• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

جسٹس شوکت صدیقی نے خود کو اوپن ٹرائل کیلئے پیش کردیا

شائع March 14, 2017

اسلام آباد: سوشل میڈیا سے مبینہ گستاخانہ مواد کو ہٹانے سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے جج نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ وہ اس کیس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں اپنے خلاف زیر سماعت ریفرنس کی وجہ سے کر رہے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وہ اوپن ٹرائل کے لیے تیار ہیں، چاہے وہ قذافی اسٹیڈیم میں ہی کیوں نہ چلایا جائے۔

یاد رہے کہ لاہور میں موجود قذافی اسٹیڈیم میں حال ہی میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا فائنل ہوا تھا، جہاں 27 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

جسٹس شوکت صدیقی نے اوپن ٹرائل کی پیش کش اُس وقت کی جب درخواست گزار کے وکیل طارق اسد نے عدالت کو بتایا کہ بعض ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کے کچھ اینکر پرسن اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت گستاخانہ مواد کو ہٹانے سے متعلق کیس اور سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ریفرنس میں تعلق جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ شاید پہلا موقع ہے کہ کسی جج نے اپنے اوپن ٹرائل کی پیش کش کی ہے، جب کہ سپریم جوڈیشل کونسل 1962 میں اپنے قیام سے اب تک ہمیشہ بند کمرے میں ہی اپنی کارروائی کرتی آئی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے اپنے فرائض میں غیر ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرنے، ججز کی ذہنی و جسمانی صلاحیت جانچنے اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ مواد: بلاک شدہ پیجز کے ریکارڈ کیلئے فیس بک سے رابطہ

سابق چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے گزشتہ برس اکتوبر میں اعلیٰ عدالت کے ججز کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنسز کو منظرعام پر لانے کے حوالے سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی عوام سے تعلق نہیں رکھتی۔

ایڈووکیٹ راحیل کامران شیخ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں دلیل دی گئی تھی کہ جوڈیشل کونسل اپنے قیام کے بعد سے بمشکل ہی فعال ہے۔

درخواست میں اگرچہ اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ ججز کے خلاف دائر کیسز کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یا کسی جج کی بدنامی کے پیش نظر معلومات فراہم کرنا عوام کے مفاد میں نہیں ہے، تاہم اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ جوڈیشل کونسل میں ہونے والے تمام کیسز کی معلومات کو خفیہ رکھا جائے۔

مزید پڑھیں: گستاخانہ مواد: تعاون نہ کرنے والی ویب سائٹس کی بندش کا عندیہ

حال ہی میں ایڈوکیٹ راحیل کامران شیخ نے پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد آرٹیکل 209 اور 211 میں کی گئی ترامیم کے تحت جوڈیشل کونسل کی تحقیقات کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خطاب کے دوران سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے انکشاف کیا تھا کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے خلاف دائر کی گئی 90 فیصد درخواستیں متروک ہو چکی ہیں۔

سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایڈوکیٹ طارق اسد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کچھ ٹی وی چینلز اس کارروائی پر تنقید کر رہے ہیں اور اس کا تعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ریفرنس کیس سے جوڑ رہے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جوڈیشل کونسل کو درخواست کی کہ ان کے خلاف داخل ریفرنس کا اوپن ٹرائل کرکے ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کی جانچ پڑتال عوام کے سامنے کی جائے۔

جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ اگر ان کی درخواست قبول کی گئی تو وہ صحافیوں کو بھی الزامات کی جانچ پڑتال کے لیے دعوت دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کا جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں اور یہ دونوں الگ معاملات ہیں، انہیں آپس میں نہ جوڑا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد شائع کرنے والوں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مطابق ایسے دعوے گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف غلط تاثر پیش کریں گے اور میڈیا کو اس حساس معاملے پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔

جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات کو دیکھنے کے لیے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین کو بلایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے سیکریٹری اطلاعات و نشریات کو ہدایات کیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت متعین کردہ حدود کے مطابق صحافی اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کریں۔

عدالت نے اس حوالے سے سیکریٹری اطلاعات و نشریات کو 17 مارچ تک مکمل رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔


یہ خبر 14 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024