اپنی پہلی گاڑی خریدنے والوں کے لیے ایک مکمل گائیڈ
جب سے جاپان کی استعمال شدہ کاروں کی درآمد میں اضافہ ہوا ہے تب سے ہماری مارکیٹ میں گاڑیوں کی مختلف اقسام میں بے پناہ اضافہ ہوا ہ، جس سے گاڑیوں کی خرید و فروخت کا معاملہ قیمت اور پروڈکٹ کیٹیگری جیسے مختلف زمروں میں تقسیم ہو چکا ہے اور یوں مختلف نوعیت کے خریداروں کی ضروریات کا مداوا کرنے میں بھی آسانی پیدا ہوگئی ہے۔
2016 میں آٹو ڈیویلپمنٹ پالیسی پر عمل درآمد سے ہماری آٹو صنعت کے مقامی کھلاڑیوں میں بھی جان آنے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں۔
2016 میں ایک درجن سے زائد نئے ماڈلز نے 'باضابطہ طور پر' پاکستان میں اپنی جگہ بنائی ہے، ان میں سے تین تو پوری طرح سے نئی پیش کشیں تھیں، ہر طرح سے بہترین گاڑی، جو آپ کی ضروریات کو پورا کرے اور آپ کی جیب کو بھی بھاری نہ پڑے، کا فیصلہ کرنا اور بھی خاصا ہوتا جا رہا ہے۔
آپ کی پریشانیاں کم کرنے کے لیے اس مضمون کو گاڑی خریداری کے مختلف مرحلوں کے اعتبار سے موضوعات کو تقسیم کیا گیا ہے اور ان عناصر پر روشنی ڈالی گئی ہے جو گاری خریدتے وقت نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جیب میں پیسے کتنے ہیں؟
تمام عناصر میں سب سے بظاہر عنصر آپ کا بجٹ ہوتا ہے، جو کسی بھی خریداری کی بنیاد بھی ہوتی ہے۔ گاڑیوں کی کسی بھی مارکیٹ کی طرح ہی پاکستان میں بھی 10 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کی ہر قیمت کے مطابق گاڑیوں کی وسیع اقسام دستیاب ہیں۔
مگر اکثر پاکستانی خریدار 40 لاکھ تک کی ہی گاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
ذیل میں نئی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ کے اعتبار سے چند اہم آپشنز پیش کیے جاتے ہیں، جن پر آپ اپنے بجٹ کے مطابق غور کر سکتے ہیں۔
جب گاڑی کی قیمت کا اندازہ آپ اپنی مالی حیثیت کے مطابق لگا رہے ہوں، تو بہتر ہے کہ ہمیشہ اپنا بجٹ محتاط رکھیں کیونکہ گاڑی کی رجسٹریشن اور انشورنس کے لیے اپ کو تھوڑی اضافی رقم درکار ہوتی ہے۔
نئی یا استعمال شدہ؟
مقامی ساختہ گاڑی یا جاپان سے درآمد شدہ گاڑی میں کون سی گاڑی خریدنی ہے، اس کا تعلق بنیادی طور پر آپ کی ترجیحات پر ہے کیونکہ دونوں کے ہی چند مثبت اور منفی پہلو ہیں۔
جہاں مقامی طور پر اسیمبل ہونے والی گاڑی مناسب گارنٹی اور گاڑی کے اصل پرزوں کی صنعت کاری کی حامل آفٹر سیل سروسز فراہم ہونے سے ذہنی آسودگی ہوتی ہے، وہاں یہ گاڑیاں مختلف فیچرز یا خصوصیات کے معاملے میں ماند پڑ جاتی ہیں۔
مقامی آٹو صنعت کاروں کے درمیان مقابلے کی کمی اور ضروری ضابطوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے، مقامی طور پر اسیمبل ہونے والی گاڑیوں میں عام طور پر سیفٹی اور سجاوٹی خصوصیات نہیں ہوتیں جو کہ ایسی گاڑیوں کی عالمی منڈی میں دستیاب ہوتی ہیں۔
جاپان کی استعمال شدہ گاڑیوں کی بات کی جائے تو نسبتاً کم قیمتوں میں بھی گاڑیاں اطمینان بخش حد تک خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں؛ دائی ہاٹسو میرا اور دائی ہاٹسو موو ایسی گاڑیوں کی بہترین مثال ہیں۔
یہ گاڑیاں ایئر بیگز، اسمارٹ اینٹری اور موسمی حالات سے موافق کنڈیشنگ جیسی مختلف خصوصیات سے بھرپور ہوتی ہیں۔
تاہم، ان خصوصیات کی ایک قیمت بھی ادا کرنی ہوتی ہے: استعمال شدہ جاپانی گاڑیاں نہ صرف عام طور پر مقامی ساختہ ’نئی’ گاڑیوں سے کافی زیادہ مہنگی ہوتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ گاڑی اور سڑک کے درمیان کم فاصلے، بعد از فروخت سپورٹ کی کمی اور اسپیئر پارٹس کی قلت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر جب آپ گاڑی کے ڈائل پر درج میلوں کا حساب لگائیں گے تو آپ کی پریشانی اور بھی بڑھ جائے گی اور خریداری کا کٹھن کام ہی انجام نہیں دے پائیں گے۔
پاکستان میں گاڑی کو سڑک تک لانے کے مجموعی خرچے
یہاں مجموعی قیمت سے مراد گاڑی کو سڑک پر چلانے کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے پر آنے والی رقم اور گاڑی خریداری کی اصل رقم، رجسٹریشن اور انشورنس پر آنے والی رقم کے مرکب سے ہے۔
رجسٹریشن کے خرچے کا بنیادی طور پر انحصار اس صوبے پر، جہاں سے گاڑی کو رجسٹر کر وایا جا رہا ہے اور آپ کی گاڑی کے انجن کی طاقت پر ہوتا ہے۔
رجسٹریشن کا خرچہ زیادہ تر صوبوں میں ایک سا ہی ہوتا ہے جو موٹر وہیکل رجسٹریشن فی، موٹر وہیکل ٹیکس اور وتھ ہولڈنگ ٹیکس کی رقوم کو ملا کر بنتا ہے۔
درآمد شدہ اور استعمال شدہ گاڑیوں کا ایک نقصان یہ ہے کہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں ایک لگژری ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں گاڑیوں پر وصول کیے جانے والے ٹیکسوں کا انحصار انجن کی طاقت پر ہوتا ہے۔
گاڑی کی ساخت
یہاں گاڑی کی ساخت اہم کردار ادا کرتی ہے جو آپ کی گاڑی کی انجن کی طاقت کا واضح طور پر تعین کرتی ہے، جو کہ آپ کی گاڑی کو سڑک تک لانے کی مجموعی قیمت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مثلاً اگر گاڑی 850 سی سی ہے تو ایک ٹیکس نان فائلر کو ود ہولڈنگ کی جگہ محض دس ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں، جبکہ 4 لاکھ 50ہزار روپے کا ود ہولڈنگ ٹیکس 3 ہزار سی سی سے زائد طاقت کے انجنز پر لاگو ہوتا ہے۔
اگرچہ انجن طاقت کا تعین مختلف ساخت کی گاڑیوں میں سے آپ کی پسند کرتی ہے، لیکن دیگر مہنگی پیش کشوں میں سے چھوٹے سے چھوٹے انجن کا انتخاب سے آپ مختلف ٹیکس اور ٹوکن وغیرہ جیسے بار بار کے خرچوں سے خود کو بچا سکتے ہیں۔
اگر آپ کو ’ذہنی سکون’ کے لیے ایک اضافی قسط ادا کرنے میں کوئی اعتراض نہیں تو آپ کو گاڑی خرید کرتے وقت انشورنس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
انشورنس کے خرچے اور کوریج کا تعلق آپ کو متعلقہ سروس فراہم کرنے والوں سے ہے۔ عام طور پر پاکستان میں اقساط کا انحصار گاڑی کی مارکیٹ قدر، جتنی انشورنس رقم مختص کرنا چاہتے ہیں، اور رجسٹریشن کے سال پر ہوتا ہے، انشورنس کوریج میں اس بات کو بھی خاطر میں لایا جائے گا کہ آیا گاڑی استعمال شدہ ہے یا نہیں اور کیا انشورنس قسط گاڑی کی حالت کے مطابق ہے یا نہیں۔
رجسٹریشن اور انشورنس خرچوں کے ساتھ گاڑی کی اصل قیمت خرید کو جمع کریں گے تو آپ کے پاس آپ کی قوتِ خرید کی گاڑی کو سڑک تک لانے کی مجموعی قیمت کا پتہ چل جائے گا۔
تو جناب: بہتر انداز میں گاڑی کی خریداری کے فیصلے کا درومدار آپ کی ضروریات، بجٹ پابندیوں اور گاڑی کی مارکیٹ، جو آپ کی ضروریات سے موافق ہو، پر آپ کی گنجائش پر ہی ہوتا ہے۔ امید ہے کہ آپ ایک اچھی گاڑی خریدیں!
عدن علی گاڑیوں کے شوقین ہیں اور گاڑیوں کے متعلق خبروں پر نظر رکھتے ہیں۔ انہیں تجسس ہے کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں عام ہونے کے بعد یہ صنعت کس سمت میں جائے گی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔