عمران فاروق قتل کیس کا جیل ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما عمران فاروق کے قتل کیس کا جیل ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
بیرسٹر محمد علی سیف کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی پٹیشن میں مقدمے میں شامل دہشت گردی کی دفعات کو بھی چیلنج کیا گیا۔
قتل کیس میں ملوث ملزم معظم علی کے وکیل بیرسٹر محمد علی سیف کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عمران فاروق قتل کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفیکشن کالعدم قرار دیا جائے اورانسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات ختم کی جائیں۔
واضح رہے کہ سیکیورٹی کے پیش نظر 12 مئی 2016 سے عمران فاروق قتل کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہورہی ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ اس بات کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کبھی جیل ٹرائل کی درخواست کی ہو، ٹرائل کا مقام بدلنے کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا جو غیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طریقہ ٹرائل کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس:خالد شمیم کا اعترافی بیان جمع
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ اس جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کی وجہ سے ملزم کو طویل عرصے سے عدالت یا عوامی مقام پر نہیں لایا جاسکا اور ملزم معظم کی صحت انتہائی ابتری کا شکار ہے۔
پٹیشن میں انسداد دہشت گردی کی دفعات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا کہ عمران فاروق کے قتل کے وقت کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا کہ جس کے باعث مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی جائیں۔
خیال رہے کہ مارچ 2015 میں ملزم معظم علی کو عمران فاروق قتل کیس کے دیگر ملزمان کو برطانیہ کا ویزا فراہم کروانے میں مدد دینے کے الزام میں ان کے عزیز آباد میں واقع گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی۔
مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کا کوڈ 'ماموں کی صبح ہوگئی' تھا
برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔
دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔
جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔
تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم
یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔
لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔
مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک ہر لمحہ پارٹی کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری تھے۔