سی پیک واقعی مسئلہ کشمیر کے حل میں مددگار ہوسکتا ہے؟
پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات تیزی سے مضبوط ہورہے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس بحث کا بھی آغاز ہوگیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کا تنازع کشمیر پر کیا اثر ہوگا۔
مبصرین نے سوال اٹھایا کہ آیا پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی کامیابی پاکستان اور بھارت کے درمیان اس تنازع کے حل کے لیے مذاکرات کے آغاز میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے یا نہیں۔
سیاسی معیشت کے نقطہ نظر کے مطابق اگر خطے میں امن قائم نہیں ہوا تو اس طرح کے میگا پروجیکٹ کا منفی اثر پڑے گا، لیکن اگر عقلمندی سے کام لیا جائے تو اس کے ذریعے ناصرف مسئلہ کشمیر بلکہ خطے کے دیگر مسائل و تنازعات کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔
تاہم اس کا دارومدار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ بھارت سی پیک کے تحت ہونے والے ایونٹس پر کیسا ردعمل دیتا ہے۔
سی پیک پاکستان کے خود مختار علاقے گلگت بلتستان سے بھی گزرے گا، جسے بھارت اپنا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر: ’سی پیک‘ کے پہلے منصوبے کے معاہدے پر دستخط
اقتصادی راہداری ایک ہزار 300 کلومیٹر طویل قراقرم ہائی وے سے بھی منسلک ہوگی، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ سڑکوں اور ریلویز کے نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان اور چین بھی ایک دوسرے سے منسلک ہوجائیں گے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کے باعث بھارت سی پیک کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ راہداری متنازع علاقے سے گزرے گی۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت اور آزادی کے حامی گروپ اب تک سی پیک اور تنازع کشمیر کے درمیان کوئی تعلق نہیں سمجھتے۔
کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حال ہی میں سی پیک کی طرح کی ایک راہداری جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان بنانے اور کشمیر کو اس کا بنیادی مرکز بنانے کی تجویز دی تھی۔
سیاسی مسائل پر اثر انداز ہونے کے لیے اقتصادی نقطہ نظر سے بات کرنا کشمیری سیاستدانوں کا کبھی شیوا نہیں رہا، لیکن چین کے ابھرنے اور علاقے کو استعمال کرنا، جسے بھارت متنازع قرار دیتا ہے، کشمیر کے سیاستدانوں کی توجہ خطے میں نئی ترقیاتی کاموں کی جانب مبذول کرا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: سی پیک سے گلگت بلتستان کے عوام کی امیدیں وابستہ
کشمیر کی آزادی کی حامی حریت کانفرنس کے ممتاز رہنما میر واعظ عمر فاروق کا ماننا ہے کہ کشمیر، وسطی ایشیا کا گیٹ وے بن سکتا ہے۔
حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’طویل اقتصادی سرگرمیوں کے لحاظ سے ہر کوئی سی پیک کا حصہ بننا چاہتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کشمیر بھارت کا بھی گیٹ وے بن سکتا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بھارت بھی سی پیک کا حصہ بننا چاہے گا۔‘
تاہم بھارت اس منصوبے کی مسلسل مخالفت کر رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان میں انتخابات کے انعقاد پر بھی خوش نہیں۔
اگرچہ چین تنازع کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کرتا رہا ہے، لیکن وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرے۔
دوسری جانب آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت بھی سی پیک میں شامل ہوجائے تو دونوں ممالک، بالخصوص بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے چند مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر کو سی پیک کا انٹری پوائنٹ بنانے سے صرف بھارت کو فائدہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے تحت گوادر پورٹ سے تجارتی سرگرمیوں کا آغاز
لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس میگا پروجیکٹ میں بھارت کی شمولیت سے پاکستان کے ساتھ اس کے تنازعات کے حل کی راہ ہموار ہوگی۔
اگر بھارت سی پیک میں شمولیت کا فیصلہ کرتا ہے یا اپنے زیر انتظام کشمیر کو اقتصادی راہداری سے منسلک کرنے کی کوئی راہ نکالتا ہے تو خطے کے سیاستدان نیا ٹرن لے لیں گے۔
اس سے دونوں ممالک کے درمیان روابط کو فروغ ملے گا اور اقتصادی مفادات کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے سے جُڑنے میں مدد ملے گی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا، اس سے جنوبی ایشیا میں سیاسی کشیدگی میں کمی آئے گی اور اقتصادی ترقی کے نئے باب کا آغاز ہوگا۔
یہ مضمون 15 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔