• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان کیا گفتگو ہوئی ہوگی؟

شائع April 1, 2017

کراچی: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات اوران کی جانب سے آرمی چیف کو عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد پیش کیے جانے سے متعلق گزشتہ رات پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کیے گئے ٹوئٹ پر سیاسی مبصرین اور ٹوئٹر صارفین حیرانی کا شکار ہیں۔

ٹوئٹر پر ملاقات کی مزید کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، کئی صارفین نے اس خبر کو بہت ہی معنی خیز قرار دیا، جب کہ کچھ صارفین کے خیال میں یہ معمول کے مطابق ہونے والی ملاقات تھی اور اسے ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھنا چاہئیے۔

غیر معمولی ملاقات، کامران خان

دنیا نیوز کے صحافی کامران خان کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کا وقت بڑا اہم ہے، کیوں کہ اس وقت پاکستان کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، ایک طرف ہمیں مغربی سرحد پر افغانستان اور دوسری جانب مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے، اس لیے پاکستانی کی عسکری قیادت چاہتی ہے کہ مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو متفق اور متحد ہونا چاہئیے۔

کامران خان نے بتایا کہ اگر تمام بڑے سیاسی کھلاڑی ایک ہی پیج پر ہیں تو یہ بہت ہی اہم بات ہے۔

انہوں کہا کہ ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی غیر معمولی ملاقات نہیں تھی،تاہم ماضی میں بھی سیاسی رہنما فوجی سربراہوں سے ملتے رہے ہیں ،اور ایک قومی سطح کے سیاستدان کا فوجی سربراہ سے ملنا ملک کے لیے نقصان نہیں بلکہ فائدہ مند بات ہے۔

سیاستدانوں کے لیے ایک پیغام، صابر شاکر

اے آر وائی نیوز کے صحافی صابر شاکر کے مطابق ان کا خیال ہے کہ یہ ملاقات بہت اہم پیش رفت ہے، ماضی میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان سے ملاقات کرکے یہ ثابت کردیا کہ ان کے لیے سب سیاستدان برابر ہیں، جب کہ ماضی میں فوجی سربراہ کسی ایک سیاستدان کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔

صابر شاکر کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات ایک عام اجلاس نہیں تھا، یہ تمام سیاستدانوں کے لیے عسکری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایک واضح پیغام تھا کہ وہ کسی ایک بڑی سیاسی پارٹی کی حمایت نہیں کر رہی۔

ان کے خیال میں ملاقات سے فوج کی لبرل پالیسی اور عسکری قیادت کے کھلے ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔

اعتماد سازی کے لیے اچھا قدم، نسیم زہرہ

چینل 24 کی صحافی نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ عمران خان کی یہ پہلی اہم ملاقات تھی۔

انہوں کہا کہ یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ اس ملاقات کے حوالے سے تحریک انصاف کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا، آرمی چیف اور عمران خان کی جانب سے ون آن ون ملاقات کے حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں، خیال کیا جا رہا ہے کہ ملاقات میں مخصوص ایجنڈے پر بات کی گئی ہوگی۔

نسیم زہرہ نے بتایا کہ گزشتہ چند سال سے سیاسی معاملات میں عکسری قیادت کی مداخلت کم ہوئی، تاہم اب بھی وہ جاری ہے۔

ان کا خیال تھا کہ اس ملاقات سے سول و عسکری قیادت میں اعتماد بڑھے گا، خاص طور پر اس ملاقات سے پیغام جائے گا کہ آرمی چیف کسی مخصوصی سیاسی پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں اور ان کی پوزیشن غیر جانبدار ہے۔

عمران خان نے فاٹا اصلاحات پر بات کی، رؤف کلاسرا

صحافی اور کالم نگار رؤف کلاسرا نے کہا کہ مجھے ذرائع سے پتہ ہے کہ ملاقات کے دوران عمران خان نے آرمی چیف کے ساتھ فاٹا اصلاحات سے متعلق ان تجاویز پر بات کی جو تحریک انصاف پہلے ہی بتا چکی ہے۔

ان کے مطابق تحریک انصاف قیادت اس بات سے آگاہ ہے کہ عسکری قیادت کو فاٹا اصلاحات پرتحفظات ہیں، کیوں کہ عسکری قیادت نہیں چاہتی کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے،جب کہ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ فاٹا کو صوبے میں ضم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا پہلے ہی دہشت گردی سے متاثر ہے اور وہاں اتنے ترقیاتی کام بھی نہیں ہوئے، جب کہ ایک ہی علاقے میں رہنے والے فاٹا اور خیبر پختونخوا کے لوگوں میں ثقافتی فرق بھی ہے اور آپ پہاڑوں کے دامن میں زندگی گزارنے والے لوگوں سے پشاور جیسے شہر میں فوری طور پر ڈھلنے کی توقع نہیں کرسکتے۔

رؤف کلاسرا کے مطابق دوسری بات یہ ہے کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے سے تحریک انصاف کو سیاسی طور پر فائدہ ہوگا، کیوں کہ وہاں قومی و صوبائی اسمبلی کی 33 نشتیں متعارف کرائی جائیں گی، اگر وفاقی حکومت نے فاٹا کو صوبے کے ساتھ ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ بھی عمران خان کو ہی ہوگا۔

رؤف کلاسرا کے مطابق فاٹا کا خیبر پختونخوا میں ضم ہونا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال سے عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات کااہم مقصد فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق گفتگو کرنا تھا‘۔


تبصرے (1) بند ہیں

Mian mUskrahat Ali Apr 01, 2017 08:56pm
یہ لوگ” وہ بات جس کا ذکر سارے فسانے میں نہ تھا“ کررہے ہیں۔ ورنہ تو عمران خان ایسےنہیں جو ’خوشخبری‘ کی لائن پڑھ کر چپ ہوجائیں۔ بقول شاعر ”ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں۔۔۔ ورنہ کیا بات کر نہیں آتی“۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024