مقبوضہ کشمیر کے شہری کو پاکستان میں ملنے والے سرپرائز
برٹش انڈیا کی تقسیم کافی بے رحم تھی۔ اس نے دیہات، شہروں اور خاندانوں کو تقسیم کیا مگر ایک نئے ملک کو جنم دیا — اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ پاکستان کی تشکیل کے بعد سے لے کر اب تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں تلخی رہی ہے، خاص طور پر کشمیر کی سرزمین پر۔ پاکستان میں میرے حالیہ اور پہلے دورے کے دوران میرا تعارف اس جملے کے ساتھ کروایا جاتا کہ: یہ مقبوضہ کشمیر سے آئے ہیں۔
میں پاکستان میں واہگہ بارڈر کے راستے داخل ہوا، جہاں مجھے، ایک کشمیری کو آتا دیکھ، دو اہلکار پورا ایک گھنٹہ پوچھ گچھ کرتے رہے۔ انہوں نے مجھ سے کشمیر میں شہریوں کی حالیہ ریاست مخالف تحریک کے بارے میں پوچھا، کس طرح تحریک نے ترقی کو متاثر کیا ہے، ہندوستان جانے والے غیر ملکی سیاح کیسے اچھی باتوں کا تذکرہ نہیں کرتے، پاکستانی کس طرح واہگہ کراس کر لیتے ہیں۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ میں پاکستان میں کسے جانتا ہوں۔
دو کپ چائے اور ایک گلاس پانی کے بعد مجھے امیگریشن کاؤنٹر جانے کو کہا گیا، جہاں تین اہلکاروں، جن میں ایک امیگریشن افسر بھی شامل تھا، نے ایک بار پھر سوالوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بارڈر کے اصل دروازے پر، آپ کو اپنا سامان خود اٹھا کر ’نو مین لینڈ’ (دو ملکوں کے درمیان کی سرزمین جو کسی ملک کی نہیں ہوتی) سے ہو کر پیدل جانا ہوتا ہے۔
دوسری جانب جس پہلی چیز پر نظر پڑتی ہے، وہ ایک بڑا گیٹ ہے، جس پر بابِ آزادی لکھا ہوا ہے۔ یہ گیٹ پاکستان میں نصب ہے۔ شہر لاہور وہاں سے صرف آدھے گھنٹے کی ڈرائیو دور ہے۔
واہگہ سے ڈرائیونگ کے دوران لوگوں اور ان کے گھروں کو دیکھتے ہوئے یوں لگا کہ میں ماضی میں چلا آیا ہوں۔ میں تصور کرنے لگا کہ برٹش انڈیا کی تقسیم سے قبل یہاں منظر نامہ کس طرح کا رہا ہوگا۔
میں لاہور دوست کی شادی میں شرکت کی غرض سے آیا تھا۔ چند برس قبل ہماری ملاقات بطور طلبہ لندن میں ہوئی تھی۔ شادی ایک عالیشان ہال میں منعقد تھی، جو بڑھکیلے کپڑے پہنے لوگوں سے بھرا تھا۔ میں جس کسی سے بھی ملا، وہ صرف اس بارے میں فکرمند تھا کہ آیا طویل سفر میں مجھے کسی قسم کی پریشانی تو اٹھانی نہیں پڑی اور کشمیریوں کی خوشحالی کے بارے میں پوچھتا۔
دونوں ملکوں کے درمیان ایک مماثلت ہے — بالی ووڈ۔ واہگہ سے ٹیکسی سے شادی کی رات تک بالی ووڈ گانے زور سے بجتے رہے۔ میری دوست، دلہن، اور اس کی کزنز، جگمگاتے اور دھوئیں سے بھرے اسٹیج پر ’کالا چشمہ’ پر ڈانس کیا، جبکہ میں بیٹھا کشمیری چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔
لاہور میں میری میزبان فریال علی گوہر تھیں — وہ ایک زبردست خاتون ہیں جو پاکستان میں بطور اداکارہ، لکھاری اور سرگرم کارکن اپنے کاموں کے حوالے سے کافی مقبولیت رکھتی ہیں۔ مجھے زمان پارک میں واقع انہی کے گھر، جو خوبصورت بلیوں اور شہر کے مزاج سے بھر پور تھا، ٹھہرا تھا۔
مجھے بتایا گیا کہ گھر کے باہر موجود یہ وہی پارک ہے جہاں عمران خان نے بچپن میں کرکٹ کھیلی تھی۔ اس علاقے کا نام عمران خان کے نانا کے بھائی، خان بہادر محمد زمان خان کے نام رکھا گیا تھا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں تقسیم ہند کے بعد ان کے خاندان نے سکونت اختیار کی تھی۔
شاموں کو بیٹھ کر، گوہر اور میں پاکستانی فلموں اور تھیٹر کے بارے میں، کشمیر اور افغانستان کے بارے میں باتیں کرتے۔ ہماری زیادہ تر گفتگو کا موضوع کشمیر تنازع ہوتا تھا اور میں ہر پاکستانی میں اس خطے اور وہاں کے لوگوں سے جڑے تعلق کو محسوس کر سکتا تھا۔
کشمیر ہر جگہ گہرائیوں سے رچا بسا ہے — سڑکوں کے سائن بورڈز اور کھانوں سے لے کر کیفے میں ہونے والی بحث تک۔ انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی سالگرہ کے دن میں لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھا تھا، جس کا قیام مال روڈ پر 1932 میں عمل آیا تھا اور شہر کے دانشوروں کے کا مرکز بن گیا تھا۔
فیض، احمد فراز، سعدت حسن منٹو اور ان جیسی دیگر غیر معمولی شخصیات دن کے اوقات میں کیفے کا بار بار رخ کرتی تھیں مگر جو جگہ کبھی فن اور ادب کا مرکز تھی، وہ اب محض ایک عام سا کیفے بن گئی ہے جہاں سستا کھانا دستیاب ہوتا ہے۔ البتہ دیواروں پر لگی پاکستان کے شعرا اور مصنفین کی فریم شدہ تصاویر آپ کو دیکھتی ہیں۔
میں یہاں اپنے ایک اور احسان شکیل نامی دوست کے ساتھ تھا جو کہ ایک اسکرپٹ رائٹر ہیں، وہ اپنی لالی، جو ماروتی 800 جیسی گاڑی ہے، لاہور کی بدنظم ٹریفک میں چلانا پسند نہیں کرتے۔
گاڑی میں اپنی منزل کو جاتے وقت ہم ایک گھنٹے سے زیادہ ٹریفک جام میں پھنسے رہے کیونکہ ادویات کا کاروبار کرنے والے افراد نے احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا تھا۔ وہ ڈرگ ایکٹ 1976 میں حکومت پنجاب کی جانب سے کی جانے والی ان ترامیم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جن کا مقصد مارکیٹ سے جعلی اور خطرناک ادویات کا خاتمہ کرنا ہے۔
ہم نے اس دن، 1671 میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کا تعمیر کردہ شاندار شاہکار، بادشاہی مسجد؛ مینار پاکستان، جہاں 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور منظور ہوئی تھی؛ قلعہ لاہور، اور شاعر مشرق اور پاکستان کے نظریاتی والد علامہ اقبال کا مزار دیکھا۔
ککوز ڈین پر کھانا کھانے کے بعد ڈوبتا سورج، لائٹس آن ہونے کے بعد سرخ پتھر کی مسجد کو نارنگی رنگ میں تبدیل ہوتا دیکھتے ہوئے، اور مغرب کی اذان سنتے ہوئے میں لاہور کے سحر میں جکڑنا شروع ہو گیا تھا۔
شام سے پہلے تک دن بہت سہانا گزرا تھا، شام کو ایک خود کش بمبار نے پنجاب اسمبلی کے قریب احتجاجی مظاہرے کی جگہ خود کو اڑا دیا، جس کے نتیجے میں دو سینئر پولیس افسران سمیت 16 افراد مارے گئے۔ دھماکے کی جگہ سے ایک بلاک دور، قلعہ بند شہر میں رکشہ پر جانے سے قبل میں نے اور شکیل نے گاڑی پارک کی تھی۔
صبح کے وقت میں نے ان لوگوں کو احتجاج کرتے ہوئے، گروپ کی صورت میں آتے ہوئے، نعرے بلند کرتے ہوئے اور ایک جگہ جمع ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ مگر اب میں افراتفری کا منظر دیکھ رہا تھا۔ دھماکہ اسی وقت ہوا جب ہم اپنی گاڑی کی طرف لوٹ رہے تھے، جہاں ایک پولیس کی گاڑی اور ایمبولینس پہنچ چکی تھی۔
میرا فون ڈیڈ ہو چکا تھا اور ماحول میں بے چینی بڑھ رہی تھی اور سائرنوں کی آوازیں تھیں۔ ہم نے گاڑی کو مال روڈ سے گزارا جہاں ہر سو ٖشدید غم و غصہ پھیلا تھا۔ ہر جگہ پولیس اہکار کھڑے تھے اور سڑکیں بلاک کر دی گئی تھیں۔ ہم نے دھماکے کی جگہ دیکھی، جہاں نیوز چینلز کی او بی وینز اور فلیش مارتے کیمروں کے ہمراہ فوٹوگرافرز کی بھیڑ جمع تھی۔
میں ایک کیفے پر اپنا فون چارج کرنے میں کامیاب رہا اور میں نے دیکھا کہ لاہور میں ہونے کا مطلب کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ میری خیریت معلوم کرنے کے لیے تمام جگہوں سے میسجز اور کالز آنے لگیں۔ شکیل کی مرہون منت، کہ جس نے مجھے کہا کہ "جانے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے چہل قدمی کرتے ہیں"، ورنہ ہم دونوں کے لیے حالات کچھ مخلتف رہے ہوتے۔
گزشتہ ہفتے صرف لاہور شہر میں ہی دھماکہ نہیں ہوا تھا۔ 16 فروری کو سیہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر بھی ایک خود کش بم دھماکہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 90 افراد مارے گئے تھے جن میں 21 بچے بھی شامل تھے۔ داعش نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ لال شہباز قلندر ایک صوفی بزرگ، فلسفی اور شاعر تھے جن تمام مذاہب کے لوگ عقیدت رکھتے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں جو سب سے بڑی حیرانی کی بات ہے وہ یہ کہ کس طرح خوبصورت لمحوں پر ایک خوفناک حقیقت ضربیں لگا دیتی ہے۔ کچھ کشمیر کی صورتحال کی ہی طرح، جہاں آپ سیاسی غیر یقینی اور خطرناک ناانصافیوں کے درمیان خوشیوں کے مختصر لمحے تلاش کرتے ہیں۔
ان خوشیوں کے لمحوں میں سے ایک، پرانے دوستوں اور ان لوگوں سے ملاقاتیں تھیں جن سے میں سالوں سے جڑا رہا ہوں۔ اسلام آباد میں موجود اپنے دوست سے میں نے گھنٹوں بیٹھ کر سیاست اور افغان مہاجرین کے بحران کے بارے میں باتیں کی، اس دوست سے میری پہلی بار ملاقات لندن میں ہوئی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ ملک میں بڑھتی دہشتگرد کارروائیوں کے نتیجے میں پاکستان نے کیوں افغان مہاجرین کے حوالے سے سخت گیر مؤقف اپنایا ہے۔
بطور کشمیری، اگر آپ لاہور یا اسلام آباد میں ہیں، آپ کی نسل آپ کی شناخت ہے اور پاکستانی سننا چاہتے ہیں کہ کمشیر اپنی زندگی کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں۔ ایک سیکیورٹی گارڈ یہ جاننا چاہتا تھا کہ ایک ماہ طویل کرفیو کے دوران ہم کھانے پینے کی اشیا خرید پاتے ہیں یا نہیں۔
ایک ٹیکسی والا جاننا چاہتا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل کیوں نہیں ہو رہا۔ ایک دکاندار جاننا چاہتا تھا کہ میرے لیے یہاں آنا آسان ثابت ہوا یا مشکل۔ ایک لائبریرین نے دوبارہ آنے اور اس کے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔
میری آمد کی قانونی طور پر تصدیق کرنے کے دوران پولیس افسر جاننا چاہتا تھا کہ میں نے سری نگر میں موجود حضرت بل میں موجود مقدس باقیات دیکھنے کا شرف حاصل کیا ہے یا نہیں۔ ایک طالب علم جاننا چاہتا تھا کہ میرے سائیڈ رہنے والے کشمیری، پاکستانی سائیڈ میں رہنے والے کشمیریوں کو کشمیری تصور کرتے ہیں یا نہیں۔
ایک کشمیری کے لیے، آپ کی خاص انداز میں خاطر تواضع کی جاتی ہے، اتنی خاطر تواضع آپ کو کسی دوسری جگہ دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ اس ملک اور اس کے لوگوں کا کشمیریوں سے کسی قسم کا تعلق جڑا ہوا ہے۔
میری ملاقات ایسے کئی پاکستانیوں سے ہوئی جنہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں ان کی حکومت کشمیر کے لیے کچھ کرے مگر سیاست کچھ ایسی آڑے آتی ہے کہ دونون حصوں پر رہنے والے لوگ لاچارگی کا شکار ہیں۔ مگر اس لاچارگی کے ساتھ بھی پاکستانی کمشیریوں کو ایک خاص درجہ دیتے ہیں — سیاسی وجوہات کی بنا پر، بلکہ یکساں تاریخ کی بنا پر بھی۔
میرے لیے، اس دورے میں سب سے یادگار لمحے وہ تھے جب میری ملاقات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والوں سے لوگوں سے ہوئی۔ میرے کئی ایسے دوست رہ چکے ہیں جن کا تعلق کشمیر کے اس حصے سے ہے اور برطانیہ میں ان کے ساتھ ڈھیر سارا وقت گزرا،
مگر یہاں بات کچھ مختلف تھی۔ مظفر آباد سے تعلق رکھنے والی ایک ذہین نوجوان طالبہ نے کشمیر یونیورسٹی دیکھنے اور سری نگر میں قیام جیسی خواہشوں پر گھنٹوں باتیں کی۔ مظفرآباد سے تعلق رکھنے والا ایک اور طالب علم مجھ سے مل کافی خوش تھا۔
یہاں آپ کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ کسی دوسرے ملک میں ہیں، مگر ہاں، سرحد پار کرنے کے ساتھ ہی بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ پاکستان ایسا نہیں ہے جیسا ہندوستانی میڈیا پر سننے کو ملتا ہے۔ یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو محبت میں امید تلاش کرتے ہیں اور برے وقتوں میں بھی آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
مہمان نوازی بے مثال ہے اور اندرونی مسائل ہونے کے باوجود بھی آپ کو جا بجا ترقی کے آثار نظر آجائیں گے۔ مگر اختلاف رائے رکھنے، غیر حل شدہ مسائل سے جڑے کچھ سوال اب بھی ہیں۔ اور ایک پریشان کن بحث بھی کہ کس طرح صوبہ پنجاب ہر چیز پر غلبہ پاتا محسوس ہوتا ہے۔
ایک شام، میں اور شکیل بیٹھے اس بارے میں بات کر رہے تھے کہ کتنا بہتر ہوتا کہ ہم کسی رکاوٹوں کے بغیر امرتسر گھوم آتے۔ مگر نہیں، بارڈرز موجود ہیں اور دیواریں کھڑی ہیں— اتنی بلند کہ کشمیر کے دونوں حصے سے لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے ترس گئے ہیں۔
میرا 12 دنوں پر مشتمل دورہ اختتام کو پہنچا اور فریال گوہر گاڑی میں مجھے واہگہ بارڈر چھوڑنے آئیں۔ میں نو مین لینڈ سے ہوتا ہوا ہندوستان میں داخل ہوا جو کہ شاید برصغیر کا سب سے محفوظ ترین مقام ہے۔
وہاں ایک چھوٹا سا سائن بورڈ لگا تھا جس پر خبردار کیا گیا تھا کہ: جیب کتروں سے محتاط رہیں۔ میں سوچنے لگا کہ بھلا کوئی چیز یہاں کون چرائے گا؟ کیا یادیں چرائی جاسکتیں ہیں؟ سرحدیں پار کرتے ہوئے یادیں ہی تو وہ واحد چیز ہوتی ہے جو ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر دی وائر، انڈیا میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا۔