• KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:13pm
  • LHR: Maghrib 6:31pm Isha 7:55pm
  • ISB: Maghrib 6:38pm Isha 8:05pm
  • KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:13pm
  • LHR: Maghrib 6:31pm Isha 7:55pm
  • ISB: Maghrib 6:38pm Isha 8:05pm
شائع April 15, 2017 اپ ڈیٹ April 17, 2017

پاکستانی نوجوان کا صحرا میں قائم پرائیوٹ میوزیم

اختر حفیظ

سندھ میں دو بڑے صحرائی علاقے ہیں جن میں ایک تھر اور دوسرا اچھڑو تھر یعنی سفید تھر ہے۔ اس بیابان کو یہ نام اس کی سفید رنگ مائل ریت کی وجہ سے ملا۔ اس ریگستان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں ریت کی دلدلیں پائی جاتی ہیں۔

اچھڑو تھر جہاں ایک جانب ریت کے ٹیلوں سے بھرا ہے وہاں نمک سے بھری جھلیں اور میٹھے پانی کے کئی جوھڑ بھی ہیں۔ اچھڑو تھر ضلع سانگھڑ کے تعلقہ کھپرو کے قریب واقع ہے۔

ریت پر بنے ٹیڑھے میڑھے راستے اور پگڈنڈیاں ریت ہی بناتی ہے او ریت ہی مٹا دیتی ہے۔ نہ تو یہاں اتنے پکے راستے ہیں اور نہ ہی یہاں کوئی عام گاڑی چلائی جا سکتی ہے۔ اس لیے فور وہیل ہی اس سفر میں بہتر سواری ہے۔

اسی ریگستان کے ایک گاؤں، بانکو چانیہوں میں ایک ایسا میوزیم قائم ہے۔ منفرد اور گزرے زمانے کی قدیم بیش قیمتی اور ثقافتی ساز و سامان دیکھنے کا شوق رکھنے والے حضرات میوزیم کا رخ کرتے ہیں۔ یہ میوزیم ایک نوجوان محمد عطا چانیہوں نے قائم کیا ہے۔ واقعی وہاں نایاب چیزوں کی ایک منفرد کلیشن موجود ہے۔

میوزیم کا داخلی دروازہ — تصویر اختر حفیظ
میوزیم کا داخلی دروازہ — تصویر اختر حفیظ

پرانی گھنٹیاں — تصویر اختر حفیظ
پرانی گھنٹیاں — تصویر اختر حفیظ

کنواں چلانے کی چرخی — تصویر اختر حفیظ
کنواں چلانے کی چرخی — تصویر اختر حفیظ

عطا چانیہوں، میوزیم کے مالک — تصویر اختر حفیظ
عطا چانیہوں، میوزیم کے مالک — تصویر اختر حفیظ

تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ میوزیم کا تصور امرا اور مالدار طبقے سے ابھرا، طبقہ بالا کے چند افراد اپنے ہاں قدیم، منفرد اور کسی نہ کسی لحاظ سے نایاب خصوصیات کی حامل چیزوں کو جمع کرنا شروع کیا اور ان کے نزدیک یہ شوق تھا تو جنون بھی اور باعث فخر و وقار بھی۔

جدید میوزیم کی موجودہ شکل انگلینڈ سے آئی، جہاں 1759 میں ایک میوزیم قائم کیا گیا؛ جسے محض اعلیٰ طبقے کے لوگوں کے لیے کھولا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے میوزیم پوری دنیا میں قائم ہونے لگے۔ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا میوزیم فرانس کے شہر پیرس میں قائم ہے، جو 1793 میں قائم کیا گیا تھا۔

مگر مجھے عطا چانہیوں کا میوزیم دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ ایک ایسے ورثے کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جسے ہم میں سے بہت سے لوگ غیر ضروری سمجھتے ہیں۔

“ آپ کو یہ خیال کب آیا کہ قدیم نوادرات کو جمع کر کے ایک نجی میوزیم تیار کیا جائے اور ان میں ایسی نایاب چیزیں رکھی جائیں” میں نے پوچھا۔

“میں کچھ عرصے سے ایک خواب دیکھتا تھا کہ میں کسی قدیم عمارت میں گھوم رہا ہوں، وہ ایک بڑی سی عمارت ہے اور میں مسلسل اس میں چلتا رہتا تھا۔ اس خواب سے میرا تعلق کافی وقت سے جڑا رہا۔ اور شاید اس خواب کی تعبیر یہی میوزیم ہی ہے جسے آج لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں۔ یہ میوزیم میں نے 2009 میں قائم کیا، جس میں سب سے پہلی چیز گراموفون تھی”۔

سوت کاتنے کا چرخہ — تصویر اختر حفیظ
سوت کاتنے کا چرخہ — تصویر اختر حفیظ

تھری انداز کی ایک جھوپڑی — تصویر اختر حفیظ
تھری انداز کی ایک جھوپڑی — تصویر اختر حفیظ

انگریز دور کا پستول — تصویر اختر حفیظ
انگریز دور کا پستول — تصویر اختر حفیظ

ایک قدیم مورتی — تصویر اختر حفیظ
ایک قدیم مورتی — تصویر اختر حفیظ

اس میوزیم میں جو چیز سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے وہ گراموفون کے پرانے ریکارڈز ہیں۔ جن کی تعداد اس میوزیم میں پانچ ہزار ہے۔

عطا بتاتے ہیں کہ، “مجھے موسیقی سے بے حد دلچسپی ہے اس لیے آپ کو یہاں ریکارڈ بہت نظر آئیں گے، ان ریکارڈز کے کلیکشن میں سندھی، اردو، انگریزی، بلوچی اور دیگر زبانوں کے ریکارڈ موجود ہیں”۔

عطا چانیہوں اپنی صبح کی شروعات شاہ عبداللطیف کے کلام سے کرتے ہیں۔ یہ ان کے روز کا معمول ہے کہ وہ اپنے دن کی ابتدا شاہ عبداللطیف کے اشعار پڑھ کر کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جب بھی وہ شاہ سائیں کا کلام پڑھتے ہیں تو ایک ایسے جذبے کا احساس ہوتا ہے جو کہ آپ کو ہمت اور حوصلہ فراہم کرتا ہے۔

اس میوزیم میں آڈیو گرام ،قدیم ریڈیو، مختلف ہتھیار، سازوں کی کئی اقسام، طمنچے، تلواریں، خنجر، چوپڑ، نوٹن (سندھ کا ایک قدیم کھیل) حر تحریک کی بندوقیں، ٹائیپ رائٹر، بیل گاڑیاں، پرانے زمانے کے زرعی اوزار اور دیگر چیزیں موجود ہیں۔

انہوں نے یہ میوزیم اپنی ہی بیٹھک کے دو کمروں میں قائم کیا ہے۔ مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میوزیم میں اتنی چیزیں شامل ہو گئی ہیں کہ جگہ اب تنگ ہوتی جا رہی ہے۔

سندھ کا ایک مقامی ساز — تصویر اختر حفیظ
سندھ کا ایک مقامی ساز — تصویر اختر حفیظ

انگریز دور کا آئس باکس — تصویر اختر حفیظ
انگریز دور کا آئس باکس — تصویر اختر حفیظ

اوائل دور کا ریڈیو — تصویر اختر حفیظ
اوائل دور کا ریڈیو — تصویر اختر حفیظ

ایک قدیم بیل گاڑی — تصویر اختر حفیظ
ایک قدیم بیل گاڑی — تصویر اختر حفیظ

عطا پرعزم ہیں اور کہتے ہیں کہ، “میں اس میوزیم کو مزید وسیع کرنا چاہتا ہوں اس لیے اب دیگر اشیاء کے لیے مجھے مزید ایک کمرہ درکار ہے اور میں مستقبل قریب میں یہ کام بھی کر لوں گا”۔

وہ مجھے میوزیم میں رکھی تمام اشیاء کے بارے میں بتانے لگے۔ ایک آئس باکس جوکہ انگریزوں کے زمانے کا ہے، اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ انہوں نے 40 ہزار میں خریدا تھا۔

“یہ تو بہت مہنگا خریدا ہے آپ نے؟"

“ہاں بالکل مگر میں جب بھی کوئی نایاب چیز دیکھتا ہوں تو اس کی قیمت کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اسے خرید لیتا ہوں، کیونکہ مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میری خرید کی ہوئی چیزیں میرے میوزیم کا حصہ بن رہی ہیں، ایک مرتبہ میں نے ایک ڈھال خریدی تھی جوکہ لگ بھگ 2 لاکھ روپے میں پڑی مگر وہ ڈھال ایک دوست لے گیا”۔

کئی دہائیوں پرانی ایک جیپ — تصویر اختر حفیظ
کئی دہائیوں پرانی ایک جیپ — تصویر اختر حفیظ

قدیم بیل گاڑی — تصویر اختر حفیظ
قدیم بیل گاڑی — تصویر اختر حفیظ

بگھی — تصویر اختر حفیظ
بگھی — تصویر اختر حفیظ

قدیم سلائی مشین — تصویر اختر حفیظ
قدیم سلائی مشین — تصویر اختر حفیظ

انہیں اس میوزیم کو قائم کرنے کے لیے ابتدا میں تو دقت ہوئی مگر جیسے جیسے میوزیم میں قدیم چیزیں شامل ہوتی گئیں ویسے ویسے یہ میوزیم لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنتا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے انہیں ایسی نادر و نایاب چیزوں کی تلاش کے لیے مختلف جگہوں کا رخ کرنا پڑتا تھا مگر اب لوگ خود ہی انہیں ایسی اشیاء دے جاتے ہیں۔ کئی اشیاء تو ایسی بھی ہیں جنہیں وہ کوڑے سے اٹھا کر لائے ہیں، جوکہ لوگوں نے بیکار سمجھ کر پھینگ دی تھیں۔ میوزیم کی دیواروں پر لٹکی ہوئی حر تحریک میں استعمال ہونے والی بندوقیں بھی انہیں ناکارہ حالت میں ملی تھیں، ان کی مرمت کے بعد اس میوزیم میں شامل کیا گیا ہے۔ ایسے بھی کئی نوادرات ہیں جو لوگ خود آ کر ان کے حوالے کر کے گئے ہیں۔

گو کہ یہ ایک چھوٹا سا میوزیم ہے مگر جس طرح وہاں پر رکھی چیزوں کی حفاظت کی جاتی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ یہ عطا چانیہوں کا ہی ذوق ہے کہ انہوں نے ایک ریگستان میں لوگوں کو تفریح کا سامان میسر کیا ہے۔

پرانے ساز — تصویر اختر حفیظ
پرانے ساز — تصویر اختر حفیظ

دیوار پر آویزاں حر تحریک میں استعمال ہونے والی ایک بندوق  — تصویر اختر حفیظ
دیوار پر آویزاں حر تحریک میں استعمال ہونے والی ایک بندوق — تصویر اختر حفیظ

دیوار پر آویزاں حر تحریک میں استعمال ہونے والی ایک بندوق — تصویر اختر حفیظ
دیوار پر آویزاں حر تحریک میں استعمال ہونے والی ایک بندوق — تصویر اختر حفیظ

چوپار (لوڈو کی ایک قسم) کا کھیل  — تصویر اختر حفیظ
چوپار (لوڈو کی ایک قسم) کا کھیل — تصویر اختر حفیظ

جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ کوئی ایسی بات جو کہ آپ کو ناگوار لگتی ہو، جب لوگ یہاں آپ کے میوزیم کو دیکھنے آتے ہیں، تو انہوں نے کہا۔

“مجھے اس وقت ناگوار لگتا ہے جب لوگ میری جمع کی ہوئی چیزوں کو لاپرواہی سے دیکھتے ہیں اور ان کے ہاتھوں سے یہ نوادرات ٹوٹ جاتے ہیں۔ میں نے بہت محنت سے یہ سب تیار کیا ہے۔ میں کسی کو منع نہیں کر سکتا کہ وہ میرے میوزیم کو نہ دیکھیں بلکہ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو اتنا احساس ضرور ہونا چاہیے کہ میرے میوزیم میں رکھی ہوئی چیزیں آسانی سے میسر نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ چیزیں بار بار مل سکتی ہیں۔”

عطا چانیہوں اب تک کئی ممالک کی سیر بھی کر چکے ہیں اور دنیا کے بہت سے عجائب گھروں کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ ان کی ذاتی دلچسپی ہے کہ ان کا میوزیم اب بھی قائم ہے اور اسے مزید وسیع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گراموفون کے قدیم ریکارڈز — تصویر اختر حفیظ
گراموفون کے قدیم ریکارڈز — تصویر اختر حفیظ

عمارت سازی کے پرانے اوزار — تصویر اختر حفیظ
عمارت سازی کے پرانے اوزار — تصویر اختر حفیظ

ٹائپ رائٹر — تصویر اختر حفیظ
ٹائپ رائٹر — تصویر اختر حفیظ

بیل گاڑی کا ایک نمونہ — تصویر اختر حفیظ
بیل گاڑی کا ایک نمونہ — تصویر اختر حفیظ

ان کا نہ تو سرکاری سطح پر یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس میوزیم کی ذمہ داری اٹھائے اور نہ ہی کسی امداد کے طلبگار ہیں۔ وہ اس میوزیم کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہتے ہیں اور ایسی نادر اشیاء جو کہ لوگوں کے لیے فضول ہیں، انہیں اپنے میوزیم کی زینت بنانا چاہتے ہیں۔

مجھے عطا چانیہوں سے مل کر اس بات کا احساس ہوا کہ جو لوگ اپنے خوابوں سے کبھی تعلق ترک نہیں کرتے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے سب سے اہم وہی خواب ہوتے ہیں، جن کی تعبیر کے لیے وہ بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔

اچھڑو تھر میں قائم یہ میوزیم ایک ایسی جگہ بن چکا ہے جسے دیکھنے کی خواہش ہر اس شخص کو ہے جو اس ریگستان میں چند لمحے گزارنے آتا ہے۔ اب یہ جگہ اس صحرا کی سب سے اہم ترین جگہ بن چکی ہے۔ جس میں تاریخ اور صدیوں کے ورثے کو اس طرح محفوظ کیا گیا کہ انہیں دیکھ کر ایک منفرد تسکین حاصل ہوتی ہے۔ بلاشبہ اچھڑو تھر کے درمیان وہ ایک بیش قیمتی خزانے سے کم نہیں۔


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (19) بند ہیں

ابراھیم کنبھر Apr 15, 2017 02:21pm
کمال کا کام ہے عطا محمد چانھیو کا،،، اس کو ایکسلپور کرنا بھی کمال کا ہے،
mohammad khalid Apr 15, 2017 03:03pm
Weldon Hafeez bhai, Excellent discovery. Allah Tahala, Atta k musum ko zalmon ki nazr se bachay.
عبدالحفیظ لغاری Apr 15, 2017 03:14pm
اچھڑو تھر (white desert) میں یہ ایک کمال کا میوزم ہے۔ عطا محمد چانہیو سے جتنا ہو سکا ہے انہوں نے کیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہمارے پاس یا پھر کسی جاننے والے کے پاس ایسی کوئی نایاب یا نادر چیز جو اس میوزم کی خوبصورتی میں اضافہ کر سکتی ہے تو وہ اس میوزم کو دینی چاہئے۔ کیونکہ وہاں تو محفوظ رہے گی ہم سے کھو ہی جانی ہے۔
ارشد بلوچ Apr 15, 2017 03:20pm
ڈان اخبار میں دو "اختر" لکھتے ہیں.. ایک اختر حفیظ اور اختر بلوچ .. دونوں میں خاصیت ہے کے گۓ دنوں کے قصوں کو با خوبی لکھتے ہیں حقیقتوں سے مونھ نہیں موڑتے.. سکہ بند تاریخ کے حوالے نہیں دیتے.. ماضی کے ساتھ حال کے کسی بھی موضوع کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف کرتے ہیں.. اختر حفیظ کو جہاں تاریخی یا اچھی چیز نظر آتی ہے وہاں وو اپنی پرانی بائیک اور کمیرہ کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں پھر تحقیق اور محنت کے ساتھ جو بلاگ تشکیل دیتے ہیں وو کمال کرتے ہیں آج بھی خوب لکھ
ahmak adami Apr 15, 2017 03:57pm
you did superb. you are wondeful person. keep it up.
رمضان رفیق Apr 15, 2017 04:57pm
ایسے ہی لوگ ہمارے ہیروز ہیں، ان کی پذیرائی کی جانی چاہیے، عطا محمد صاحب کو چاہیے کہ وہ ایک مشترکہ فنڈ کا آغاز کرکے اور لوگوں کو بھی اس میوزیم کی مدد کرنے کے لئے ممبر بنائیں، تاکہ یہ چیزیں ان کے ورثے کے طور پر آگے چلتی رہیں۔ اس خوبصورت جگہ کی سیر کروانے پر اختر حفیظ صاحب کا شکریہ ۔
Absar Apr 15, 2017 07:34pm
ایک بہت ہی شاندار کلیکشن... جسکو دیکھے بغیر رہا نہیں جا سکتا ہے....میں اس میوزیم کے مالک کو سلیوٹ کیے بغیر نہیں رہ سکتا...
ابوبکر شیخ Apr 15, 2017 07:57pm
انتہائی خوبصورت تصاویر کے ساتھ ایک اچھی تحریر۔ واہ واہ
ali Apr 15, 2017 09:27pm
will visit this great private museum on my trip,, great work Atta,, thanks Hafeez saeen for such exposure,,
Anwer Apr 16, 2017 07:56am
@عبدالحفیظ لغاری Good Idea
Daudpota Apr 16, 2017 10:42am
awesome.. u have unfolded a very colorful page of white desert.. good wishes for Mr. Atta Chanehun..
عدنان جداکر Apr 16, 2017 11:29am
@ارشد بلوچ صد فیصد متفق ہوں آپ سے
Kamran Khan Apr 16, 2017 03:25pm
Dear Brother, Weldon Hafeez bhai, Excellent discovery. You did nice Job. Keep it up.. Regards,
Shahid Khaskheli Apr 16, 2017 03:32pm
boht aala kam hai. or achi story bhe
غلام مرتضي‘ ڪننڀار کپرو Apr 16, 2017 05:01pm
This museum is excellent, nice old things. we get knowledge from old things that which type of things were used in future history.
Aamir Apr 17, 2017 01:38pm
Great work and collection. If other people also initiate similar projects, it will be a great effort to save our heritage for the future generations.
غلام شبیر لغاری Apr 18, 2017 03:47pm
اختر حفیظ کا بلاگ ( پاکستانی نوجوان کا صحرا میں قائم پرائیوٹ میوزیم) بہت اچھا لگا، عطا محمد چانھیو کے ذوق و شوق کا جواب نہیں، اختر حفیظ نے صحرا میں قائم میوزم پر خوب لکھا ھۓ، تصاویر بھی خوب ہیں۔
Shakeel abro Apr 18, 2017 07:47pm
DAWN has been publishing unique stories and this is another good addition to expose the great work by indigenous community of Sindh.Akhtar Hageez has done an excellent contribution in this context that ultimately attract others to witness this unique work. Sindh remained a cradle of arts & crafts since times immemorial.Preserving our rich cultural heritage is a great job and history will remember those who are contributing in this cause.Atta's Meuseum in desert is an inspiration for those who look for external support for doing any job.Atta's contribution will be appreciated by future generation to track the identity of national heritage. Well done DAWN,Atta Chanhyo & Alhtar Hafeez.
Raif jamali Apr 20, 2017 05:45pm
hats off to you amazing Atta and thanks for Hafiz for sharing such great story.