دولہا دریا خان: تاریخِ سندھ میں سچائی، بہادری اور قربانی کا امر کردار
ہم سب ہی بس اس جہاں میں جیے جاتے ہیں، نہ کوئی نقوش چھوڑتے ہیں نہ ہی کوئی غیر معمولی داستان۔ پیدا ہوئے، بچپن، جوانی گزاری پھر بڑھاپے کی تُرشی چکھی اور عالم عدم کے راہی ہوئے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ، انسان مُشتِ غُبار کے سوا ہے بھی کیا؟ یہ حقیقت بھی تو ہے۔ مگر کچھ لوگ ہوتے ہیں جو مشت غبار میں اپنے عوامل کے ایسے بیج بو جاتے ہیں کہ صدیوں تک اُن سے پھول کھلتے رہتے ہیں۔ پھر اس پگڈنڈی سے جس کاررواں کا گزر ہوا، اُسے اُس مہکتے پھول کے رنگ بھی دکھائی دیے اور خوشبو کی فرحت سے بھی آشنا ہوئے، کہ نیکی پر خزاں نہیں آتی اور بدی پر بہار نہیں آتی، یہ انسان کا نہیں، فطرت کا بنایا ہوا قانون ہے۔
آپ اگر تاریخ کے طالب علم ہیں تو میرے خیال میں آپ بہت خوش نصیب ہیں کہ صدیوں پر محیط کردار اور حقائق آپ کے سامنے عیاں سے ہوتے ہیں، جنم سے لے کر سپرد خاک تک۔ جنگ و جدل، محلات اور مُحلوں میں ہوتی ہوئی سازشیں، شاہی باراتیں اور اُن محلوں اور گلیوں سے اُٹھتے حاکموں کے جنازے، وفا اور وفا کی کوکھ سے اُگتی بیوفائی کی آکاس بیل، بستے اور ویران ہوتے ہوئے شہر اور بستیاں، یہ سب آپ کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے، بس یہ آپ پر ہے کہ آپ ان سارے مناظر کو اپنے ذہن میں کیسے تراشتے ہیں۔
اس کہانی کی ابتدا مکلی کے قرب و جوار سے ہوتی ہے۔ ایک ایسا انسان جو غُربت، بیچارگی اور بے بسی کی دھوپ چھاؤں میں پلا۔ پھر 1475 میں سندھ کے سلطان جام نندو کو ملا، (جام نندو کے زمانے میں سندھ کی سرحدیں سبی تک پھیلی ہوئی تھیں) اور وہ لڑکا جو ایک چرواہے کی زندگی بسر کر رہا تھا۔
وہ لڑکا اپنی ذہانت کی وجہ سے وقت کے حاکم کے محل آ پہنچا۔ جام نندو کی آنکھ نے اس نوجوان کی ذہانت اور بہادری کو پرکھ لیا تھا، اس لیے اس کی ایک بیٹے کی طرح پرورش کی، اُس کو گھڑ سواری سے لے کر شمشیر زنی اور تیراندازی کی تربیت دی، اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا اور اسے دریا خان کا نام دیا۔
15 برس کے بعد جب ہم سندھ کے سرحدی شہر سبی کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ نوجوان دریا خان ایک بہادر جنگجو کے روپ میں نظر آتا ہے۔ جام نندو کے زمانہ میں، ہرات سے سلطان حسین بایقرا کا حُکم چلتا تھا، سلطان حسین کی فوج نے سندھ کے سرحدی شہر سبی پر حملہ کیا جہاں امیر بہادر نامی جو جام نندو کا نائب مقرر تھا. منگولوں کے حملے میں سندھی فوج نے شکست کھائی اور سبی پر ہراتیوں کا قبضہ ہوا۔
یہ واقعہ 1487 میں ہوا اور یہاں محمد ارغون (شاہ بیگ ارغون کا بھائی) عملدار کے طور پر مقرر ہوا۔ اس فتح کی وجہ سے ارغونوں کا رویہ بڑا کڑوا اور کرخت رہا۔ آخر ٹھٹھہ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ، دریا خان کی سپہ سالاری میں، سبی لشکر بھیجا جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ 1490 میں ارغونوں اور دریا خان کی فوجوں کے درمیاں جنگ ہوئی جس میں سلطان محمد ارغون مارا گیا۔ یوں دریا خان ایک بہادر سپہ سالار کا اعزاز لے کر لوٹا۔
’تاریخ معصومی‘ کے مصنف، میر معصوم بکھری اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں، "دریا خان نے اپنی ذہانت اور تدبر سے ملتان سے کیچ مکران اور کَچھ تک کا علائقہ سندھ کی حکومت میں شامل کر لیا۔ یہ سندھ کے لیے ایک اچھا زمانہ تھا۔" اس کے اٹھارہ برس کے بعد یعنی 1508 میں جام نظام عرف جام نندو نے اس بے بقا جہاں سے آنکھیں مُوندیں تو ٹھٹھہ کے آسمان نے بھی اپنا رنگ بدلنا شروع کیا۔
جام نندو کی وفات کے بعد ان کا بیٹا جام فیروز ابھی عمر میں چھوٹا تھا اس لیے تخت پر تو بیٹھا پر سلطنت کے سارے معاملات دریا خان نے سنبھالے۔ یہ بات جام فیروز کی ماں مدینہ کو ٹھیک نہیں لگی۔ تخت و تاج کی طاقت اور ہوس اچھے اچھوں کی آنکھوں سے دید چھین لیتی ہے۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جام نندو کی دریا خان سے شفقت دریا خان کے لیے ایک امتحان بن گئی، وہ نہ اس خاندان کو چھوڑنا چاہتا تھا اور نہ ان سے لڑنا چاہتا تھا اور نہ ہی دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتا تھا۔ جبکہ جام نندو کے خاندان میں غلط فہمیوں کی بنیاد پر شک و شبہات کی خاردار جھاڑیاں اُگنے لگیں کہ، کل کلاں کو دریا خان نے تخت پر قبضہ کر لیا تو کیا ہوگا؟
میر معصوم بکھری تحریر کرتے ہیں، "جام فیروز کم عمر جوانی میں تخت پر بیٹھا تھا وہ اپنا زیادہ وقت حرم میں گزارتا تھا، اچھے بُرے کی تمیز کرنا اُس کے بس میں نہیں رہا۔
باہر آتا تو اُس کی مجلس میں مسخروں اور بھانڈوں کی بہتات ہوتی، شہریوں کی کوئی عزت نہیں رہی۔ دریا خان اُن کو روکتا تو اُن کی عزت بھی نہیں کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے دریا خان اجازت لے کر سیہون کے قریب اپنی جاگیر ’گاہو‘ میں آ کر رہنے لگے۔‘‘
جام فیروز کی ان حرکتوں اور بیوقوفیوں کی وجہ سے جام صلاح الدین نے سلطان مظفر گجراتی کی مدد سے ٹھٹھہ پر حملہ کیا۔ مارچ 1512 میں سندھ کے امیروں اور گجراتی لشکر کی مدد سے سندھ پر قبضہ کیا اور جام فیروز بغیر کسی مزاحمت کے تخت گاہ سے دستبردار ہو گیا۔ جبکہ جام صلاح الدین جو سمہ خاندان کے مشہور بادشاہ جام سنجر کا بیٹا تھا وہ فقط آٹھ ماہ ہی حکومت کر سکا۔
اس منظرنامے سے واضح ہوتا ہے کہ جام فیروز کو اُس کے غیر سنجیدہ عوامل کی سزا ملی اور ماں بیٹے کو دریا خان کی اہمیت کا احساس ہونے لگا، اس ’نظریہ ضرورت’ کے تحت دونوں ماں بیٹے دریا خان کے پاس گاہو پہنچے، دریا خان نے اپنے ظرف کا مظاہرہ کیا اور انکار نہ کر سکا۔
دریا خان نے ’بکھر‘ اور ’سیہون‘ سے لشکر اکٹھا کر کے ٹھٹھہ پر کامیاب حملہ کیا جس کے نتیجے میں جام فیروز 12 اکتوبر 1512 کو پھر تخت نشین ہوا۔ دو تین برس گزر گئے مگر کبھی کبھار چین، سکون اور امن کی ہریالی کچھ لوگوں کو اچھی نہیں لگتی، ڈالیوں پر اگر کوئل بولے تو اُن کو یہ اچھا نہیں لگتا اُن کے تصور میں کوئل کی جگہ اگر کاگا ہی بولے تو اچھا۔
محلات کی ٹھنڈی چھاؤں اور مخالفوں کی چرب زبانی کے سبب، دریا خان کے ساتھ پھر سے وہی پرانی روش اختیار کی گئی۔ سبب یہ ہی ہوسکتا ہے کہ، دریا خان ایک با عمل انسان تھا، وہ جہاں اچھا سپہ سالار اور حاکم تھا وہاں وہ ایک اچھا ماہر آبپاشی بھی تھا۔ اُس نے ٹھٹھہ کے قریب ایک نہر بھی کھدوائی کہ وہ زمینیں جو پانی کی کمی کی وجہ سے بیکار پڑی ہیں وہ اناج اُگانے لگیں۔ ایسے بھلائی کے عملی کام ان کے گلے پڑ جاتے تھے۔
جام فیروز کی والدہ اب ایک بار پھر سے دریا خان سے چھٹکارہ چاہتی تھیں۔
’گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغوں سے‘ یہ کہاوت یہاں موزوں محسوس ہوتی ہے۔ 1516 میں جام فیروز کی ماں قندھار جا کر، شاہ بیگ ارغون کو سندھ پر حملہ کرنے کی دعوت دے آئیں۔ اپنی بیوقوف اولاد کو سمجھانے کے بجائے اُنہوں نے آگ کو خود چل کر دعوت دی کہ آؤ اور ہمیں جلا کر بھسم کر دو۔ ہم نہیں تو کوئی اور بھی نہیں۔ جب وقت کے حاکم کی حد نظر تخت و تاج سے آگے نہ بڑھ سکے تو رعایا کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
ارغونوں کے لیے یہ ایک شاندار موقعہ تھا۔ اُن کے دل و دماغ میں سبی والے معرکے میں بہے خون کا رنگ ابھی سُرخ تھا۔ شاہ بیگ کے دل پر بھائی کے قتل کا زخم تازہ تھا۔ انہوں نے شروعات چھوٹے چھوٹے حملوں سے کی۔
میر معصوم لکھتے ہیں، "1518 کے جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں، سبی سے ہزار سوار تیار کر کے، گاہو کے گاؤں باغبان محلے پر حملہ کر کے ایک ہزار اونٹ اپنے ساتھ لے گئے جو رات کو رہٹوں میں بندھے ہوئے باغات کو پانی پہنچا رہے تھے۔
ارغونوں کے حملوں کی وجہ سے سارے ملک میں ایک افراتفری سی پھیل گئی۔ مگر جام فیروز نے اس جلتی آگ سے بے پرواہ ہو کر، ٹھٹھہ چھوڑ کر جنوب کی طرف پیر پٹھو کی راہ لی۔ مگر دریا خان، جسے جام نندو نے ’مبارک خان‘ اور ’خان اعظم‘ کے لقب دیے تھے، ارغوںوں کے سامنے ڈٹ گیا۔
22 دسمبر 1520 کو بُدھ کا دن تھا، جاڑا اپنے عروج پر تھا اور ساموئی (مکلی سے شمال کی طرف) جنگ کا میدان تیار تھا۔ ارغون اور دریا خان کے لشکروں میں یہ جنگ ہوئی اور ارغونوں کو فتح حاصل ہوئی۔
دریا خان کے قتل کے متعلق متضاد حوالے ہیں۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ، شام کے وقت میدان جنگ میں، دریا خان ایک تنگر بردی قبتاش نام کے ارغون کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ جبکہ میر محمد پورانی اپنی کتاب ’نصرت نامہ ترخان‘ (1560) میں لکھتے ہیں کہ، "ٹھٹھہ کی فتح کے بعد شاہ بیگ ارغون نے قیدی سپہ سالار دریا خان کو اپنی تلوار سے خود قتل کیا۔" کچھ بھی ہوا ہو، پر دونوں صورتوں میں ایک بہادر اور دھرتی سے سچے انسان کا اس دنیا سے بے وقت چلے جانا ہی نتیجہ ٹھہرا۔
دریا خان نے آنکھیں موندیں تو جام فیروز شاہ بیگ ارغون کے سامنے پیش ہوا اور سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ سیہون سے جنوب کی طرف کا حصہ جام فیروز کو دیا گیا اور سندھ کے شمالی حصے پر ارغونوں کا قبضہ ہوا۔
آپ اگر مکلی میں جام نندو کی آخری آرامگاہ کی طرف جا رہے ہیں تو تھوڑا پہلے راستے کی بائیں طرف آپ کو ایک شاندار چار دیواری نظر آئے گی جس کے اندر جانے کے لیے آپ کو دو دروازے نظر آئیں گے۔ ایک دروازہ جنوب کی طرف ہے اور دوسرا مشرق کی طرف۔ یہ سنگتراشی کے حوالے سے انتہائی شاندار دروازے ہیں۔
اس مقبرے کی تعمیر کی بنیاد 1490 میں رکھی گئی۔ جنوبی دروازہ پر کچھ اس طرح سے تحریر ہے: ’خان الاعظم میاں مبارک خان ولد سلطان نظام الدین شاہ‘۔ اس چار دیواری کے اندر کی اراضی 72 مربع فٹ ہے جس کے اندر کئی دیگر قبریں بھی ہیں مگر کس کی ہیں، اُن کے متعلق زیادہ معلومات حاصل نہیں۔
ڈاکٹر احمد حسین دانی کا خیال ہے کہ یہ جو جنوبی اور مشرقی دروازہ ہے، جن پر سنگتراشی کا کام بڑی نزاکت سے کیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ تراش کے تسلسل کو برقرار رکھا جائے، سنگتراشی کے یہ پیٹرن 16 ویں صدی کی ابتدا سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ کسی بھی دروازے سے اگر اس چار دیواری کے اندر پہنچ جائیں تو مغرب کی طرف آپ کو ایک محراب نظر آئے گا جس کے دونوں اطراف چھوٹے چھوٹے ستون ہیں، ان پر جو سنگتراشی کی گئی ہے، محراب کے اندر بھی سنگتراشی کے اسی نمونے کو مسلسل رکھا گیا ہے۔
اس محراب کے شمال کی طرف والی دیوار پر کچھ عجیب قسم کے نشانات تراشے گئے ہیں۔ ان کے مقصد اور مفہوم پر ابھی تک کوئی خاص تحقیق نہیں ہو پائی ہے۔ یہاں دوسری قبریں بھی ہیں جن پر پھول پتیوں کا شاندار کام کیا ہوا ہے، مگر ان پر نام وغیرہ نہیں لکھے، محترم حسام الدین راشدی کا خیال ہے کہ ’اس چار دیواری کے اندر جو دوسری قبریں ہیں اُن کا تعلق شاہی خاندان سے ہے۔‘
اب ہم دریاء خان کی اُس قبر پر آتے ہیں جو ایک زمانے کی یاد گار ہے۔ اس قبر پر بڑے احترام اور محبت سے چھینی نے سنگ کو تراشا ہے۔ سر کی طرف قبر پر تاج بنا ہوا ہے، جو ایک بہادر اور ذہین انسان کی انتہائی گہرائی سے عکاسی کرتا ہے۔
یہ دو منزلہ تعمیر کی ہوئی قبر ہے، نچلی منزل پر محرابوں جیسی قطار بنی ہوئی ہے اور ان محرابوں کے اندر گلاب کے پھول نما نقوش تراشے ہوئے ہیں۔ عربی تحریر دو قطاروں میں تراشیدہ ہے۔ اگر غور کریں تو یہ اس بہادر انسان کے شایان شان آخری آرامگاہ ہے۔
وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیے، ہم سب کے لیے جیے، آنے والے وقتوں کے لیے جیے اور اپنی زندگی کو مثالی بن کر جیے، ایسے کردار جن کی وجہ سے ہم ایک تہذیب یافتہ قوم کا اعزاز لیے ہوئے ہیں۔ تاریخ لکیروں کی محتاج نہیں ہوتی یہ انسان ذات کا ہی اکٹھا کیا ہوا سرمایہ ہے جہاں سے ہم سب اچھائی برائی، نیکی بدی، مثبت ومنفی میں تمیز کرنا سیکھتے ہیں۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (12) بند ہیں