ٹرپل ایم اے اور سی ایس ایس پاس ڈاکو
پولیس نے کراچی کی ایک شادی کی تقریب میں فل سوٹ میں ملبوس سعید ناریجونامی ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔ غیر روایتی ڈاکو سعید ناریجو پیشے کے لحاظ سے ہائی اسکول ٹیچر ہیں۔ اس پر بالائی سندھ کے مختلف اضلاع میں قتل، اغوا برائے تاوان، اور ڈاکہ زنی کے کئی مقدمات درج ہیں اور اس کے سر کی قیمت حکومت سندھ نے پانچ لاکھ روپے مقرر کی ہوئی ہے۔
سندھ میں ڈاکو پھل ماچھی دیومالائی کردار بنا۔ وہ امیروں کو لوٹتا تھا اور غریبوں میں پیسے بانٹتا تھا۔ پھل ماچھی پرفلم بھی بنی تھی اور اس کے بارے میں کئی قصے لوک کہانیوں کے روپ میں موجود ہیں۔ ماضی قریب ایک اور بدنام ڈاکو پرو چانڈیو پر بھی فلم بنی تھی۔ اسی ے عشرے میں پولیس مقابلے میں پرو چانڈیو مارا گیا تو اس کی میت پر کئی ہزار اجرکیں ڈالی گئیں تھیں۔
سعید ناریجواپنے کردار میں پھل ماچھی یاپرو چانڈیو کی طرح نہیں پھر بھی کئی روایتی ڈاکوؤں سے مختلف ہے۔ وہ پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ ہے۔ سعید انگریزی، اردو اور اکنامکس میں ایم اے ہیں۔ انہوں نے سی ایس ایس کا تحریری امتحان بھی پاس کیا تھا۔
اس معاملے میں وہ اپنی برادری کے ڈاکو رب رکھیو ناریجو کی طرح ہیں۔ رب رکھیو ناریجو ایم اے کے طالب علم اور ایک مشہور طلباء تنظیم کے سرگرم کارکن تھے۔ رب رکھیو نے مشہور سندھی افسانہ نگارنسیم کھرل کو قتل کیا تھا۔
دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ کی زمین صرف زرعی پیداوار میں ہی زرخیز نہیں ڈاکو پیدا کرنے کے لیے مشہور ہے۔ وجہ زمین کی زرعی زرخیزی ہے۔ حکومتی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے اس زمین پر کاشت، حق ملکیت اور قبضہ حاصل کرنے کے تنازعات ڈاکو بھی پیدا کر رہے ہیں اور قبائلی جھگڑے بھی۔ سعیدجرائم کی دنیا میں داخل ہونے والا اپنے قبیلے کا پہلا شخص نہیں۔ رب رکھیو ناریجو، نذرو ناریجو، مبین ناریجووغیرہ اس کے پیشرو ہیں۔ چھوٹے سے زمینی جھگڑے سے جرم کی دنیا میں داخل ہونے والے پھر اغوا برائے تاوان تک چلے جاتے ہیں۔
سعید کے ڈاکو بننے کی وجہ وہی تھی جو بہار کی عورت ڈاکو شکنتلا دیوی کی تھی۔ شکنتلا کے چچا نے اس کے والد کو قطع اراضی پر قبضہ کرنے کے لیے قتل کیا تھا، اور بعد میں اس کے چچا نے ان کے خاندان پر بے تحاشا ظلم ڈھائے تو وہ ڈاکو بن گئی۔ پھولن دیوی کی طرح نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی شکنتلا پر بعد میں فلم بھی بنی۔
سعید کے جرائم کی دنیا میں آنے کا پس منظربھارتی ڈاکو پان سنگھ سے ملتا جلتا ہے۔ پان سنگھ انڈین آرمی میں صوبیدار تھا۔ وہ ایتھیلٹ چیمپین بھی تھا اور قاتل ڈاکو بھی۔ وہ بھی ڈاکو بنا زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر اپنے رشتے داروں سے تنازع پر۔ پان سنگھ پر بھی فلم بنی ہے۔ سعید نے تین ایم اے کیے ہوئے ہیں اور سی ایس ایس کا تحریری امتحان بھی پاس کر رکھا ہے۔
سعید ناریجو نے 2003ء میں جرائم کی دنیا کو منتخب کیا، اور زمین کے تنازع پر گمبٹ کے علاقے میں علی بخش ناریجو کو قتل کیا، پھر 2009ء میں گلو سیال کے علاقے میں ایک ٹریکٹر ٹرالی پرحملہ کر کے نو افراد کو ہلاک اور سات کو زخمی کیا۔
ایس ایس پی لاڑکانہ پیر محمد شاہ کا کہنا ہے کہ انہیں خفیہ اطلاع ملی کہ خیرپور کے بدنام ڈاکو سعید ناریجو نے کراچی میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ جہاں وہ بڑی بڑی تقریبات میں بھی شریک ہو رہا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ ایک شادی کی تقریب میں جب اس کو پکڑا تو ابتدائی طور پر اس نے اپنا نام سرفراز شاہ بتایا۔ بعد میں ملزم کے پاس سے سعید ناریجو کا شناختی کارڈ بھی برآمد ہوگیا۔ سعید ناریجو ضلع لاڑکانہ اور خیرپور میں 22 سے زائد جرائم میں مطلوب ہے۔
تدریس کے شعبے سے وابستہ اور پڑھاکو کس طرح سے ڈاکو بن گیا؟ سعید ناریجو کا کہنا ہے کہ وہ خیرپور کے مہیسر وڈا میں سیکنڈری ٹیچر تھا۔ میں نے ٹرپل ایم اے انگریزی، اردو اور اکنامکس میں ماسٹرز کیا اور سی ایس ایس کا تحریری امتحان بھی پاس کیاتھا۔
کچے کے علاقے میں مقامی بااثر افراد کسی غریب کو سفید کپڑوں میں یا ترقی کرتا ہوا نہیں برداشت کرتے۔ ان کو کسی تنازع میں ملوث کر دیتے ہیں۔ وہ بھی قبائلی جھگڑوں کے باعث ڈاکو بن گیا۔
خیرپور کے شہر احمدپور کے علاقے میں واقع گاؤں کھاٹ ناریجو کے رہائشی سعید پانچ بچوں کے باپ ہیں۔ جرائم کی دنیا میں ’’خونی انسان ‘‘کے طور پر شناخت رکھنے والے سعید ناریجو کیمپ میں ڈاکوؤں کو پڑھاتے تھے۔ اس لیے ڈاکو اس کو استاد کہتے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سعید ناریجواب سفید پوش جرائم کرنے لگا تھا۔ کچے کے علاقے میں خود واردتیں کرنے کے بجائے موبائل فون کے ذریعے کراچی، حیدرآباد، سکھر اور پنجاب کے بعض شہروں میں اغوا کراتا اور تاوان وصول کرتا تھا۔
ایس ایس پی خیرپور کا کہنا ہے کہ مزید تفتیش کے لیے سعید ناریجو کو خیرپور پولیس کی اپنی تحویل میں لے لے گی۔
پولیس کے دعویٰ کے باوجود یہ معاملہ پراسرار بن گیا ہے کہ سعید ناریجو واقعی گرفتار ہوئے ہیں یا پیش ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ اور خیرپور کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بااثر شخصیت کی معرفت پولیس کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں