کلبھوشن کی سزا کے بعد کیا ہوگا؟
بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جانب سے سنائی جانے والی سزائے موت کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی۔
ٹی وی چینلز پر اس حوالے سے بات کرنے والے زیادہ تر تجزیہ کاروں نے فیصلے کا خیر مقدم کیا تاہم بعض نے کہا کہ بھارت کی جانب سے رد عمل بہت سخت ہوگا جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ اس سے باہمی تعلقات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئے گی۔
سزا ایک وارننگ ہے
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ کل بھوشن کی سزا پاکستان کے خلاف سازش کرنےوالوں کیلیے وارننگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کلبھوشن نے پاکستان میں کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے اور اسے سزائے موت پاکستان کے قانون کے مطابق دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی گئی
وزیردفاع کے مطابق بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف ریاستی دہشت گردی کر رہی ہے، بھارت عالمی سطح پر معاملہ لے گیا تو پاکستان بھرپور دفاع کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ قانون پوری قوت سےدشمنوں کے خلاف حرکت میں آئے گا، ایسی کارروائیوں میں ملوث افراد سے ریاست آہنی ہاتھوں سےنمٹے گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کو مغربی سرحد سے بھی بھارتی جارحیت کا سامنا ہے، بھارت سے تعلقات خوشگوار اور آئیڈیل نہیں ہیں۔
کسی دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ 'پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے اور یہاں ایک قانون موجود ہے'۔
اگر قانون کے مطابق کلبھوشن یادیو مجرم قرار پایا تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اسے سزائے موت سنائیں اور اس پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں: 'کلبھوشن یادیو کو بھارت کے حوالے کرنے کا کوئی امکان نہیں'
رحمٰن ملک نے کہا کہ 'ہمیں کسی کے دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں چاہے وہ بھارتی ہو یا بین الاقوامی اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کیا جائے'۔
رحمٰن ملک کے مطابق 'وہ لوگ جنہیں اس اقدام پر تشویش ہے وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مودی نے کھلے عام اس بات کا اعتراف کیا ہے پاکستان کو توڑنے میں بھارت کا ہاتھ تھا'۔
پوری قوم فیصلے پر متحد ہے
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا تھا کہ 'پوری قوم کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینے کی حمایت کرے گی، یہ درست فیصلہ ہے جبکہ یہی درست وقت ہے کہ بھارت کی مداخلت کے معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے تاکہ اس مسئلے کا دیرپا حل نکالا جاسکے'۔
کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی
سیاسی تجزیہ کار ایئر مارشل (ر) شہزاد چوہدری نے کہا کہ 'میں نہیں سمجھتا کہ اس فیصلے کے بعد بھارت سے ہمارے تعلقات میں کوئی تبدیلی آئے گی، دونوں ملکوں کے درمیان اور بھی کئی معاملات پر اختلافات ہیں'۔
'میرا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کو اس معاملے کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے کیوں کہ اور بھی بحث طلب مسائل موجود ہیں اور اس طرح صورتحال معمول پر برقرار رہے گی اور اس وقت یہی بہتر طرز عمل ہوگا'۔
رد عمل آئے گا
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے کہا کہ ’کافی عرصے سے پاکستان یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں میں ملوث ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: ’را ایجنٹ مراٹھی بولنے کے باعث گرفتار ہوا‘
’ہمارے سفراء اس معاملے میں معاونت کے لیے مختلف ملکوں میں گئے اور انہیں شواہد دکھائے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، اب جبکہ ہم نے اپنے طور پر اقدام کرلیا ہے جو کہ درست ہے ہمیں بھارت کے رد عمل کے لیے تیار رہنا چاہیے‘۔
طلعت مسعود نے کہا کہ ’یہ فیصلہ بالکل درست اور قانون کے مطابق ہے البتہ ہمیں تیار رہنا ہوگا کیوں کہ ردعمل ہوگا عالمی سطح پر بھی اور پاکستان کو لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کی خلاف ورزیوں میں اضافے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے‘۔
ثبوت منظر عام پر لانے چاہئیں
سینیئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ ’سب سے پہلے پاکستان کو جاسوس کے خلاف ملنے والے شواہد منظر عام پر لانے چاہئیں اور اسے بین الاقوامی سطح پر بھی شیئر کرنا چاہیے‘۔
'دوسری بات یہ کہ ہر کوئی ابھی سے کیوں بھارتی ردعمل کی بات کررہا ہے، مجھے یقین ہے کہ بھارت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان خبروں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان سے انڈین نیوی کا حاضر سروس افسر گرفتار
حامد میر نے کہا کہ 'اگر لوگوں کو یاد ہو تو جب اجمل قصاب کو سزا سنائی گئی تھی اس وقت سارے معاملے میں پاکستان بالکل خاموش رہا تھا، پاکستان کی کسی سیاسی جماعت یا ادارے نے اس کی مذمت نہیں کی تھی، ہمارا رویہ سادہ سا تھا کہ اگر قصاب کے خلاف شواہد ہیں تو اسے بھارتی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہیے'۔
انہوں نے کہا کہ 'بھارت کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے اور کلبھوشن یادیو کو ہیرو بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور بھارتی میڈیا کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے'۔
دنیا بھر میں یہی طریقہ کار ہے
سینیئر تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بھارت کی جانب سے منفی رد عمل آئے گا اور وہ یہی کہیں گے کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں معمول کا طریقہ کار یہی ہے کہ جب بھی حکومتیں کسی ملک کے جاسوس کو پکڑتی ہیں انہیں اپنے ملک کے متعلقہ اداروں کے سامنے پیش کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تو ویسے بھی تعلقات اچھے نہیں ہیں لیکن امریکا اور اسرائیل بھی اگر ایک دوسرے کے ممالک میں محض جاسوسی کے الزام میں کسی کو گرفتار کرتے ہیں تو متعلقہ ملک کو اس کی تفصیلات نہیں بتائی جاتیں۔
انہوں نے کہا کہ یقیناً اس معاملے پر بھارت کا رد عمل ہوگا اور انتہائی سخت بھی ہوسکتا ہے۔
سینیئر صحافی افتخار شیرازی نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اس سلسلے میں اپنی حمایت کا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالے گی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ پٹھان کوٹ حملہ ہو، ممبئی حملہ ہو یا بھارت میں دہشت گردی کا کوئی اور واقعہ ہو، جب بھی بغیر تحقیق بھارت نے پاکستان پر انگلی اٹھائی ہے تو عالمی برادری نے بھی دہلی سرکار کی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور پاکستان کے کردار پر سوال اٹھائے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے منفی رد عمل آئے گا اور یہی کہا جائے گا کہ ’قونصلر رسائی نہیں دی گئی، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، شفاف ٹرائل نہیں ہوا‘۔
رد عمل کی پروا نہیں کرنی چاہیے
افتخار شیرازی نے کہا کہ پہلے مرحلے میں تو بھارت نے کہا تھا کہ یہ تو بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہی نہیں ہے اور ریٹائرڈ افسر ہے جبکہ اس کا را سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ڈھاکا میں جاکر خطاب کیا جس میں انہوں نے پاکستان توڑنے کا کریڈٹ لیا اور کہا کہ 1971 میں جو سازش ہوئی وہ بنیادی طور پر بھارت نے کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کلبھوشن بھی ایسا کرتا رہا ہے تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں، بھارت سے ہمیں خیر کی توقع رکھنی ہی نہیں چاہیے۔
افتخار شیرازی نے کہا کہ ہمیں بھارت اور عالمی برادری کے ردعمل کی پروا نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں جس کی بنیاد پر ہم نے کلبھوشن کو اتنی بڑی سزا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اور عالمی برادری اس سلسلے میں کوئی رد عمل دیتی ہے تو پاکستان کو اس کا جواب بھی موثر طریقے سے دینا چاہیے۔
فیصلہ چیلنج ہوسکتا ہے
تجزیہ کار محمود شاہ نے کہا کہ ’پاکستان کے آئین کے مطابق کلبھوشن یادیو کو کچھ حقوق حاصل ہیں، ملٹری کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ ایسا کریں گے بھی، سپریم کورٹ کو بھی قانون کے مطابق فیصلہ دینا چاہیے اور اس کے بعد اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کی پھانسی سے بھارت تھوڑا سا دفاعی حکمت عملی اپنائے گا کیوں کہ کلبھوشن کے بعد بھی بلوچستان اور دیگر علاقوں میں بھارت کی مداخلت کا سلسلہ جاری ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے بعد بھی پاکستان میں بھارت کی مداخلت کے ثبوت موجود رہیں گے۔