مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد میں اجتماع کرنے سے روک دیا گیا
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے اپنی رِٹ قائم کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد میں اجتماع منعقد کرنے سے روک دیا۔
اسلام آباد میں واقع لال مسجد کے اطراف کے علاقے سیکٹر جی 6 میں میونسپل روڈ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد صبح 10 بجے ہی پہنچ گئی۔
لال مسجد کی جانب جانے والی تمام سڑکیں جن میں میلوڈی مارکیٹ، آبپارہ اور شہید ملت روڈ شامل ہیں، کو کلیئر کرالیا گیا جس کے بعد پیدل چلنے والے شہریوں کو بھی مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں رہی۔
سخت سیکیورٹی اور سڑکوں کو بند کرائے جانے کے بعد لال مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماع میں شریک افراد کی تعداد بہت کم رہی۔
نمازیوں میں زیادہ تر میڈیا نمائندگان اور لال مسجد کے سامنے واقع قومی احتساب بیورو کے ملازمین شامل تھے۔
خیال رہے کہ مولانا عبدالعزیز نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی اشاعت کے خلاف لال مسجد میں جمعہ (24 مارچ) کو ایک کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تھا تاہم ان کے پیروکاروں اور وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کے درمیان جمعرات کی شب ہونے والے مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔
اسلام آباد انتظامیہ نے اجتماع کی درخواست کو مسترد کرنے کا کوئی تحریری جواب جاری نہیں دیا بلکہ لال مسجد انتظامیہ کو اجتماع کا انعقاد نہ کرنے کی زبانی ہدایات دیں۔
حکام نے ڈان کو بتایا کہ 'لال مسجد میں کانفرنس کی اجازت اس لیے نہیں دی جاسکتی کیونکہ مولانا عبدالعزیز پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جبکہ لال مسجد حکومت کی ملکیت ہے جہاں پر کسی بھی قسم کی سرگرمی کے انعقاد کا اختیار صرف حکومت ہی کو حاصل ہے'۔
دوسری جانب لال مسجد کی جانب سے سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ حمایتیوں اور وفادار افراد کی مدد سے ہر قیمت پر کانفرنس منعقد ہوگی۔
اسلام آباد انتظامیہ کے حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار لال مسجد کے اطراف تعینات رہیں گے تاکہ باہر سے آنے والے افراد کو روکا جاسکے خصوصاً جڑواں شہر کے مدارس سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو آنے سے روکا جائے گا۔
لال مسجد میں اجتماع کے انعقاد کو روکنے کے لیے ملحقہ علاقوں میں 600 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا جن میں انسداد دہشت گردی اسکوڈ، پولیس، کمانڈوز اور خواتین پولیس شامل تھیں۔
علاوہ ازیں ٹریفک پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد جی 6 اور جی 7 کی بند کی گئی سڑکوں پر ٹریفک کو متبادل راستہ بتانے میں مصروف رہی۔
اسلام آباد انتظامیہ کے ایک سینئر حکام نے ڈان کو بتایا کہ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ مولانا عبدالعزیز نماز جمعہ کے اجتماع سے لوگوں کو کانفرنس میں شرکت کے لیے راغب کریں گے اور پھر ان ہی افراد کو کانفرنس کے شرکاء کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ 'اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جمعے کی نماز میں کسی کو بھی لال مسجد کا رخ نہ کرنے دیا جائے'۔
ایک جانب جہاں لال مسجد میں صورتحال قانون نافذ کرنے والے اداروں کے زیر کنٹرول رہی وہیں دوسری جانب دیگر مساجد جن میں آبپارہ روڈ پر واقع مسجد رحمانیہ شامل ہے، وہاں جمعے کی نماز سے قبل مدرسے کے طلبہ اور علماء کی بڑی تعداد جمع ہوگئی۔
مسجد رحمانیہ میں جمعے کا خطبہ دیتے ہوئے خطیب قاری عبدالرحمٰن معاویہ نے حکومت کے خلاف پرجوش خطاب کیا اور لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا کہ انہیں کوئی بھی طاقت گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف اجتماع کرنے سے نہیں روک سکتی۔
تاہم اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر ریٹائرڈ کیپٹن مشتاق احمد کی مسجد میں آمد کے بعد خطیب نے اپنے طرز بیان کو تبدیل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 'مولانا عبدالعزیز نے کہا تھا کہ ہم نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد لوٹ جائیں گے'۔
اس اعلان کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد کو نماز جمعہ کی ادائیگی کیے بغیر آبپارہ بس اسٹینڈ کا رخ کرتے دیکھا گیا۔
اسی وقت مولانا عبدالعزیز نے سیکٹر جی 7 میں واقع اپنی رہائشگاہ اور جامعہ حفصہ سے اپنا خطبہ دیا۔
ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی اداروں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین ارکان کے ساتھ بینچ شیئر کرنے والے مذہبی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'گستاخی کے خلاف کانفرنس ہر حال میں منعقد کی جائے گی، اس جمعے یا اگلے جمعے کو، جب بھی انتظامیہ ہمیں اجازت دیتی ہے'۔
یہ خبر 25 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔