ہولی اور مذہبی ہم آہنگی کے رنگوں میں رنگا عمر کوٹ
ہولی اب عالمی سطح پر ایک مسلمہ ثقافتی اور مذہبی تہواروں میں سے ایک بن چکا ہے۔ جہاں عالمی دنیا کے لیے یہ تہوار شاید نیا ہو، وہیں یہ تہوار جنوبی ایشیا، بشمول وہ سرزمین جو اب پاکستان ہے، کے لیے ظاہر ہے کہ ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے، آخر اس تہوار کی ابتدا بھی تو یہاں سے ہوئی تھی۔
یہ تہوار دو دن تک جاری رہتا ہے، ہر سال اس تہوار کا آغاز فروری اور مارچ کے درمیان سندھی ہندو کلینڈر کے مہینے ٭پھلگن٭ میں٭پُرنما٭ — پورے چاند کا دن— کے دن سے ہو جاتا ہے۔ ہولی کا تہوار برائی پر اچھائی کی جیت اور بہار کی آمد کے جشن کو ظاہر کرتا ہے۔ رواں سال ہولی تہوار کا آغاز 12 مارچ کو ہوا۔
چونکہ سندھ میں ہندوؤں کی خاصی تعداد موجود ہے اس لیے پاکستان میں سب سے زیادہ ہولی کے جشن اور رنگ صوبہ سندھ میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ عام طور پر عمر کوٹ ہولی کے جشن کے حوالے سے صف اول کے شہروں میں شمار ہوتا ہے اور اس بار بھی صورتحال کچھ مختلف نہ تھی۔
ہولی کے اس جشن کا سلسلہ پورے ایک ہفتے تک جاری رہا، جس کی تیاری گزشتہ کئی دنوں سے جاری تھی۔ دکانوں اور کاروباری مراکز کو وقت سے کافی پہلے ہی بند کر دیا گیا تا کہ کسی کو ہولی کی خوشیاں لوٹنے میں دیر نہ ہو جائے۔
میں نے جیسے ہی عمرکوٹ کی سجی دھجی اور روشنیوں سے جگمگاتی گلیوں کا رخ کیا تو ہر جوان اور بوڑھے کو ناچتے گاتے پایا۔ لوگوں کو جو بھی ہتھے لگ رہا تھا وہ اس پر گلال پھینک رہے تھے، اور ہولی کے جشن سے پوری طرح محظوظ ہو رہے تھے۔ گھروں کو رنگولی سے سجایا گیا تھا اور محلیدار ایک دوسرے کے گھروں میں مٹھائی کا تبادلہ کر رہے تھے جو انہوں نے اپنے گھروں میں ہی تیار کی ہوئی تھی۔
ہولی کے جشن میں حصہ لینے کے لیے پاکستانی ڈانڈیاں گروپ بھی موجود تھا۔ انہیں سبز قمیضیں اور رنگین پگڑیاں پہنی ہوئی تھیں اور ڈھول کی تھاپ پر ڈانڈیاں کھیل رہے تھے۔ یہ گروپ کئی نسلوں سے یہ کام کرتا چلا آ رہا ہے اور گروپ کے سربراہ شگن لال نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی ان سرگرمیوں کے ذریعے اپنی ثقافت اور اپنی اقدار کو ظاہر کرتے ہیں۔
عمر کوٹ اور صحرائے تھر اپنی مذہبی ہم آہنگی کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے، جہاں مسلمان اور ہندو، ہولی، دیوالی اور عید جیسے ایک دوسرے کے تہواروں میں حصہ لیتے ہیں۔
ہولی کی پہلی رات سینکڑون مسلمانوں نے راما پیر چوک پر جمع ہجوم کا حصہ بنتے ہوئے ہولی کی تقاریب کا حصہ بنے۔ میری ملاقات ایک مسلمان شخص سے بھی ہوئی جو اپنے ہمراہ اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لایا تھا تا کہ ان کے بیٹے ہولی اور ہندو برادری کے بارے میں جان سکیں۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ ہندو مسلمان بغیر کسی امتیاز کے ہمیشہ ایک ساتھ ایسے تہوار مناتے ہیں اور تہواروں میں شرکت ہمیشہ ایک مثبت تجربہ کا باعث بنتی ہے۔ بلاشبہ وہاں ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کا واضح پیغام دیکھنے کو ملا اور اس کے شاہد ہجوم میں لہراتے وہ سبز ہلالی پرچم تھے۔
میں نے برادری مکھیہ گوتم پرکاش کا وہ خطاب بھی سنا جو انہوں نے وہاں موجود مجمعے کو دیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ: یہی تو ہے مذہبی آزادی: ایک اقلیت برادری جس طرح آج کھل کر اور آزادی کے ساتھ اپنا تہوار منا رہی ہے۔ انہوں نے سب کے لیے امن اور محبت کی دعائیں مانگی اور ہولی کا بھی تو پیغام یہی ہے۔
منوج گینانی فوٹوگرافر اور سنیمیٹوگرافر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں