• KHI: Fajr 4:39am Sunrise 6:00am
  • LHR: Fajr 3:54am Sunrise 5:21am
  • ISB: Fajr 3:53am Sunrise 5:23am
  • KHI: Fajr 4:39am Sunrise 6:00am
  • LHR: Fajr 3:54am Sunrise 5:21am
  • ISB: Fajr 3:53am Sunrise 5:23am

سوشل میڈیاپرگستاخانہ مواد:’ایف آئی اےقانون کے مطابق تحقیقات کرے‘

شائع March 31, 2017

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف زیرسماعت درخواست پر مختصر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

فیصلے میں وزارت داخلہ کو گستاخانہ اور فحش مواد پھیلانے والوں کی نشاندہی کے ساتھ کارروائی کی ہدایت دیتے ہوئے انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 میں ترمیم کے لیے اقدامات کی ہدایت کی گئی۔

فیصلے کے مطابق ایکٹ میں ترمیم کے بعد گستاخانہ اور فحش مواد کو بھی بطور جرم شامل کیا جائے گا۔

تین صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں جسٹس شوکت عزیز نے بیرون ملک فرار ہونے والے 5 بلاگرز کو ٹھوس شواہد کی صورت میں وطن واپس لانے کی ہدایت بھی دی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایف آئی اے قانون کے مطابق معاملے کی تحقیقات کرے جبکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) متنازع پیجز کی نشاندہی کے بعد انہیں ہٹانے کے لیے طریقہ کار وضع کرے۔

علاوہ ازیں فیصلے میں چیئرمین پی ٹی اے کو گستاخانہ اور فحش مواد سے متعلق قانونی سزاؤں سے متعلق آگاہ کرنے کی ہدایت بھی جاری گئی۔

عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا کہ وہ معاملے میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے جبکہ سیکرٹری داخلہ گستاخانہ مواد ہٹانے اور کارروائی کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔

فیصلے میں وزارت داخلہ کی جانب سے ایف آئی اے ایکٹ 1974 میں ترمیم کی سمری وزیراعظم کو بھجوائے جانے کا ذکر بھی کیا گیا جس کی رپورٹ سیکریٹری داخلہ نے عدالت میں پیش کی تھی۔

یاد رہے کہ دن کے آغاز پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق اپنی رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے حوالے سے کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کررہے تھے۔

دوران سماعت جسٹس شوکت عزیز نے درخواست کو نمٹانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاملے پر قانون کے مطابق کارروائی جاری رہے گی جبکہ تفتیش میں عدالت کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔

جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ کیس پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'یہ دروازہ بند ہونا چاہیے تاکہ لوگ توہین رسالت قانون کا غلط فائدہ نہ اٹھا سکیں'۔

طارق اسد ایڈووکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صرف متنازع پیجز کو بلاک کرنا مسئلے کا حل نہیں۔

جسٹس صدیقی نے استفسار کیا کہ 'فرض کریں گستاخی کے مرتکب بلاگرز بیرون ملک جاچکے ہوں تو انہیں کس طرح واپس لایا جائے گا؟'

یہ بھی پڑھیں: فیس بک سے 85 فیصد گستاخانہ مواد ہٹایا جاچکا، وزارت داخلہ

جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے مظہر کاکا خیل کا کہنا تھا کہ جب ہم رحمٰن بھولا کو پاکستان لاسکتے ہیں تو ان کو بھی لایا جاسکتا ہے، تاہم اس کے لیے ملزمان کا نامزد ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ریڈ وارنٹ جاری کرکے ان افراد کو طے شدہ طریقہ کار کے تحت واپس لایا جائے گا‘۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس معاملے پر وزیراعظم کو گذشتہ روز ہی نوٹ بھجوایا جاچکا ہے۔

خیال رہے کہ 27 مارچ کو ہونے والی کیس کی گذشتہ سماعت میں وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ فیس بک انتظامیہ اپنی ویب سائٹ سے گستاخانہ مواد ہٹانے میں مصروف ہے اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ سے اب تک 85 فیصد گستاخانہ مواد ہٹایا جاچکا ہے۔

علاوہ ازیں وزارت داخلہ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کی سربراہی میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تحقیقات کے لیے 7 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی تھی۔

حکومت پاکستان اس معاملے کو 27 مسلم ممالک کے سفیروں کے سامنے بھی اٹھا چکی ہے، جبکہ اس سلسلے میں 3 ملزمان گرفتار کیے جاچکے ہیں، جن میں سے 2 ملزمان براہ راست اس گھناؤنے کام میں ملوث تھے۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر گستاخی میں ملوث 3 افراد گرفتار

سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کا معاملہ قومی سطح پر خاصی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔

رواں ماہ 14 مارچ کو وزیراعظم نواز شریف نے بھی سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کو ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایات دی تھیں کہ اس مواد کو پھیلانے والے افراد کا سراغ لگا کر انہیں قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد پھیلانے والے 11 افراد کی شناخت کے حوالے سے اپنا بیان جاری کرچکے ہیں۔

وزرات داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ اس معاملے میں کچھ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کے لیے ایف آئی اے نے انٹرپول سے بھی مدد طلب کرلی ہے، کیوں کہ ان میں سے کچھ افراد کے ملک میں نہ ہونے کے اشارے ملے ہیں۔

سوشل میڈیا پر توہین رسالت ﷺ پر مبنی مواد کے خلاف قومی اسمبلی میں قرار داد مذمت بھی متفقہ طور پر منظور کی جاچکی ہے، جس میں ایوان نے سوشل میڈیا پر توہین رسالت ﷺ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے فوری طور پر اس کے خلاف اقدامات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 27 اپریل 2025
کارٹون : 26 اپریل 2025