تین ناکام ایجادات کرنے والے پاکستانی کی کامیاب ویب سائٹ
پاکستان نوجوان سمیر احمد خان نے سوشل چیمپ بنانے سے پہلے 3 دیگر ٹیکنالوجی منصوبوں میں قسمت آزمائی تھی، مگر ہر بار ناکام رہے۔
پھر انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ سوشل چیمپ بنائی جائے۔ ان کی تیار کردہ یہ ویب سائٹ سوشل میڈیا پر پوسٹ یا شیئر کیے گئے مواد کو ترتیب کے ساتھ شیڈول کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے، مگرانہیں یہ کامیابی کئی ناکام تجربات کے بعد ملی۔
کامیابی سے پہلے 3 ناکامیوں کی کہانی
سمیر خان کا پہلا ناکام تجربہ گیم او چیٹ نامی گیمنگ انجن کی تیاری تھی، جس کے ذریعے ویڈیو گیم کی تیاری سمیت بیک وقت کئی افراد کو گیم کھیلنے کا موقع فراہم کیا جاسکتا تھا۔
تین سال تک اس گیمنگ انجن پر سخت محنت کرنے کے باوجود سمیر اسے لانچ نہیں کرسکے۔
ان کا دوسرا تجربہ ایجوکیٹنگ ڈریمز نامی ایک ایپ کی تیاری تھی، جس کے ذریعے بے سہارا اور گلیوں میں گھومنے پھرنے والے بچوں کو فلاحی اداروں کے اسکولز کے ساتھ منسلک کرنا تھا۔
یہ ایک نہایت ہی سادہ ایپ تھی، کوئی بھی شخص کسی بھی بے سہارا بچے کی تصویراس ایپ کو بھیجتا تو ایپ اس بچے کے مقام کو خود ہی شناخت کرکے متعلقہ علاقے کے فلاحی ادارے کے اسکول کو بچے سے متعلق آگاہ کرتی۔
اگرچہ اس ایپ کو نہایت اچھے ارادوں سے تیار کیا گیا، مگر وہ کئی مقابلے جیتنے کے باوجود لانچ ہونے کے لیے فنڈنگ حاصل نہیں کرپائی۔
این جی اوز نے اس ایپ کے ساتھ یہ کہہ کر معزرت کی کہ بچوں کی جانب سے مسلسل جگہ تبدیل کیے جانے کے بعد بچوں کی لوکیشن ٹریس کرنا مشکل ہوگا۔
دوسرا تجربہ بھی ناکام ہونے کے بعد سمیر خان نے ہمت نہیں ہاری، اور انہوں نے تیسرے منصوبے پر کام شروع کردیا۔
سمیر خان نے اس بار مختلف باتوں اور کاموں کی یاد دہانی کروانے کے لیے ریمائنڈ زیپ نامی ایک موبائل فون ایپ تیار کی، مگر یہ ایپ بھی کئی مسائل کی وجہ سے کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔
سوشل چیمپ کی شروعات
بار بار ناکامیوں کے باوجود سمیر خان نے ہمت نہیں ہاری، اور انہوں نے کام جاری رکھا، اور وہ آج 26 سال کی عمر میں سوشل چیمپ نامی ویب سائٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اور شریک بانی ہیں۔
سوشل چیمپ آج ایک کامیاب پلیٹ فارم بن چکا ہے، جس کے ذریعے لوگ سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس کی شیئرنگ کو ترتیب دیتے ہیں۔
سوشل چیمپ کا استعمال کیوں کیا جائے؟
اگر آپ سوشل میڈیا پر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کئی چیلنجز آپ کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ افراد تک اپنی بات پہنچانے کے لیے پوسٹ کے درست وقت کا انتخاب۔
مواد کی مانیٹرنگ کرنا اور اپنے قارئین کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنا تاکہ پوسٹ کی گئی ہر چیز پر زیادہ سے زیادہ کلک ہوں۔
پوسٹس کو شیڈول کرنا۔
پوسٹوں کو بار بار شیئر کرنا۔
برانڈ کے امیج کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹنگ کی حکمت عملی کو برقرار رکھنا۔
سوشل چیمپ کا آئیڈیا کس طرح آیا؟
سمیر خان کو سوشل چیمپ کا آئیڈیا اس وقت آیا جب انہیں اپنے پچھلے تین تجربات کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا پر بار بار چیزیں شیئر کرنی پڑیں۔
سمیر خان تیار کی گئی اپنی چیزوں کی تشہیر کے لیے دن بھر مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے پوسٹس سوشل میڈیا پر شیئر کرتے تھے۔
سمیر خان نے اپنے دوست زوہیب احمد شاکر سے ایک ایسا ٹول ڈویلپ کرنے میں مدد کرنے کے لیے کہا جو ان کی پوسٹس مناسب وقت پر زیادہ سے زیادہ متعلقہ افراد تک پہنچانے کے لیے ری شیڈول کرسکتا ہو۔
بعد ازاں سمیر خان نے اپنا آئیڈیا ٹیکنالوجی کی ٹیک جوس نامی ویب سائٹ کے ساتھ شیئر کیا، جنہوں نے ان کے تجربے کو پسند کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تجربے کو بہت پسند کیا جائے گا اور اسے کئی لوگ استعمال کریں گے۔
غیرملکیوں کی سوشل چیمپ میں دلچسپی
سمیر خان نے بعد ازاں ایپل کے بانی اسٹیوو جابز کے قریبی دوست اور امریکی سوشل میڈیا کے ایکسپرٹ گائے کاواساکی کو اپنے تجربے سے متعلق ای میل کی، جنہوں نے انہیں حوصلہ مند جواب دیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سمیر خان کو کاواساکی کی سوشل میڈیا سے متعلق لکھی گئی کتاب ’دی آرٹ آف رپیٹنگ‘ سے ابتدائی سوشل میڈیا میجنمنٹ ٹولز کا خیال لیا، جو آگے چل کر سوشل چیمپ کی تیاری کا سبب بنا۔
سمیر خان کی ای میل پر کاواساکی نے مثبت جواب دیا، حالانکہ اس وقت سوشل چیمپ میں کئی فیچرز کی کمی تھی۔
سمیر خان نے کاواساکی کو ایک اور ایمیل کرتے ہوئے درخواست کی کہ ان کی ویب سائٹ کا تنقیدی جائزہ لے کرانہیں اس میں مزید بہتریاں لانے کے لیے رہنمائی فراہم کریں۔
سمیر خان اپنی ویب سائٹ کو عالمی سطح کی ویب سائٹس ہوٹ سوٹ اور بفر کے مقابلے کا بنانا چاہتے تھے۔
کاواساکی نے سمیر خان کو غیر غیر روایتی مارکیٹنگ کی حکمت عملی کو یقنینی بنانے کے لیے سوشل میڈیا کے دیگر بڑے ناموں سے بھی رابطہ کرنے کا کہا۔
جس کے بعد سمیر خان کو اییان اینڈرسن گرے، پیگ فٹزپیٹرک، نیل شیفراور لنڈسے فلپس کی جانب نہایت حوصلہ مند جواب موصول ہوئے۔
پاکستانی سرمایہ کاروں کے شکوک
سمیر خان نے سوشل چیمپ میں بہتریاں لانے کے بعد ایک بار پھر اس امید کے ساتھ متعدد پاکستانی سرمایہ کاروں سے رابطہ کیا کہ وہ سرمایہ کاری کے لیے راضی ہوجائیں گے۔
مگر سمیر خان کو پاکستانی سرمایہ کاروں کی جانب سے شکوک و شبہات پر مایوسی ہوئی، کیوں کہ کئی فرمز نے اس منصوبے پر یا تو سرمایہ کاری کرنے سے انکار کردیا تھا یا پھر بہت ہی کم سرمایہ کاری کر رہے تھے۔
ایسے منصوبوں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری حاصل کرنا آسان نہیں، سمیر خان کو اس بات کا احساس سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے بعد ہوا۔
مقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے انویسٹمنٹ نہ کیے جانے کے باوجود سمیر خان نے غیر منافع بخش ٹیکنالوجی ادارے دی نیسٹ آئی او کی مدد سے اپنی ویب سائٹ میں مزید بہتریاں لانے کا کام جاری رکھا۔
سرمائے کے بغیر سوشل چیمپ کیسے بنی؟
سمیر خان اور ان کے دیگر دوستوں نے سوشل چیمپ پر اپنا ذاتی پیسہ لگایا اور ویب سائٹ کی تکمیل تک فری لانس کام کرتے رہے۔
سمیر خان نے بتایا کہ اگر ان کے منصوبے پرپاکستانی کمپنیاں سرمایہ کاری کرتیں تو وہ ایک سال آگے ہوتے، مگر ابھی وہ ابتدائی مراحل میں ہیں، دوسروں کی جانب سے منصوبے کو اہمیت نہ دئیے جانے کے بعد وہ خود اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔
سمیر خان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کے پاس منصوبے پر پیسے خرچ کرنے کا متبادل نہیں ہے تو آپ کو اس کے لیے ذرائع تلاش کرنے پڑتے ہیں۔
انہوں نے پے پال ایجاد کرنے والے ایلن مسک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے ان جیسے کیوں نہیں ہوسکتے؟
سمیر خان کو پاکستانی کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری نہ کرنے پر افسوس نہیں ہے، بلکہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں کام کرنے سے انسان وہ چیزیں بھی سیکھتا ہے جو وہ دوسرے ممالک میں نہیں سیکھ سکتا۔
سمیر کہتے ہیں کہ "پاکستان میں انسان اتنے مسائل کے درمیان پلتا بڑھتا ہے کہ اسے مشکل سے مشکل چیزوں کا بھی حل نکالنے کا ہنر آ جاتا ہے۔"
ان کے مطابق اس سے نہ صرف افراد کی قابلیت بڑھتی ہے، بلکہ آدمی اعصابی طور پر بھی مضبوط بھی ہوتا ہے۔
اگرچہ سمیر خان اور اس کے شریک بانی کے پاس امریکا میں سوشل چیمپ کا دفتر قائم کرنے کے مواقع ہیں، مگر وہ یہ کام پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں۔
سمیر خان کہتے ہیں ’اگرچہ مجھے احصاس ہے کہ بیرون ملک کی زندگی یہاں سے زیادہ پرسکون ہے، مگر مجھے لگتا ہے کہ مجھے یہاں کے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔"
تصاویر بشکریہ سوشل چیمپ۔
اگر آپ بھی اپنے کسی منصوبے یا کام پر تبصرہ شائع کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھیجیں۔ ہمارا ای میل ایڈریس: [email protected] ہے۔