• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

جوہری ہتھیاروں پر پابندی:اجلاس سے ایٹمی ممالک ہی غیر حاضر

شائع March 29, 2017
ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی حقیقت کے بر عکس ہے، امریکی سفیر—فوٹو: اے ایف پی
ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی حقیقت کے بر عکس ہے، امریکی سفیر—فوٹو: اے ایف پی

نیویارک: اقوام متحدہ (یو این) کے زیر تحت ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق نئے عالمی معاہدے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ہونے والے ایک اجلاس میں دنیا کے بڑے، طاقتور، اور خود ایٹمی ممالک نے ہی شرکت نہیں۔

دنیا کے سب سے بااثر ملک امریکا نے کہا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں پر عالمی پابندی حقیقت کے برعکس ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق 27 مارچ سے نیویارک میں اقوام متحدہ کے زیر تحت ہونے والے مذاکرات کا مقصد ایک ایسے عالمی معاہدے پر اتفاق کرنا ہے، جس کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں پر عالمی پابندی عائد کرنا ہے۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے اکتوبر 2016 میں ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق معاہدے پر اتفاق کے لیے اجلاس بلانے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی پر امریکا کو تشویش

اقوام متحدہ نے یہ اجلاس جنرل اسمبلی میں دنیا کے 100 سے زائد ممالک کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے سے متعلق جمع کرائی گئی قرار داد کے بعد بلانے کا اعلان کیا تھا۔

ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق نیا معاہدہ کرنے کی حمایت کرنے والے ممالک میں برازیل، آسٹریا اور آئرلینڈ جیسے ممالک پیش پیش تھے، جب کہ جاپان سمیت کئی ممالک نے ان مذاکرات کی حمایت کی۔

اجلاس کے موقع پر امریکی سفیر کانفرنس ہال سے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
اجلاس کے موقع پر امریکی سفیر کانفرنس ہال سے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

ایٹمی طاقت کے حامل ممالک چین، پاکستان اور بھارت نے ایٹمی ہتھیاروں پر عالمی پابندی عائد کرنے یا نہ کرنے سے متعلق ووٹنگ میں اپنا حق استعمال نہیں کیا تھا، جب کہ امریکا، روس، اسرائیل اور برطانیہ جیسے ممالک نے ایٹمی ہتھیاروں پر عالمی معاہدے سے متعلق معاہدے کرانے کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق مذاکرات کے آغاز میں ہی دنیا کے بڑے، طاقتور اور ایٹمی قوت کے حامل ممالک نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

امریکا، روس اور چین جیسے ممالک جو خود اقوام متحدہ کے مستقل رکن بھی ہیں، ان سمیت کئی ایٹمی ممالک نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

اجلاس کے موقع پر اقوام متحدہ میں امریکا کی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ ایک ماں اور بیٹی ہونے کی حیثیت میں ان کی خواہش ہے کہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہو، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر عالمی پابندی غیر مؤثر ہوگی۔

مزید پڑھیں: اب معاملہ روایتی ہتھیاروں تک محدودنہیں رہےگا

امریکی سفیر نے واضح طور پر کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی حقیقت کے برعکس ہے، کیا کوئی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس عالمی پابندی پر شمالی کوریا عمل کر سکتا ہے؟

خیال رہے کہ شمالی کوریا نے حال ہی میں عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود میزائل اور جوہری تجربات کیے۔

امریکی سفیر نے بتایا کہ امریکا نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے بعد اپنے ہتھیاروں میں 85 فیصد کمی کی۔

فرانس کے ڈپٹی سفیر الیکسس لیمک اجلاس کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
فرانس کے ڈپٹی سفیر الیکسس لیمک اجلاس کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

اے پی نے اپنی خبر میں بتایا کہ امریکی سفیر کے علاوہ برطانیہ، فرانس اور دیگر ایٹمی طاقت کے حامل ممالک کے نمائندوں سمیت قریبا 20 ممالک کے نمائندے بھی ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق معاہدے کی مخالفت کرنے کے لیے جمع ہوئے۔

دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی خبر میں بتایا کہ اقوام متحدہ کے زیر تحت اجلاس میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور ایٹمی طاقت کے حامل ممالک سمیت 40 ممالک نے شرکت نہیں کی۔

اجلاس میں شامل دنیا کے 120 ممالک نے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق معاہدے کو عالمی قانون کی شکل دینا کا مطالبہ کیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024