عبدالسّلام کا جھنگ
ریل کی سیٹی
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔
سلطان اور چندر بھان کے علاوہ بھی اس شہر کے کچھ حوالے ہیں، جن کے بارے میں قومی تاریخ جان بوجھ کر خاموش ہے۔
ایسا ہی ایک حوالہ ڈاکٹر عبدالسّلام کا بھی ہے جسے پاکستان کے حافظے سے مذہب کی آڑ میں حذف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ذکر پہ شاہی مورخ ایسے ورق پھلانگتا ہے جیسے مقامی سکول میں سائنس پڑھاتے وقت جینیات کے باب کے صفحے جوڑ کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ نہ کوئی کھولے گا اور نہ ہی آگے پڑھ پائے گا۔
سنتوک داس کے نواحی قصبے میں پیدا ہونے والے عبدالسلام نے جھنگ کو یوں اپنا گھر بنایا کہ پھر کبھی جائے پیدائش کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ آپ کے والد تعلیم کے محکمے میں تھے اور دادا اپنے وقت کے عالم، سو گھر میں درس و تدریس کا چلن عام تھا۔
خاندان کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ماں باپ نے کوئی خواب دیکھا تھا اور کچھ احباب سناتے ہیں کہ عبدالسلام جب پہلی میں داخل ہونے گئے تو سکول ماسٹر نے انہیں سیدھا چوتھی میں بٹھا لیا۔ مگر بچپن کی باتوں سے بے نیاز عبدالسلام کی تعلیمی زندگی کامیابیوں سے مزین تھی۔
جب ہر شخص ان کی کم عمری کے امتحان اور ہر امتحان میں ریکارڈ کی کہانی پوچھتا تو اس وقت کا عبد السلام اوپر انگلی اٹھا کر اللہ کے کرم کا اشارہ کر دیتا۔ یہ انگریز کا دور تھا اور اس وقت پارلیمان کی کمیٹیاں مظاہروں کے زیر اثر لوگوں کے مذہب پہ فیصلے نہیں دیتی تھی سو سب مولویوں کے اس لڑکے کی مثالیں دیا کرتے۔
ادب میں ذوق رکھنے والا یہ طالب علم جب عملی زندگی میں داخل ہوا تو ماں باپ نے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کی ضد کی۔ وہ ان مانے جی کے ساتھ مقابلے کے امتحان میں بیٹھا ضرور مگر ریلوے کو شائد اس کی ضرورت نہیں تھی سو لوٹا دیا گیا۔
انہیں دنوں کیمبرج میں وظیفہ جات آئے تو انتہائی مشکل حالات کے باوجود عبدالسلام نے درخواست دے ڈالی۔ اب اسے سر چھوٹو رام کی مردم شناسی کہئے یا جوہر قابل کی قسمت، کسی منتخب امیدوار نے جانے کا فیصلہ بدل دیا اور کیمبرج کا وہ وظیفہ، جس کے لئے لوگ، مہینوں درخواستیں دے کر پہروں دعائیں مانگا کرتے تھے، عبدالسلام کے نام نکل آیا۔ پوری دنیا سے لوگ بھانت بھانت کا سامان لے کر کیمبرج پہنچے تو دروازے پہ اپنا سٹیل کا ٹرنک اٹھائے جھنگ کا بھی ایک نوجوان تھا۔
ڈگری مکمل کرنے کے بعد انہیں مزید تعلیم کا وظیفہ بھی ملا اور نوکری کی پیشکش بھی مگر ملک نیا نیا بنا تھا سو وہ لاہور آ کر اپنی ہی مادر علمی میں دن میں حساب پڑھاتے اور شام کو فٹ بال کھیلتے۔
طبیعات کی دقیق گتھیاں سلجھانے والے اس پروفیسر کی گفتگو میں ریاضی کی علامتوں سے زیادہ تصوف کے حوالے ہوا کرتے۔ صبح، ہال نما کلاسوں میں جمع تفریق سکھانے والا جب رات کو ہاری ہوئی ٹیم کے ساتھ چوبرجی میں دودھ جلیبیاں کھاتا تو سب سمجھ جاتے کہ نیا پروفیسر دو رخ کا سکہ نہیں بلکہ منشور نما شیشہ ہے جس سے ہر کرن سات رنگ لے کر نکلتی ہیں۔
پھر لاہور میں 1953 کے بلوے ہو گئے اور پہلی دفعہ عبدالسلام کو لگا کہ وہ اس پیڑ سے کٹ گئے ہیں جس پہ کھڑے تھے۔ اگلے ماہ امپیریل کالج میں پڑھانے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے قبول کر لی اور یوں 30 سال کی عمر میں امپیریل کالج کی تاریخ میں کم عمر ترین پروفیسر کا اعزاز بھی ایک پاکستانی کے حصے میں آیا۔
مارشل لاء لگانے اور سیاسی جوڑتوڑ سے جان چھوٹی تو 1960 میں ایوب خان نے ڈاکٹر عبدالسلام کو واپس بلوا لیا۔ پاکستان کی پہلی مربوط سائینسی پالیسی کے پس منظر میں ڈاکٹر عبدالسلام کا نام لیا جاتا ہے۔ انہی کی قیادت میں سپارکو کا قیام عمل میں آیا اور بہت سے سائنسدانوں کو تعلیم کے حصول کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
PINSTECH، اٹامک انرجی کمیشن اور IAEA کے مشن کی سربراہی سے کراچی کے جوہری پلانٹ تک انہوں نے پاکستان میں سائینسی مزاج کی داغ بیل ڈالی۔ آج ملک کے طول و عرض میں پھیلے تحقیق کے بیسیوں مراکز، جہاں سے تبلیغی جماعتوں کے مشن نکلتے ہیں، حقیقتا اسی غیر مسلم پاکستانی کے ذہن رسا کی پیداوار ہیں۔
رہی بات ایٹمی پروگرام کی تو، ملتان میں ہونے والی ملاقات اور جوہری تحقیق تک تو عبدالسلام اس کا حصہ رہے مگر بعد میں جب بھٹو دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تو وہ انگلستان چلے گئے۔ ملک بدل گیا مگر وہ دل جو پاکستان کے لئے دھڑکتا تھا، نہیں بدل سکا سو آپ آخر تک اس پروگرام کے سائنسدانوں سے رابطے میں رہے اور ان کی رہنمائی کرتے رہے۔
پاکستان کے اس سائنسدان کو ان تمام ملکوں نے شہریت کی پیشکش کی جن کی شہریت اختیار کرنے میں وہ لوگ اول اول ہیں جو آج ان پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ایک انٹرویو کے دوران ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان جانے سے کیوں گریزاں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں پاکستان سے نہیں بلکہ پاکستان مجھ سے گریزاں ہے۔
جھنگ کے اس شہری کی قابلیت کے اعتراف میں 1979 میں نوبل انعام کا اعلان ہوا۔ آپ نے گرینڈ یونیفیکیشن کے نظریے پہ کام کیا جو بہ الفاظ دیگر یہ نظریہ ہے کہ تمام تر قوتیں ایک ہی منبع سے پھوٹتی ہیں۔
جب انعام کا اعلان ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کئے۔ نوبل انعام کی تاریخ میں پہلی بار انعام یافتگان میں سے کسی نے شیروانی پہنی اور پہلی بار ان درو دیوار میں کسی نے سورت ال ملک کی تلاوت کی؛
ثُمَّ ٱرْجِعِ ٱلْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ ٱلْبَصَرُ خَاسِئًۭا وَهُوَ حَسِيرٌۭ -- سوره 67، آیت 4
ترجمہ: پھر دوبارہ نظر دوڑاؤ، تمہاری نظر تھک ہار کر واپس آ جائے گیاسی سال پاکستان کی حکومت نے بھی انہیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا۔ ایسا نہیں کہ مملکت خداداد نے ڈاکٹر عبدالسلام کی قدر نہیں کی مگر یہ ضرور ہے کہ ان کی بصارت، ہمارے وسائل اور کوتاہ بینی سے بار بار ٹکراتی رہی۔
ہم لوگوں نے ان کے اعزاز میں ٹکٹ تو جاری کر دئے مگر جب عبدالسلام نے ایک تحقیقی مرکز بنانے کی بات کی تو اس وقت کے وزیر خزانہ نے یہ کہہ کر منصوبہ رد کر دیا کہ سائنس دانوں کے لئے اس ہوٹل کی کوئی ضرورت نہیں۔
نوبل انعام ملنے کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام لاہور آئے تو سب سے پہلے داتا صاحب گئے اور پھر گورنمنٹ کالج۔ درسگاہ اور درگاہ کا یہ یکساں عقیدت مند تین سو سے زیادہ اعزازات حاصل کرنے کے باوجود ابھی بھی مولویوں کا وہ لڑکا ہی رہا جو اپنی ہر کامیابی کو اللہ کی عطا جانتا تھا۔
ایک ایسی ہی نشست میں جب جھنگ کا ذکر آیا تو کسی نے کہا کہ پہلے جھنگ ہیر کی معرفت مشہور تھا اور اب آپ کا نوبل انعام اس شہر کو شہرت عطا کرے گا۔
ڈاکٹر سلام نے جواب دیا؛ "دنیا میں نوبل انعام لینے والے بہت سے ہیں مگر ہیر صرف ایک ہے"۔
اپنی مٹی میں دفن ہونے کی خواہش رکھنے والے عبدالسلام کو اگر معلوم ہوتا کہ اس ملک میں انہیں اپنی قبر کے کتبے کے لئے ایک میجسٹریٹ کی اجازت چاہئے ہوگی تو کیا وہ اپنا فیصلہ برقرار رکھتے یا وہ سمجھ جاتے کہ جیسے قائد اعظم کی 11 اگست والی تقریر کہیں کھو گئی تھی ویسے ہی جناح کی 1944 والی سرینگر کی تقریر بھی بھلا دی گئی ہے۔ وقت کے پانیوں کے علاوہ بھی جھنگ کی مٹی کو کوئی کلر چاٹ رہا ہے۔۔۔۔
(جاری ہے)
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/99206610" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
تبصرے (5) بند ہیں