یحییٰ خان کون تھے؟
1977 کے ماہ اگست میں پی ٹی وی کا ایک چھوٹا سا وفد پاک فوج کے سابق سربراہ کے گھر پہنچا۔ جنرل مارچ 1969 سے دسمبر 1971 تک صدر مملکت رہ چکے تھے۔ وہ 1972 کے اوائل سے گھر کے اندر ہی زندگی بسر کر رہے تھے اور گزشتہ پانچ برسوں کے دوران شاید ہی کبھی عوام کے درمیان دیکھے گئے ہوں۔ وہ گھر میں نظربند تھے۔
اس کے علاوہ وہ تقریباً گوشہ نشین ہو گئے تھے۔
پی ٹی وی کے وفد کی سربراہی پی ٹی وی راولپنڈی مرکز کے سینئر اہلکار مرحوم برہان الدین حسن کر رہے تھے۔ وہ اپنے کیمرا مین اور ٹیکنیشنز کے ساتھ یحییٰ خان سے ملنے وہاں پہنچے تھے۔
2005 میں لکھی اپنی کتاب ’ان سینسرڈ’ میں حسن رقم طراز ہیں کہ انہیں جنرل ضیاء (جو بغاوت کے ذریعے جولائی 1977 میں اقتدار میں آئے تھے) کی مارشل لاء حکومت کی جانب سے یحییٰ سے انٹرویو کرنے اور خصوصی طور پر کسی بھی طرح 1971 میں ہونے والے سقوطِ ڈھاکہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کے موضوع پر گفتگو کروانے کا حکم دیا گیا تھا۔
یحییٰ خان ملک کے مشرقی حصے کی خون آلود علیحدگی کے دوران فوجی سربراہ اور صدر تھے اور تھوڑے عرصے کے لیے ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور مشرقی پاکستان کے بنگالی قوم پرستوں، جن کی قیادت شیخ مجیب الرحمان کر رہے تھے، کے درمیان تناؤ کو ختم کرنے کی جدوجہد میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعتوں کے رہنماؤں میں سے ایک ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام بھی کر چکے تھے۔ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ 1970 کے انتخابات میں اکثریتی نشستوں کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی (بلکہ پورے مشرقی پاکستان میں کامیاب ہوئی تھی)۔
جب ایک طرف یحییٰ اور بھٹو کے درمیان، اور دوسری طرف مجیب کے ساتھ بات چیت ناکام ہوئیں، اور بھٹو — جن کی جماعت (پاکستان پیپلز پارٹی) نے مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی —نے دعویٰ کیا کہ اگر مجیب الرحمان کو اقتدار مل گیا تو وہ بنگالی علیحدگی پسندوں کی حمایت کر دیں گے، تو یحییٰ نے عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی، مجیب الرحمان کو گرفتار کر لیا اور مشرقی پاکستان میں کریک ڈاؤن کے احکامات جاری کر دیے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں شامل ایک سابق وزیر، ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی 2001 کی کتاب ’دی میراج آف پاور’ میں لکھا ہے کہ جب خونخوار خانہ جنگی اور اس کے بعد ہندوستان (جو بنگالی قوم پرستوں کی حمایت کر رہا تھا) کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا، تب تلملائے ہوئے فوجی افسران کے ایک گروپ نے یحییٰ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور اقتدار بھٹو کے حوالے کر دیا۔
بھٹو ریاست اور حکومت کے نئے سربراہ بن گئے اور خاموشی کے ساتھ یحییٰ کو ظاہری طور پر ’ان کے اپنے تحفظ کے خاطر’ گھر پر نظر بند کر دیا۔ جس گھر میں یحییٰ نظر بند تھے وہاں پولیس کے صرف چند ہی اہلکار ہی تعینات تھے۔
اس کے بعد سے یحییٰ کو شاید ہی کبھی دیکھا یا سنا گیا تھا۔ ایک سیاسی حلقے، جو کہ اب بڑی حد تک تقسیم ہو چکا ہے، نے سقوطِ ڈھاکہ کا الزام یحییٰ کی نااہلی پر ڈالا، جبکہ دوسرے حلقے نے اس کا ذمہ دار بھٹو کے ’تکبر’ اور ’خود پسندی’ کو ٹھہرایا۔ پانچ سال بعد، جولائی 1977 میں بھٹو کی جمہوری حکومت جنرل ضیاء کی رجعت پسند فوجی بغاوت کے ذریعے ختم کر دی گئی تھی۔
حسن اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ضیاء بھٹو کو مقدمے میں پھنسانے اور ان کی گرفتاری کو درست قرار دینے کے لیے ایک بہانے کی تلاش میں تھے اور اسی لیے ہی انہوں نے گوشہ نشین سابق جنرل کا انٹرویو لینے کی ہدایت کی تھی۔ ضیاء کو یقین تھا کہ یحییٰ سقوطِ ڈھاکہ کے لیے بھٹو کو ملزم ٹھہرائیں گے اور معزول وزیر اعظم کے خلاف عدالت میں پیش کرنے کے لیے درکار چیز مل جائے گی۔
مگر حسن کہتے ہیں کہ یحییٰ نے اس موضوع پر حسن کو یہ کہتے ہوئے بات کرنے سے انکار کر دیا، کہ انہیں جو کچھ بھی بتانا تھا، وہ سقوطِ ڈھاکہ کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ حمود الرحمان کمیشن کو بتا چکے ہیں۔ ضیاء یحییٰ سے کچھ بھی حاصل نہ کر سکے، مگر چند ماہ بعد بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چلانے اور 1979 میں ایک متنازع مقدمے کے ذریعے بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے میں کامیاب ہوگئے۔
حالانکہ ضیا نے یحییٰ کی نظر بندی ختم کر دی تھی مگر پھر بھی وہ گوشہ نشین ہی رہے۔ 1980 میں وہ خاموشی کے ساتھ اس جہاں سے وفات پا گئے۔ تب ان کی عمر 63 برس تھی۔ یحییٰ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اب بھی ان خیالات سے اخذ کیا جاتا ہے جو کہ 1971 میں ان کے ہٹائے جانے بعد منظر عام پر آئے جب انہوں نے تقریباً پوری طرح سے خاموشی اختیار کر لی تھی۔
ان کی خاموشی اور گوشہ نشینی کے دوران، بائیں بازو نے ان پر مشرقی پاکستان میں ہنگامہ آرائی کے دوران غلطیاں کرنے اور ہندوستان کے خلاف جنگ ہارنے کا الزام عائد کیا، دوسری جانب دائیں بازو نے انہیں فوج کو زوال پذیر اور اخلاقی طور پر دیوالیہ مردوں کے ہجوم میں بدلنے پر حقارت سے دیکھا۔ ایسی ببانگ دہل الزام تراشیوں سے، جو کہ گہری جڑیں پکڑ چکی تھیں، سے ان کے چند اقدامات نظر انداز ہو گئے جو کہ اس وقت کے بڑےانقلابی اقدامات تھے۔
یحییٰ خان نے برٹش انڈین آرمی کے رکن کے طور پر دوسری جنگ عظیم لڑی تھی اور اٹلی میں انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا اور قیدیوں کے ظالمانہ کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا جسے مسولینی کی فاشسٹ حکومت اور ان کے جرمن نازی اتحادی چلا رہے تھے۔ 1947 میں پاکستان بننے کے بعد یحییٰ نے پاک فوج میں شامل ہوئے۔ برگیڈیئر سمیر بھٹچاریا نے اپنی 2013 کی کتاب، ’نتھنگ بٹ!’ میں یحییٰ کو ایک ’بہت بڑے شرابی’ مگر ’ایک مکمل طور پر پیشہ ورانہ افسر’ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
1965 میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے انہیں میجر جنرل بنا دیا تھا اور ہندوستان کے خلاف 1965 کی جنگ کے دوران انہوں نے ایک انفینٹری ڈویژن کی سربراہی بھی کی۔ 1966 میں ایوب خان نے انہیں پاک فوج کا کمانڈر ان چیف مقرر کر دیا۔
ایوب حکومت، جس نے سیکیولرازم، ’جدت پسند اسلام’، سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کی ایک پیچیدہ صورت کو آپس میں ملا دیا تھا، اپنے ابتدائی 6 برسوں (65-1958) میں عوام کے درمیان مقبول رہی۔ مگر 1965 کی جنگ نے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے اور اس کے بعد شروع ہونے والے نسلی اور سیاسی تناؤ پیدا ہونے سے 1968 میں حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریک کا آغاز ہو گیا۔ یحییٰ، جن کا مسلح افواج کے اندر اثر کافی حد تک بڑھ چکا تھا، نے ایوب کو استعفی دینے کا کہا۔ ایوب مارچ 1969 میں دستبردار ہو گئے۔ یحییٰ نے بطور صدر اقتدار سنبھال لیا اور ملک میں دوسرا مارشل لا نافذ کر دیا۔
یحییٰ نے پریس پر عائد پابندیاں کم کر دیں، ایوب کا آئین 1962 معطل کر دیا اور سیاسی جماعتوں کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان کو ایک پارلیمانی جمہوری ریاست بنائیں گے۔ مگر جب اردو اخبارات جنرل کی شراب اور خواتین سے بھرپور رنگین زندگی کی تفصیلات میں مصروف ہوئے، تب یحییٰ بھی وہ اقدام اٹھانے میں مصروف تھے جو کہ کبھی ناممکن سا لگتا تھا۔
انہوں نے سب سے زیادہ نفرت آمیز ’ون یونٹ’ کا خاتمہ کیا، ایک ایسی پالیسی جس نے 1954 میں پاکستان کے فطری طور پر نسلی بنیادوں پر مختلف صوبوں کو صرف ایک ہی صوبے میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ملک میں پہلی بار بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کروانے کا اعلان کیا، اور مشرقی پاکستان میں زیادہ آبادی ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ میں زیادہ نمائندگی دینے پر متفق ہوئے۔ ایسی تمام اصلاحات، جو کہ سیاسی جماعتوں کے مطالبوں پر کی گئی تھیں، کو ’اسٹیبلشمنٹ’ کی جانب سے انتہائی خطرناک تصور کیا گیا۔ مگر یحییٰ ملکی معیشت کو بہتر کرنے اور ملکی سیاست کو سازگار بنانے کے لیے آگے بڑھتے ہی گئے۔
اگرچہ یحییٰ کے دور میں ہونے والے انتخابات کو اب بھی پاکستان کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا جاتا ہے، مگر پھر بھی اس کے نتائج مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان تعصب اور تناؤ کو کھول کر سامنے لے آئے تھے۔
مجیب کے بنگالی قوم پرست جذبات میں بتدریج شدت آ رہی تھی اور بھٹو نے اسے اپنے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ نئی منتخب اسمبلی کو ایک جگہ یکجا کرنے اور نئے آئین کو لکھنے میں ناکامی کے بعد، یحییٰ نے بھٹو کے بیانیے کی طرفداری کی اور مشرقی پاکستان کو جھپٹ لیا۔
اس جھپٹ سے ایک خونخوار خانہ جنگی بھڑک اٹھی اور بعد میں ہندوستان کے خلاف جنگ چھڑ گئی، یحییٰ ان دونوں میں سے کسی ایک بھی صورتحال کے لیے تیار نہیں تھے۔ 1971 کے واقعے کے بعد حیرت زدہ تھے مگر اس مؤقف پر قائم رہے کہ اس سانحے کے ذمہ دار صرف وہ ہی نہیں ہیں۔
مگر حالات تبدیل ہو گئے تھے اور ایک ہیجان زدہ قوم ایک قربانی کے بکرے کی تلاش میں تھی۔ یحییٰ خان کو جب ان کے اپنے آدمیوں نے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تب قربانی کا بکرا وہ ہی بن گئے۔ ان کی بے دخلی کے بعد انہوں نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کر لی۔
ایک رنگین مزاج آمر جو پارلیمانی جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کا نقیب بن چکا تھا وہ ایک گوشہ نشین، تصوراتی ولن بن گیا جس نے خاموشی کا دامن پھر کبھی نہ چھوڑا۔
یہ مضمون 19 مارچ 2017 کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں