اراکین پارلیمنٹ، فوجی جنرلز کی مراعات جاننے کے منتظر
اسلام آباد: اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی تنخواہوں، پینشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد حاصل ہونے والی مراعات کے حوالے سے بارہا پوچھے گئے سوالوں کے جوابات بہت کم ملتے ہیں۔
لیکن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اپنی تنخواہ اور مراعات کو عام کرنے کے فیصلے سے اراکین پارلیمنٹ، ججز اور اعلیٰ سول و ملٹری بیوروکریسی کے افسران کی مراعات اور آسائشوں کے معاملے پر قانون سازوں کی دلچسپی بڑھ سکتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصورعلی شاہ کی جانب سے اپنی تنخواہ کی معلومات عام کرنے کو سراہا گیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ 'لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تنخواہوں اور مراعات کو عام کرنے کا خوش کن فیصلہ اعلیٰ سطح پر احتساب کی مثال ہے جس کی دوسروں کو بھی تقلید کرنی چاہیے'۔
سینیٹ میں سوال جواب کے آخری سیشن میں حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر کے سوال کے جواب میں ججز اور اراکین پارلیمنٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد حاصل ہونے والی مراعات سے بھی پردہ اٹھایا تاہم سول اور ملٹری بیوروکریسی کے اہلکاروں کے حوالے سے پوچھے گئے اسی طرح کے سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
وزیرقانون زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے جج کو ان کی تنخواہوں کا کم سے کم 70 فی صد اورسروس کے مکمل کرنے کے ہرسال کے حساب سے تنخوا کا 5 فیصد دیا جاتا ہے۔
لیکن فرحت اللہ بابر کی جانب سے گریڈ 21 اور اس سے اوپر کے سول افسران اور اسی طرح فوج، بحریہ اور فضائیہ میں میجر جنرل سے بھی اوپر کے رینک کے افسران کے حوالے سے اسی طرح کے پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
سینئرسول بیوروکریٹس کے حوالے سے تحریری سوال 17 مارچ کو سینیٹ میں جمع کرادیا گیا تھا جس کو تاحال منظور نہیں کیا گیا۔
وزارت دفاع کی جانب سے آرمڈ فورسز کے افسران کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔
یاد رہے کہ 26 جنوری 2017 کو پاک فوج کے تعلقات عامہ نے کہا تھا کہ فوج کے سابق سربراہ کو زرعی اراضی الاٹ کرنے کا سوال ریاستی اداروں کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کا سبب ہوسکتا ہے۔
آرمی افسران اور فوجیوں کو زرعی اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 'فوج کو بدنام کرنے کی غرض سے ہونے والے یہ بحث ریاستی اداروں کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کا باعث ہوسکتی ہے جبکہ موجودہ ہم آہنگی کے لیے بھی نقصان کا سبب ہوسکتی ہے'۔
مزید کہا گیا تھا کہ 'سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو بھی اسی قانون اور حکومت/ فوج کے طریقہ کار کے تحت الاٹمنٹ ہوئی ہے'۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ انھوں نے سوال اٹھایا ہے اب اس معاملے کو آگے بڑھانا پارلیمنٹ کا کام ہے۔
ججوں کی مراعات
سینیٹ کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس پنشن کی مد میں ماہانہ کم ازکم 7 لاکھ 74 ہزار 547 روپے اور زیادہ سے زیادہ 8 لاکھ 96 ہزار 636 روپے حاصل کرسکتا ہے اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ماہانہ 6 لاکھ 87 ہزار 984 روپے اور 7 لاکھ 59 ہزار 964 روپے کے درمیان حاصل کرسکتا ہے۔
تحریری جواب میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے جج ماہانہ اوسطاً 8 لاکھ جبکہ ہائی کورٹ کے جج 6 لاکھ 70 ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے جج یا ان کی بیوہ کو ایک ڈرائیور اور 300 لیٹر پیٹرول، سیکیورٹی، مہینے میں 3 ہزار مقامی ٹیلی فون کالز کی سہولت، بجلی کے 2 ہزار یونٹ، مفت پانی اور 2500 کیوبک میٹر قدرتی گیس (جس کی مالیت عام طور پر 50 ہزار ہوتی ہے) کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔
ان مراعات پر کوئی انکم ٹیکس واجب الادا نہیں ہوتا اور مراعات اور ان سہولیات کے حامل ایک جج کو اگر کوئی ذمہ داری دی جائے تو بغیر کسی فیس کے ثالثی کے طور پر حکومتی مفاد سے وابستہ ہوگا۔
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو اگر حکومتی عہدے پر تعینات کیا گیا تو اس میں بھی وہ پنشن کے ساتھ الاؤنسز اور دوبارہ دی گئی ذمہ داریوں کی سہولیات حاصل کرنے کے حق دار ہوں گے۔
جواب میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کو حاصل مراعات کو ان کی وفاقی یا صوبائی حکومت میں دوبارہ ملازمت کی بنا پر معطل کردیا گیا ہے۔
ہائی کورٹ کے جج کو ریٹائرمنت کے بعد ایک ڈرائیور کی سہولت کا بھی موقع دیا جاتا ہے اور 800 مفت لوکل کالز، 150 لٹر پیٹرول، بجلی کی 800 یونٹ, مفت پانی اور 2500 کیوبل میٹر گیس ماہانہ دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج کی طرح ہائی کورٹ کا ایک جج بھی بغیر کسی فیس کے حکومتی ثالثی کا پابند ہوتا ہے مزید یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زیر استعمال گاڑی کو کم لاگت پر بھی خرید سکتا ہے۔
جب پوچھا گیا کہ کسی چیف جسٹس یا جج نے قانون کے مطابق بیان کردہ مراعات سے فائدہ اٹھایا ہے تو وزارت قانون کا جواب تھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 6000 سی سی بلٹ پروف مرسیڈیز گاڑی کو وزیراعظم کے ذریعے تین ماہ کے لیے دی گئی تھی۔
'اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں' اس گاڑی کے ایندھن، مرمت اور مینٹینینس کا بوجھ لا ڈویژن نے برداشت کیا، سابق چیف جسٹس کو فراہم کی گئی گاڑی سے متعلق قانوی باریکیوں کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ 'یہ پورا معاملہ گزشتہ تین سالوں میں سب جوڈیس ہوا ہے'۔
فرحت اللہ بابر کے ایک اور سوال کے جواب میں پارلیمانی امور کے وزیر نے 9 مارچ کو سینیٹ کو آگاہ کیا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ کو ریٹائرمنٹ پر چند سہولیات دی گئی تھیں لیکن پنشن شامل نہیں تھی۔
پارلمینٹیرینز کو ریٹائرمنٹ کے بعد موجودہ اراکین کے برابر صحت کی سہولیات سمیت سیکریٹریٹ، لائیبریری اور پارلیمنٹ کے لاونج تک مفت رسائی، کارروائی کو دیکھنے کے لیے مستقل پاس، ائرپورٹ پر وی آئی پی لاؤنج کا استمال اور آفیشلزپاسپورٹ کی سہولیات شامل ہیں۔
یہ خبر 27 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (2) بند ہیں