• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

آٹزم کے شکار بچوں کیلئے موبائل ایپ

شائع April 3, 2017
موبائل ایپس لمز کے ہیومن کمپیوٹر انٹریکشن لیب نے تیار کیں—۔فوٹو/ ڈان
موبائل ایپس لمز کے ہیومن کمپیوٹر انٹریکشن لیب نے تیار کیں—۔فوٹو/ ڈان

آٹزم کے مرض میں مبتلا بچوں کے نویں عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ ایک سیمینار میں متاثرہ بچوں کی معاونت کے لیے 'احساس، آغاز اور بول' کے نام سے تین موبائل ایپس متعارف کرادی گئیں۔

اعلامیے کے مطابق آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر ویلفیئر ٹرسٹ (اے ایس ڈی ڈبلیو ٹی) نے لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) میں مذکورہ سیمنار کا انعقاد کیا تھا۔

آٹزم کے شکار بچوں کی ڈیجیٹل ضروریات کو دیکھتے ہوئے لمز کے ہیومن کمپیوٹر انٹریکشن لیب (چیسل) کی ٹیم نے موبائل ایپ تیار کی ہے اور اے ایس ڈی ڈبلیو ٹی کے تعاون سے ڈاکٹر سلیمان شاہد نے اس کو ڈائریکٹ کیا ہے۔

اے ایس ڈی ڈبلیو ٹی کی چیئرپرسن رخسانہ شاہ کا کہنا تھا کہ ابلاغ میں خلاء کے باعث آٹزم کے شکار بچے معاشرے میں تنہائی کا شکار تھے کیونکہ انھیں بولنے یا گفتگو کے مسئلے کا سامنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان بچوں کے اس خلاء کو پُر کرکے اردو میں بات چیت کے قابل بنانا نہایت اہم ہے اور یہ ایپلی کیشن اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ 'آغاز' کا مقصد ایک موثرابلاغ کا موقع فراہم کرنا تھا تاکہ آٹزم کے شکار بچوں کو ان کے اپنے اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے میں مدد ملے، اس کا ایک مقصد ان کے سماجی رابطوں کو بڑھانا بھی ہے اور انھیں سماجی حوالے سے جذبات کو سمجھنے اور روزانہ کی صورت حال پر موثر ردعمل دینے کے قابل بنانا بھی ہے۔

'بول' ایک ایسی ایپلی کیشن ہے جو بچوں کی زبان کو بہتر کرنے اور بولنے کی خواہش کو بہتر کرنے کے لیے اہم ہے ، یہ ایپ تصاویر کے نشانات اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں آوازوں کے ذریعے پیغامات کی ترسیل کے لیے معاونت کرتی ہے۔

اے ایس ڈی ڈبلیو ٹی کی سینیئر کلینکل سائیکالوجسٹ عاصمہ احمد کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر آٹزم سینٹر کے لیے اس کی شدید ضرورت تھی، چند نجی آٹزم سینٹرز موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی فیس بہت زیادہ ہے جو درمیانے درجے کے خاندانوں کی پہنچ میں بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے بچوں کی تعلیم کے لیے باقاعدہ قانون بنانا چاہیے تاکہ ہر بچہ مرکزی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا اپنا حق پوری طرح حاصل کرسکے۔

یہ خبر 3 اپریل 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024