واقعی زندگی ایک گورکھ دھندا ہے۔ اس کی پُراسراریت سمجھنے کے لیے میں جہاں بھی گیا مجھے مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ مجھے اُمید اور انتظار کی کیفیتوں میں اتنا یقین دیکھ کر خود پر یقین نہیں آیا کہ، انتظار اس قدر طویل بھی ہو سکتا ہے۔ بات گھنٹوں کی، صبح و شام کی، ہفتوں کی، مہینوں کی ہوتی تو بات قابل فہم بھی ہوتی۔
چلیے مان لیتے ہیں کہ برسوں کی طویل مدت بھی کبھی کبھار سمجھ میں آ سکتی ہے۔ مگر جس انتظار کا کوئی کنارہ نہ ہو، کوئی سرحد یا کوئی موسم نہ ہو وہاں زندگی کس طرح اپنا وجود برقرار رکھتی ہے؟
مگر ہم جانتے ہیں کہ تپتی دوپہروں، طوفانوں، خشک سالیوں اور جاڑوں کی یخ بستہ راتوں میں زندگی اس بغیر کسی سرحد والے انتظار میں اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہے۔ سمندر اور قدیم ندیوں کے کناروں پر کہیں بھی چلے جائیں تو ہزاروں راز مل جائیں گے جنہیں سمجھنے کے لیے شاید ایک پورا زمانہ درکار ہو۔
جنوبی سندھ کا ایک چھوٹا سا شہر ہے ’جاتی‘۔ اس شہر سے جنوب کی طرف ایک دو کلومیٹر سفر کریں تو اچانک سڑک مغرب کی طرف مُڑ جاتی ہے۔ یہ سڑک جہاں جاتی ہے وہاں ایک الگ ہی دنیا آباد ہے۔
لیکن وہاں کسی دوسرے دن چلیں گے، فی الحال اس موڑ پر پکے راستے کو الوداع کہہ کر ہم کچے راستے پر گامزن ہوتے ہیں جو لوگوں اور گاڑیوں کی آمد و رفت سے ہموار ہو چکا ہے۔
چونکہ مارچ کا مہینہ تھا اس لیے ابھی تیز ہوائیں اور مٹی کے طوفان چلنا شروع نہیں ہوئے تھے جن کا جون، جولائی میں چلنا ان سمندری کناروں کی پہچان ہے۔ دن کے بارہ بجے تھے۔ دھوپ چمکتی تھی مگر دھوپ میں تمازت نہیں تھی۔ زمین کسی سیدھی لکیر کی طرح بچھی تھی اور ہوا میں سے نمک جذب کرنے والی جھاڑیوں کی بہتات تھی، جن میں جنگلی حیات پنپتی ہے۔
ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے بعد مجھے محسوس ہوا جیسے میں دریا کے کسی کنارے پر چل رہا ہوں۔ تب میری بات کی تصدیق کی ہمارے ساتھ بیٹھے عمر بوہریو نے، جو اِن شوریدہ میدانوں کا مقیم ہے اور ہماری رہنمائی کے لیے ساتھ تھا۔ اس نے بتایا کہ دریائے سندھ کا قدیم گونگڑو بہاؤ اس سر کریک میں گرتا تھا اور جاتی کے قریب اپنے زمانے کا مشہور سنڈو بندر بھی تھا، جہاں گجرات اور دوسرے شہروں سے بھاری پانی کے جہازوں کی آمد و رفت ہوتی تھی۔
جہازوں کی آمد و رفت ماضی کے سہانے دنوں کا قصہ ہے جو سُننے میں بڑا اچھا لگتا ہے۔ تھوڑا تصور کریں کہ گجرات کے پور بندر سے جہاز آ رہے ہیں، بادبان ہواؤں میں اُڑتے، جہازوں کو اپنی منزل کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور بندرگاہوں پر خرید و فروخت ہو رہی ہے۔
مگر اب وقت کی ریت نے اس قدیم بہاؤ کو خشک کر کے نمک سے بھر دیا ہے۔ اس قدیم بہاؤ کے دونوں کناروں پر 170 سے زیادہ چھوٹے بڑے گاؤں ہیں جو یہاں ایک زمانے سے آباد ہیں۔ کسی گاؤں میں اگر دس خاندان آباد ہیں تو کسی میں چالیس تو کئی ایسے بھی گاؤں ہیں جہاں ڈیڑھ سو سے دو سو خاندان ہیں۔ یہ آبادی، جو فقط سمندر کے قریب ہے یا اس قدیم بہاؤ کے کناروں پر آباد ہے، ایک اوسط اندازے کے مطابق آبادی کی تعداد 45 ہزار سے زائد ہے۔ اور ان کے پاس بنیادی سہولت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
مجھے یہاں سرکاری مشینری نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی، ہاں البتہ تین اسکولوں کی عمارتیں ضرور نظر آئی تھیں۔ ایک عمارت دیکھنے میں کچھ ٹھیک تھی مگر میں نے جب اندر جا کر دیکھا تو شاید برسوں سے وہاں کوئی نہیں آیا تھا، اس لیے کھڑکیاں اور دروازے بھی نکال لیے گئے تھے۔
پھر گاؤں جڑیو تھہیمور کے اسکول کا رخ کیا وہاں ڈیڑھ سو کے قریب گھر موجود ہیں، وہاں اسکول کی عمارت کی تصویر آپ خود دیکھ لیں اور فیصلہ کر لیں کہ یہاں بچے کس طرح پڑھتے ہوں گے اور اس عمارت کی گذشتہ پانچ برسوں سے یہ ہی حالت ہے، نہ جیتی ہے نہ مرتی ہے۔
پھر غلام حسین بوہریو نامی گاؤں میں اسکول کی عمارت تو تھی مگر بچے اس لے اسکول نہیں آتے تھے کہ اُستاد محترم نہیں آتے۔ بائیومیٹرک کی ساری کہانیاں شہروں میں ہو سکتا ہے رنگ دکھاتی ہوں مگر یہاں یہ چیز ابھی متعارف نہیں ہوئی۔
ہم تقریباً 9 کلومیٹر سفر کرنے کے بعد ایک ویران سے گاؤں میں پہنچے۔ یہاں نو دس سے زیادہ گھر نہیں تھے۔ سمندر کے کناروں پر جو چھوٹے بڑے گاؤں ہیں وہاں آپ کو کانٹیدار جھاڑیوں کی باڑ نہیں ملے گی اور نہ ہی کوئی چار دیواری نظر آئے گی کیونکہ نفسیاتی طور پر یہ لوگ خود کو غیر محفوظ نہیں سمجھتے۔ شاید یہ اُن کی فطرت اور اس کے مناظر سے دوستی کا تقاضا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کہ بیچ میں کوئی دیوار آئے۔
آپ اُن کے آنگن میں کھڑے ہو جائیں تو جہاں تک آپ کی نظر جائے گی اُس نگاہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ جب بارشوں کے موسموں میں ان آنگنوں سے چہار سُو نظر جاتی ہو گی تو فطری حسن کیا خوب مناظر بناتا ہوگا۔ مگر کبھی کبھار فطرت ان سے مناسب رویہ اختیار نہیں کرتی۔
سائیکلون ٹو اے جو 1999 میں آیا تھا، تب اس ساحلی پٹی کی کئی ماؤں کی گودیں اُجڑی تھیں۔ سارا شگفتہ نے کیا خوب لکھا تھا کہ، ’بھرے ساگر میں جن کی کشتیاں ڈوبتی ہیں اُن کے جنازے نہیں اُٹھتے‘۔ بس کچھ ایسا ہی یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ جو ماہی گیر تھے اور سمندر پر گئے ہوئے تھے، طوفان کی وجہ سے پیشگی اطلاع نہ ملنے پر سمندر میں پھنس گئے اور اُن کی کشتیاں بھرے ساگر میں ہی ڈوب گئیں اور اُن کے کبھی جنازے نہیں اُٹھے۔
اس سائیکلون کے نقصان کے حوالے سے جب میں نے مقامی صحافی زاہد اسحاق سے پوچھا تو جواب آیا، "سائیکلون سے سب سے زیادہ نقصان جاتی شہر کی ساحلی پٹی میں ہوا اور میں نے اس سانحے کی ایک ہفتے تک دن رات رپورٹنگ کی، فطرت، انسان کو اس وحشیانہ انداز میں بھی مار سکتی ہے کہ جس کا یقین تو چھوڑیے گمان بھی نہ کر سکیں گے۔ کوئی لاش کسی درخت پر لٹکی ہوئی ہے، کوئی جسم کہاں پڑا ہے۔
مطلب کہ ایک قیامت کی ایک ہوا یا لہر چلی تھی جو اس ساحلی پٹی سے گزر گئی۔ دیگر نقصان کو چھوڑیں فقط اُن جانوں کا ذکر کریں جو ایسے ہی بے گور وکفن مر گئے تو ان کی تعداد 462 کے قریب تھی۔ آپ نے آج جو علاقہ دیکھا ہے، سب سے زیادہ اموات اس علائقہ میں سے ہوئی تھیں۔"
میں جب گاؤں ’جڑیو بوہریو‘ پہنچا، جو اُن سیکڑوں گاؤں میں سے ایک ہے جہاں 1999 کے طوفان نے ہنستے کھیلتے لوگوں کو بے وقت موت کے بے رحم ٹھنڈی اندھیری کھائی میں دھکیل دیا تھا۔ جو سمندر میں گئے تھے وہ بے گور و کفن مرے اور کبھی نہیں ملے مگر گھروں کے گرنے، پانی بھر جانے اور تیز ہوا کی وجہ سے موت نے جب پنجوں میں جکڑا تو نہ عُمر کا لحاظ کیا اور نہ اُن معصوم اور بے بس آنکھوں پر رحم کیا جنہیں اور کچھ تو نہ ملا مگر کم سے کم آسمان پر گھنگھور گھٹا دیکھ کر خوش ہوجاتیں یا سردیوں کے دنوں میں نیلے آسمان پر پرندوں کی قطاریں دیکھ کر اگلے جاڑے کا انتظار کر لیتیں۔ موت نے ان کی موند دیں۔
میں اس گاؤں کی اُس ’قزبانو‘ نامی عورت سے ملنا چاہتا تھا جس کا ڈیڑھ برس کا بیٹا اور تین برس کی بیٹی اس طوفان کی نذر ہوئی تھی۔ ہم جب اُس کے گاؤں پہنچے تو ایک خاموشی طاری تھی، گاؤں میں صبح جلدی ہوتی ہے تو دوپہر بھی جلدی ہو جاتی ہے۔ 12 بجے سے ایک بجے تک دو پہر کی روٹی پک جاتی ہے اور پیٹ کے دوزخ کو بھر لیا جاتا ہے۔
میں جب قزبانو کے گھر پہنچا تو وہ شاید کچھ سی رہی تھی۔ اپنے درد تو یقیناً نہیں ہاں البتہ ’رلی‘ سی رہی تھی۔ میں قریب ایک گھنٹہ اس گھر میں موجود رہا، بہت ساری باتیں ہوئیں۔ سولہ برس گزر چکے تھے مگر تپتی دو پہروں میں اب بھی اُسے اپنا بیٹا عبدالحکیم اور تین برس کی بیٹی زینت یاد آتی ہے، تب آنکھوں میں اشکبار ہو جاتی ہیں کہ، اولاد کا دُکھ اس کائنات کا سب سے بڑا دُکھ جو ٹھہرا۔
پھر میں نے جب پوچھا کہ، اور کیسے گزرتی ہے زندگی؟ تو جو جواب آیا وہ ایک زمانے کے منہ پر طمانچہ تھا۔
"ہماری کیا زندگی ہوئی، نہ پیٹ بھر کر خوراک، نہ بیماری کے لیے علاج، نہ روزگار نہ پینے کے لیے پانی نہ کوئی پُرسان حال۔ ہماری کیسی زندگی، بس پھر بھی اللہ کا شکر ہے گذر رہی ہے۔"
پھر ہم مائی قزبانو کے ساتھ اُس پانی کے تالاب پر گئے جہاں سے گاؤں والے پانی بھرتے ہیں۔ اس تالاب پر کپڑے اور برتن دھوئے جاتے ہیں، بچوں کو بھی نہلایا جاتا ہے اور پینے کا پانی بھی نکالا جاتا ہے۔ گاؤں میں ایک ہینڈ پمپ بھی تھا جو کسی غیر سرکاری ادارے نے رحم کھا کر دیا تھا۔
اب وہ ہینڈ پمپ بڑی کوششوں کے بعد بھی پانی نہیں دیتا کہ اس کے سارے پرزے کام چھوڑ چکے ہیں۔ یوں تالاب کا پانی غنیمت ٹھہرا۔ پانی کی یہ کہانی اس 70 سے 95 کلومیٹر میں پھیلی ہوئی سمندری کنارے کی ہے۔ سیکڑوں ایسے گاؤں ہیں جہاں تالاب نہیں ہیں۔ اگر دکھانے کے لیے بنا بھی دیے گئے ہیں تو بھی اُن میں پانی نہیں آتا۔ سال کے آٹھ ماہ تک جب نہریں سُوکھی ہوں اور پانی کوئی طاقتور وڈیرہ لے جائے تو ان نہروں میں پانی کیونکر آئے۔
راستے میں ہمیں عورتوں کی بے شمار ٹولیاں ملیں جو چار چار کلومیٹر دُور سے یا تو پانی بھر کر آرہی تھیں یا بھرنے جا رہی تھیں۔ پھر ہم ڈیڑہ سو خاندانوں کے ایک بڑے گاؤں جڑیو تھہیمور میں پہنچے۔ یہاں پانی کے تین تالاب ہیں اور ایک یا دو تالاب بھرے بھی تھے مگر کپڑے بھی وہیں دھلتے اور بھینسیں بھی وہیں اس تالاب میں نہاتی ہیں۔
اسکول کی کہانی تو آپ سن چکے ہیں۔ یہاں شاید پانچ برس پہلے اسکول تھا جس میں تین اُستاد تھے لیکن پھر نئی عمارت تعمیر جو ایک ماہ کے اندر ہی خستہ حالی کا شکار ہو گئی۔
بچے گھر پر بٹھادیے گئے کہ ایسی تعلیم کا کیا کرنا جو بچہ جائے تو اسکول اور واپس اُس کا جنازہ آئے، اس لیے ایسے علم سے ایسے ہی بھلے۔ اب یہاں ڈیڑہ سو سے ڈھائی سو تک بچوں کی تعداد ہے مگر وہ پڑھنا بھی چاہیں تو کہاں پڑھیں؟ سرکار کہتی ہے کہ 44 فیصد بچے اسکول نہیں جا پاتے، یہاں آ کر کوئی اندھیر نگری دیکھے تو 4 فیصد بچے بھی اسکول نہیں جا پاتے۔
میں نے گاؤں والوں سے پوچھا کہ، اسکول کب بنے گا؟ بیس آدمیوں کے جو میں نے جواب سُنے اُن کا لُب لُباب یہ تھا کہ، ’ہنوز دلی دُور است‘۔
مجھے ابھی تک یقین نہیں آتا کہ، اس زمانہ میں جو فور جی کا زمانہ ہے اور تنخواہیں اے ٹی ایم کارڈ سے نکلتی ہیں، موٹر وے بن رہے ہیں۔ شہروں میں فلٹر پلانٹوں سے پانی پیا جاتا ہے۔ اور گاڑیوں میں پیٹرول کی جگہ سولر اور الیکٹرک بیٹری پر چلانے کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ روٹا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے دوائیں آ گئی ہیں، وہاں ہمارے ملک میں ایسا بھی کوئی علائقہ ہے جہاں 45 ہزار کی آبادی رہتی ہے اور وہاں کوئی پکی سڑک نہیں، پینے لائق پانی نہیں، میڈیکل کی کوئی سہولت نہیں اور اگر ایمرجنسی ہوجائے تو جاتی نامی ایک چھوٹا شہر ہے جو کم سے کم 8 سے 32 کلومیٹر دور واقع ہے اور اگر تھوڑی بھی بارش ہو جائے تو پھر شہر تک پہنچنا بھی ممکن نہیں ہوتا، وہاں اسکول نہیں، بجلی کا تو خیر کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مگر پھر بھی لوگ جیے جاتے ہیں۔ کوئی سمندر پر جاتا ہے، کوئی کسی مزدوری میں لگ جاتا ہے۔ کئی تو درخت کاٹ کر بیچنے میں لگے ہوئے ہیں جن سے کوئلہ بنتا ہے۔ مگر وہ بھی اب کوئی زیادہ نہیں بچیں۔
میں نے جب کوئلہ بنانے کی بھٹی کے مالک غلام حسین بوھریو سے پوچھا کہ، "کوئلہ بنانے کا کاروبار اب کیسا چل رہا ہے؟"
’’بہت مندہ چل رہا ہے بابا سائیں۔‘‘ جواب آیا۔
"آج سے دس برس پہلے دیویوں اور پیلو کے بڑے جنگل تھے۔ پیلو کا درخت تو خیر اب ڈھونڈے نہیں ملتے۔ باقی دیوی بھی پانچ برس میں آپ کو دیکھنے کے لیے نہیں ملے گی۔"
اور آنے والے پانچ برسوں میں ان کناروں پر بسنے والے نہ جانے کتنے لوگ پانی کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ سے وقت سے پہلے مر جائیں گے۔
خوراک کی کمی کی وجہ سے کتنے نوجوان ٹی بی میں کھانس کھانس کر مرجائیں گے۔ نہ جانے کتنے بیماری میں عذاب بھگتیں گے؟
ان غیرانسانی رویوں کی ایف آئی آر آخر کس پر کاٹی جائے؟
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں