کسی اور جگہ نہیں دیکھی جاسکتی۔ چونے کے پتھر سے بنے یہ زیرزمین غار جادوئی انداز سے نیلگوں مائل سبز روشنی سے جگمگاتے ہیں۔ درحقیقت یہاں کی تاریکی کو روشنی سے منور کرنے کا کمال گلو وارم یا ایک مخصوص نسل کے جگنوﺅں کی کالونیوں کا ہے۔
ریڈ بیچ، چین
یہ چین کا ایسا دلدلی علاقہ ہے جہاں ایک مخصوص قسم کی سمندری جھاڑی خزاں کے موسم میں سرخ ہوکر اس جگہ کو خون رنگ کردیتی ہے جیسا کہ آپ تصویر میں دیکھ ہی سکتے ہیں۔
نمیڈ کلیوفٹ پارک، نمبیبا
نمیب سینڈ سی کے نام سے معروف یہ مقام دنیا کا واحد صحرائی ساحل ہے۔ یہاں کے ریتیلے میدانوں اور سمندر پر اکثر دھند چھا جاتی ہے جو یہاں کی جنگلی حیات کے لیے ایک منفرد ماحول پیدا کرتی ہے۔
صحرائے وادی رم، اردن
اردن میں موجود یہ شوخ سرخ رنگ کا صحرا اکثر فلموں میں سیارہ مریخ کے طور پر فلمایا جاتا ہے، مثال کے طور پر مشہور فلم دی مارشین کی شوٹنگ اسی مقام پر ہوئی اور بظاہر آپ کو پتا بھی نہیں چلا ہوگا کہ یہ زمین کا کوئی حصہ ہے یا مریخ کا۔
ماربل کیتھڈرل غار، چلی
کہا جاتا ہے کہ یہ غار کوئی چھ ہزار سال پہلے لہروں کے کیلشیئم کاربونیٹ سے ٹکرانے کے نتیجے میں تشکیل میں آیا، یہاں کے پانی کا رنگ بھی موسموں کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور سال کے مختلف مہینوں میں رنگوں کی یہ کہکشاں دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔
سلار ڈی یونی، بولیویا
بولیویا کے اس مقام پر پہنچ کو انسان کو لگتا ہے کہ زمین اور آسمان ایک دوسرے سے مل رہے ہیں، یہ نظارہ حواس پر جادو سا کردیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو شخص ایک بار یہاں گھوم لے وہ اس جگہ کو کبھی بھول نہیں پاتا۔ بارش کے موسم میں اس میدان پر موجود نمکیات سپاٹ ہوجاتی ہے اور پانی کی ہلکی تہہ پھیل جاتی ہے جو آسمان کے عکس کو زمین پر منتقل کردیتی ہے۔
وسٹیریا ٹنل، جاپان
کاواچی فیوجی گارڈنز اس ٹنل نما غار کے اندر واقع ہے جس میں وسٹیریا نامی پودے کے درخت اور لگ بھگ بیس دیگر اقسام کے درخت موجود ہیں، جو اس کی خوبصورتی کو بڑھا دیتے ہیں، جن میں سے ہر ایک کا رنگ جامنی، سفید، نیلا، بنفشی نیلا اور گلابی ہوتا ہے، اپریل سے مئی کے وسط تک یہاں آنے والے ان درختوں کا جوبن دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں جبکہ اس موسم میں یہاں وسٹیریا فیسٹول کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ ان مہینوں سے ہٹ کر آنے والے یہاں کا اصل رنگ دیکھنے سے محروم رہتے ہیں تاہم پھر بھی یہ غار اپنی خوبصورتی سے انہیں مسحور ضرور کردیتا ہے۔
انٹیلوپ کینن، امریکا
ایریزونا میں واقع یہ مقام فوٹوگرافرز کا پسندیدہ ترین ہے جس کی کم از کم امریکا میں سب سے زیادہ تصاویر کھینچی جاتی ہیں۔ سیاح دنیا بھر سے یہاں کے رنگوں کے حیرت انگیز امتزاج کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور یہاں لہروں کی طرح پھیلے پہاڑی سطح سے متاثر ہوجاتے ہیں۔
چاکلیٹ ہلز، فلپائن
یہ چونے کے پتھروں کے ٹیلوں سے بھرا ہوا مقام ہے جو گھاس سے ڈھکا ہوا ہے جو کہ خشک موسم میں بھورے رنگ کا ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے اسے چاکلیٹ ہلز کا نام دیا گیا ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں