سلامتی پہ سوال
بدترین لاقانونیت، سنگین ترین صورتِ حال اور سرزمین ہند پر معلوم تاریخ کے پورے عہد کی، زمین کی تقسیم اور جان کی سلامتی، عمل اور ردِ عمل کی سب سے بڑی جنگ ۔۔۔ چار لاکھ سے زائد ہلاکتیں، پچھہتّر ہزار سے زیادہ انتقامی جنسی زیادتیاں اور تیرہ ملین سے زیادہ مہاجرین۔۔۔
یہ تھا بیسویں صدی کے نصف سے ذرا پہلے پاکستان کاجنم دن۔ ان حالات سے جو گذرے، انہی کے دل جانتے ہوں گے کہ سلامتی اور امان کی قدروقیمت کیا ہوتی ہے۔
جو بعد میں یہاں آکر زندہ رہے، وہ یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ سلامتی اور امان کی قیمت ادا کرنا کتنا کٹھن اور تقسیم کا دکھ کیا ہوتا ہے۔
جو ان دونوں احساس سے نہ گذرے، وہ اب تک سلامتی اور امان کی خواہش رکھتے ہیں بے وقوف کہیں کے، پوری ہوگئی تو تشنہ خواہش، خالی ہاتھ اوپر جانے والے اجداد کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔۔ یہ نہیں سوچتے، بس ایک خواہش ہے کہ جس کی ضرورت ہر گذرتے دن کے ساتھ شدید اور اس تک رسائی پہلے سے کہیں زیادہ مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔
دہائیوں پہلے، اَماوَس کی حَبس زدہ رات میں ہانپتے کانپتے، لرزہ طاری جسموں پر مشتمل ہجوم کوقوم بننے کی نوید ملی۔ قوم، جس کا جنم بھی جیسے ہرن کا بچہ تھا، پیدا ہوتے ہی شکاریوں سے چوکنا رہنے کی نصیحت ملی تھی۔
جس قوم کی پیدائش ہی کان میں خوف کا صور پھونکنے سے ہو، جس کے نتھنے لہو کی نا خوشگوار مہک کے سامنے سب کچھ بھول چکے ہوں، جس کا وجود لوٹا ماری کی دُھول سے اٹا ہو۔۔۔ اسے سلامتی کی ضرورت تن کے کپڑوں اور پیٹ کے خاطر روٹی سے زیادہ ہوتی ہے مگر شاید ہمارے لیے یہ کتابی بات ہے۔
ہمیں تو فخر ہے کہ سلامتی کی تلاش نے ہمیں دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بنادیا، قابلِ فخر ہے ہماری مسلح افواج، جس کا شمار دنیا کی دوسری تیسری سب سے بڑی اور اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل افواج میں ہوتا ہے۔
ہمیں اس پر بھی فخر کہ سلامتی کے نام پر، قومی مفاد کی خاطر ہسپتال، اسکول، ترقیاتی منصوبے۔۔۔ سب کا پیٹ کاٹ کر ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں، آئندہ آنے والی اُن نسلوں کی قیمت پر بھی کہ جنہیں ماؤں کے پیٹ میں آنا ہے۔
جس پارلیمان میں پان سگریٹ، چھالیہ، کپڑے لتّے حتیٰ کہ صدر، وزیرِ اعظم کے سرکاری گھروں کے باورچی خانہ بجٹ تک کو زیرِ بحث لا کر منظور کیا جاتا ہو، وہاں ہم 'قوم' کی خاطرکبھی نہیں پوچھتے کہ بتا تیرا بجٹ کیا ہے اور کس کس مد کے لیے۔ جو تونے کہا وہ سچ، ہم ایمان لائے لیکن میری سلامتی۔۔۔۔ یہ اب تک سوال بنی سامنے کھڑی ہے۔
سن اُنیّس سو سینتالیس۔اڑتالیس میں سلامتی کی خاطر، سلامتی کے ذمہ داروں نے جنگ چھیڑ دی کشمیر کے نام پر۔ اٹوٹ انگ ملا۔۔۔ سوال اب بھی تنازع کی صورت کھڑا ہے اقوامِ متحدہ کی بدنامِ زمانہ ہندوستانی قرارداد کی چھتری تَلے۔
سن اُنیّس سو اٹھاون ۔۔۔ سلامتی کے نام پر فوج کے سربراہ ریاست کے حاکم بنے۔ چوکیدار مالک ہوئے اور درگت لگی گھر والوں کی۔ سرخ انقلابیوں کے لَتّے لیے گئے، کئی موت کے منہ میں جھونکے گئے، کچھ کو اپنے ہی آزاد شہروں سے تڑی پار کیا، کچھ کو سیاست کے جرم میں پھانسا، جمہوریت کے نام پر بانیِ پاکستان کی ہمشیرہ سے بے شرمی کی حد تک بُرا سلوک کیا۔
اُس دن 'فوجی جمہوریت' صدارتی انتخاب جیتی تو سلامتی کے ٹھیکیدار کے چشمِ بَد دُور فرزند نے کراچی میں، امن پہ پہلی گولی داغی تھی۔
سلامتی کو تو چھوڑیے، دہائیوں بعد، آج بھی کراچی کے قبرستانوں میں گرد آلود کفن پہنے امن بلکتا پھرتا ہے، انسان لاش بن کر، کٹے درخت کی مانند زمین پر گرتا ہے اور گولی، سلامتی کے سوراخوں سے بھرے کفن میں ایک اور چھید کرجاتی ہے۔
یہ تھی سیاست کی کارستانیوں سے قوم کو بچا کر سلامتی کی فراہمی ۔۔۔ تاریخ کے سامنے کھڑے ہوگے تو پھرسوال تو اٹھیں گے۔
قومی سلامتی اور دفاع کی خاطر جنگیں لڑی جاتی ہیں، سو ہم نے بھی لڑیں۔ سن اُنیّس سو پینسٹھ میں ہندوستان کے سامنے، اپنی سلامتی کی خاطر سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے۔ جنگ جیتی؟ آخر تاشقند جانا پڑا۔
ذوالفقارعلی بھٹو 'تاشنقد معاہدہ' کے راز افشا کرنے کا کہتے ہی رہے۔ شاید نہ بول کر پردہ پوشی کی اور پھر انہی کے ہاتھوں دار پہ چڑھے۔ اُس دن آمریت کے دار پر، گلے میں پھندا پڑتے وقت جمہوریت نے ضرور یہ سوچا ہوگا۔
سن اُنیّس سو اکھہتر۔۔۔ جس وقت مغربی پاکستان ریڈیو، مشرقی پاکستان میں فوج کے ہاتھوں 'شرپسندی' کچلے جانے کی نوید دے رہا تھا اُس وقت، آج کے بنگلہ دیش میں، کل کے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی کمانڈر جنرل نیازی اپنے ہولسٹر سے فوجی پستول نکال کر ہندوستانی جنرل اروڑا کے سامنے میز رکھ رہے تھے۔
شاید وہی لمحہ تھا جب کہیں سے بنگالی کا ایک اُڑتا جوتا ہماری عسکری علامت کے وجود سے ٹکرایا تھا۔ اُس دن نوّے ہزار علامتیں شکست خوردہ اور شرمندہ سر کھڑی تھیں۔ شر پسندی 'کچلے' جانے کی خبر درست تھی؟
شرمندہ سروں کو سربُلندی کی عطا میں، جمہوریت تو دار پہ جھولی مگر مارشل لا کے تخت پر براجمان جنرل کو افغانستان میں سرخ انقلاب کی گیڈر سنگھی مل گئی۔۔۔ پھر اُس کے بعد:
یہ جو بلوچستان میں ہزارہ شیعہ، کراچی میں صرف شیعہ اور پختون خواہ میں کسی تقسیم کے بغیر۔۔۔ دو سمتوں میں مصروفِ عمل طالبان، ان کی بغل بچہ لشکرِ جھنگوی اور پھر ان کے گماشتے۔۔۔ موت، موت ہوتی ہے لیکن زندوں کو صفوں میں تقسیم کردو تو عمل آسان ہوجاتا۔ وہ یہی کررہے ہیں ۔۔۔ سلامتی اور امان اب بھی بے امان ہیں۔
خواہ وہ سرخوں کے بعد کا افغانستان ہو یا وہاں کے لیے جنم دیے گئے وہ طالبان، جن کے بطن سے جنمے اپنے پاکستانی طالبان، جو کلاشنکوف، بارود اور خود کش حملوں کے ساتھ سلامتی کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
بستیاں ہو یا بازار یا پھرکراچی کا مہران ائیر بس، یا پھر وہاں کامرہ ۔۔۔ دھجیاں ہر جگہ بکھری ہیں مگر پھر بھی کچھ شاید قومی مفاد کی خاطر اُن سے رسم و راہ رکھتے ہیں۔ بعض کہتے پھرتے ہیں کہ اس رسم و راہ کی قیمت بلوچستان میں شیعہ ہزارہ ادا کررہے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہوں گے، سلامتی کی خاطر ایسی قیمت ادا نہیں کرتے۔
سن اُنیّس سو ننانوے میں جنرل پرویز مشرف بھی سلامتی کے نام پر، کارگِل پر فوج لے کر چڑھ دوڑے تھے۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے فوج کے کہے پر، بِل کلنٹن کو خطّے میں سلامتی اور امن کے واسطے نہ دیے ہوتے تو فوجیوں کی لاشیں تو ملی ہی تھیں کارگل کے وسیلے سے، شاید ہمارے ایٹم بموں کو بھی رسوائی کا سامنا ہوتا۔
وہی مشرف اقتدارمیں آئے، مارشل لا کے مزے لوٹے، پیشرو جنرلوں کی طرح جمہوریت بحال کی مگر روایت کے پیشِ نظر قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی، پارلیمان اور حکومت کے لیے 'جمہوری حجرِ اَسود' ہی بنا کر رکھی۔
جو سول سیاستداں، عوام کے نام پر بوسہ دے سکے، دے لے، ورنہ دور سے دیکھ کر جی خوش کرے۔ باہر نکل کر جو جی چاہے کہتے پھرو۔۔۔ شرفِ قبولیت کے بارے میں تو وہی جانے جو باوردی ہو۔ مشرف نے وردی کے بغیر بھی پارلیمان کو ان دونوں امور کی ہوا نہیں لگنے دی تھی۔
جنرل مشرف تو سن دو ہزار ایک میں، بالا ہی بالا، امریکا کی شروع کی جانے والی 'دہشتگردی کے خلاف جنگ' میں ایسے شریک ہوئے کہ وہ تو اب افغانستان سے اگلے سال نکل لے گا مگر اُس کی جنگ اب ہمارے گلے ایسی پڑی کہ سلامتی کے مارے اور امن کے متلاشی بھول چکے کہ مستقبل کیا ہے۔ کیا بات ہے: رانجھا رانجھا کردے نی میں آپئی رانجھا ہوئی۔
سلامتی کے تحفظ کے نام پر لڑی جانے والی ساری جنگیں، سلامتی کی دعائیں مانگنے والوں کے ماتھوں پر ناکامیوں کے جھومر کی صورت لٹکی ہیں۔۔۔ ذرا یہ تو بتا دیں کہ سلامتی کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ کس گھونسلے میں بیٹھا ہُما ہے اور کب سلامتی کے ماروں کو امان بخشے گا؟
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ۔۔۔ سلامتی اور امان کے نام پر اب بھی نہ جانے کتنوں کے دَم نکلنا باقی ہیں۔ سلامتی اور امان کے کفن میں شاید اب بھی مزید چھید ہونے کی جگہ باقی ہے۔۔۔ جانے وہی جس کے قبضے میں ہماری جان کی سلامتی اور روز و شب کا امان ہے۔
مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں