لندن میں پاک-افغان مذاکرات میں 'پیش رفت'
اسلام آباد/ لندن: دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی کے معاملے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری ڈیڈلاک کے بعد دونوں ممالک نے لندن میں ہونے والی بات چیت میں پیش رفت کا عندیہ دیتے ہوئے امکان ظاہر کیا ہے کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھ سکتا ہے۔
تاہم اس بات چیت میں موجودہ وقت کے سب سے اہم مسئلے یعنی دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی بندش کے معاملے پر کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
یاد رہے کہ دہشت گرد حملوں کے سلسلے میں اچانک تیزی کے بعد افغان سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی کا الزام عائد کرتے ہوئے گذشتہ ماہ پاکستان نے پاک-افغان سرحد پر قائم طورخم گیٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا تھا۔
تاہم دونوں ممالک نے لندن میں ہونے والی بات چیت میں ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ہائی کمشنر کے ذرائع نے بدھ (16 مارچ) کو ہونے والی بات چیت کو 'مثبت، نتیجہ خیز اور خوشگوار ماحول میں ہونے والا تبادلہ خیال' قرار دیا۔
ذرائع کے مطابق اس دوران پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث افغانستان میں قیام پذیر دہشت گرد گروہوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا جو حالیہ دنوں میں سیہون اور لاہور میں ہونے والے حملوں میں ملوث تھے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اور افغان قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) حنیف اتمار کے درمیان ہونے والی ملاقات دونوں ممالک میں جاری کشیدگی کے بعد پہلی باقاعدہ اعلیٰ سطح کی ملاقات تھی جس میں برطانوی قومی سلامتی کے مشیر مارک لیال گرانٹ نے اہم کردار ادا کیا۔
اس سے قبل سرتاج عزیز اور حنیف اتمار کشیدگی میں کمی اور مختلف تحفظات پر بات چیت کے لیے بذریعہ ٹیلی فون بات کرچکے تھے تاہم یہ بات چیت دونوں ممالک کے درمیان ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے بےسود رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگرد تنظیم داعش افغانستان میں موجود ہے : دفتر خارجہ
ملاقات کے بعد اپنے فیس بک پیغام میں اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال کا کہنا تھا کہ لندن میں ہونے والی ملاقات 'دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوطرفہ تعاون میں بہتری کے نظام کے تعین اور اتفاق رائے جبکہ مشترکہ اعتماد اور موجودہ کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے ضروری اقدامات پر منظوری کے لیے کی گئی تھی'۔
اپنے پیغام میں ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم پرامید ہیں کہ جس نظام پر دونوں ممالک متفق ہوئے ہیں اس سے تعاون اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے درکار اعتماد میں اضافہ ہوسکے گا'۔
ملاقات میں شامل ایک سینئر پاکستانی سفارت کار نے بھی بات چیت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'مذاکرات میں کچھ بہتری ہوئی ہے اور اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیئے'۔
سرحد کی بندش کو ختم کیے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر پاکستانی سفارت کار کا کہنا تھا کہ سرحد کا معاملہ جلد حل ہوجائے گا مگر یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کابل متفقہ معاملات پر کس قدر عملدرآمد کرتا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز (16 مارچ) کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں نفیس زکریا نے کہا تھا کہ ’افغانستان میں موجود دہشت گرد بار بار پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، پاک افغان سرحد کی بندش عارضی ہے اور جلد ہی ضروری اقدامات اٹھانے کے بعد پاک-افغان سرحد کو کھولا جائے گا'۔
نفیس زکریا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو افغانستان میں موجود ہے‘۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات کے بعد پاکستان نے افغانستان میں موجود 76 دہشت گردوں کی فہرست بھی افغان حکومت کے حوالے کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ یا تو انھیں پاکستان کے حوالے کیا جائے یا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔