امریکی ناول نگار و اداکار ٹرومین کپوٹے نے ایک بار کہا تھا کہ "وینس کا مزہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بار میں لکویئر چاکلیٹ کا پورا ڈبہ ہڑپ کر جانے پر آپ کو آتا ہے۔"
وینس اٹلی کے شمالی حصے کا ایک خوبصورت شہر جسے پانی کا شہر، پلوں کا شہر، نہروں کا شہر، تیرتا ہوا شہر کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ وینس دنیائے سیاحت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ میری بڑی آرزو تھی کہ کبھی وینس دیکھوں اور آج یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔
سوچتا تھا کہ لوگ پانی پر گھر کیسے بناتے ہوں گے، جہاں لوگ پانی کے راستے گھر داخل ہوتے ہوں گے تو پانی کیونکر نہ ان کے ساتھ چلا آتا ہو گا۔ ایسی ڈھیر ساری سوچوں کے ساتھ میں وینس میں داخل ہوا، اور ہو سکتا ہے کہ وینس کی سیر میرے باقی سفری بلاگ کی طرح مقامات کی سیر نہ ہو بلکہ میرے محسوسات ہوں کیونکہ میں وینس کو اتنا دیکھا نہیں جتنا محسوس کیا ہے۔
ہم بیلجیم سے سوئٹززلینڈ، اور پھر اٹلی کے شہروں سے گاڑی چلاتے یہاں تک آئے تھے، شہر کے داخلی دروازے پر شہر کے مرکز کی طرف جانے والی سڑک پر پولیس گاڑیوں کو واپس بھیج رہی تھی کہ گاڑی شہر سے دور پارکنگ پلازہ میں کھڑی کر کے آئیں کیونکہ مرکز میں موجود پارکنگ پلازہ پورے کے پورے بھر چکے ہیں۔ پارکنگ کے لیے لمبی قطار لگ چکی تھی، کیونکہ آنے والوں کی تعداد جانے والوں کی تعداد سے بہت زیادہ تھی۔
پولیس اہلکار کا دھیان ذرا ادھر ہوا اور ہم نے گاڑی پاکستانی انداز میں کچھ آگے بڑھا دی، جہاں ایک گھنٹے کی پارکنگ مل سکتی تھی، اور یہاں ہماری گاڑی کو وقتی ٹھہرنے کی ایک جگہ مل بھی گئی جبکہ اس جگہ سے جو مہربان گاڑی نکال رہے تھے انہوں نے اپنا پارکنگ ٹکٹ بھی ساتھ ہی دے دیا جس پر ابھی ایک گھنٹے کا وقت باقی تھا اور یوں ہمیں اس ایک گھنٹے کے لیے پارکنگ کی فیس ادا کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی۔
ابھی اسی سوچ میں تھے کہ گاڑی کو زیادہ دیر کے لیے کہاں پارک کیا جائے کہ ایک صاحب ہمارے سامنے آ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ہم ان کی کشتی کی سیر بُک کروائیں تو وہ ہماری گاڑی کو پارکنگ کی جگہ بھی دیں گے۔ ایک گھنٹہ سیر کی قیمت انہوں نے دو سو یورو بتائی، ہم نے کچھ بارگیننگ کی کوشش کی لیکن وہ اپنی قیمت پر ہی مصر رہے، واضح رہے کہ اٹلی، پرتگال وغیرہ میں بارگینگ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ہمارے ساتھ ہم سفر کچھ زیادہ ہی تھے لہٰذا ہم اس پیش کش پر راضی ہو گئے، اتنے میں اٹلی میں مقیم پاکستانی اردو بلاگر راجہ افتخار خان سے رابطہ ہوا، وہ بھی وہیں پر چلے آئے۔ انہوں نے شہر کا سرسری منظر نامہ بتایا جس سے شہر کی سیر مزید سہل ہو گئی۔ کشتی کی سیر ہی دراصل وینس کی سیر ہے، وینس رنگ برنگی کشتیوں، گنڈولوں سے بھرا ہوا ہے، پانی پر چلتے ہوئے آپ کو محسوس ہوگا کہ جیسے آپ کسی عام بازار سے گزر رہے ہوں۔
ہم جس کشتی میں بیٹھے تھے اس میں دس بارہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، اور اتنے ہی لوگ ہم تھے۔ کشتی والے نے انگریزی زبان سے اتنا ہی واقف تھا جتنے کہ ہم اطالوی سے، میں نے اسے کہا کہ جب سان مارکو آئے تو مجھے بتانا، جس کی اسے کسی نہ کسی انداز میں سمجھ آ گئی، پھر اس نے سان مارکو کی طرف اشارہ کیا اور مجھے موقع دیا کہ میں کچھ تصاویر کھینچ سکوں، یقین جانیے مجھے پہلی ہی نظر میں اس شہر کے ساتھ محبت ہو گئی تھی۔
کشتی کے سفر کے دوران وہ کچھ اہم عمارتوں کی طرف اشارہ کرتا اور میں اندازے سے کوئی اہم عمارت سمجھ کر تصویر کھینج لیتا۔ اس ایک گھنٹے کی سیر میں وینس کے حسن کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ اس پانی کو اگر وینس کی گلیاں کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ وینس وہی شہر ہے جہاں امیتابھ بچن اور زینت امان کی فلم دی گریٹ گیمبلر کا مشہور گانا 'دو لفظوں کی ہے دل کی کہانی' بھی شوٹ کیا گیا ہے.
یہ گلیاں کشتیوں اور سیاحوں سے بھری ہوئی تھیں، موسم گرماء اپنے جوبن پر تھا، لوگ محبت بھرے اس شہر میں اپنے پیاروں کے ساتھ لمحوں کو یادگار بنانے آئے تھے۔
لوگوں کے چہروں پر طمانیت تھی اور لبوں پر مسکراہٹیں جیسے ہر کسی کو اپنی کوئی من پسند چیز مل گئی ہو۔ ایسی فارغ البالی قریب سبھی سیاحت مقام کی شان ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت اپنی مصروف زندگی کو پیچھے چھوڑ کر کسی صحرائی کی مانند نئی جگہ کو نخلستان سمجھ کر اس میں اپنے وجود کو پناہ دیتے ہیں جہاں نہ دفتر، گھر، کام، الارم ہوتا ہے ہوتی ہے تو بے فکری، عجیب سے خوشی اور سکون شاید اسی لیے ایسی جگہوں پر لوگوں کے چہرے کسی بھی مصروف شہر کے لوگوں سے مختلف محسوس کیے جا سکتے تھے۔
کسی طرف کشتی میں لدا گروسری کا سامان جا رہا ہے، کہیں ہوٹل کی بوتلوں کے کریٹ ڈھوئے جا رہے ہیں، کہیں کوئی نو بیاہتا جوڑا اپنی شادی کو یادگار بنانے آیا ہے اور کہیں کسی کشتی پر کسی جا جنازہ لدا جا رہا ہے، پولیس کی کشتیاں، کارپوریشن کی صفائی کرنے والی کشتیاں ٖغرضیکہ شہر کا ہر رنگ کشیتوں میں نظر آتا ہے۔
ہم نے اس چارٹرڈ کشتی کی مدد سے شہر کا ایک پورا چکر لگایا، دھوپ نکلی ہوئی تھی، درجہء حرارت 30 کے قریب تھا، پانی کے سینے پر تیرتا ہوا وینس کسی خواب کا منظر دے رہا تھا۔
اٹلی کے دو تین شہروں میں مجھے پاکستانیوں سے زیادہ بنگالی نظر آئے، یہاں بھی حلال کھانے کے لیے ایک بنگالی بابو کے پیزہ گھر کا رخ کیا، انہوں نے کچھ مرچ مصالحے ڈال کر پیزہ پنجابی کرنے کی کوشش کی، جو بھوک کی نازک صورت حال میں بھلا بھلا محسوس ہوا۔
کشتی کی سیر کے بعد گاڑیوں کو رات بھر کے لیے کہیں پارک کرنے کا مرحلہ آیا، شہر کے مرکز سے تھوڑا ہٹ کر پارکنگ پلازوں میں پارکنگ قدرے سستی تھی اور وہاں سے آبی عوامی سواری کے ذریعے ہوٹل جایا جا سکتا تھا، سو ہم نے گاڑیاں ان عوامی پلازوں میں پارک کر دیں، آبی بس یا ایک بڑی کشی میں سوار ہو کر اپنی منزل کی جانب چل دیے۔
اس پبلک ٹرانسپورٹ کا یومیہ لامحدود ٹکٹ پندرہ بیس یورو کے لگ بھگ تھا اور سروس کے اعتبار سے یہ سروس شہر کے ہر حصے میں تک آپ کو لے جاتی ہے۔ اس پر بیٹھ کر ذہن میں منصوبہ بنا کہ شہر دیکھنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لینے کا خیال بھی کچھ برا نہیں۔
وینس میں جس ہاسٹل نما ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے اس میں ایئر کنڈیشن کی سہولت نہیں تھی، البتہ پاکستانی انداز کا ایک پیڈسٹل فین موجود تھا جو یہاں کے حبس اور گرمی کے لیے ناکافی تھا، کمرے کے حالات دیکھتے ہوئے ہم نے واپسی شہر کے اس کنارے کو ترجیح دی جس کنارے پر ہمارا ہوٹل تھا۔
اس کنارے پر واقع ریسٹورینٹس پر سیاحوں کا خوب رش تھا، ایسے میں ہم بھی ایک ہوٹل کے مہمان ہوئے، جہاں ہم نے سبزی والے پیزوں کا آڈر دیا، جب بل دینے کی باری آئی تو پتہ چلا کہ ہر گاہگ سے ریسٹورنٹ پر بیٹھ کر کھانے کے اضافی تین سے چار یورو وصول کیے جاتے ہیں۔
آٹھ یورو کا پیزا اور آٹھ یورو اضافی، کچھ زیادتی سی محسوس ہوئی بالکل جیسے دنیا میں نوسرباز آپ سے کسی نی کسی بہانے رقم اینٹھ لیتے ہیں۔ چوں کہ مینو وغیرہ اطالوی میں لکھا ہوا تھا اس لیے ہم یہ پڑھنے سے قاصر تھے کہ کچھ اضافی ٹیکسز بھی ہوں گے۔ اس سے پہلے میلان اور ویرونہ کے اطالوی ریسٹورنٹس میں ایسے کسی ٹیکس کا پتہ نہیں چلا تھا۔
رات کمرے میں گرمی کی وجہ سے آنکھ بہت جلدی کھل گئی سو میں نے اسے غنیمت جانا اور کیمرے لے کر وینس کی صبح دیکھنے چل پڑا، باہر گلی بالکل سنسان پڑی تھی، پانی کے کنارے پر پہنچا تو ابھی سورج نکلنے میں کچھ دیر باقی تھی، میونسپل کارپوریشن کی کوڑا اٹھانے والی کشتیاں ادھر ادھر جاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ ایک دو جگہ پر بیکری کا سامان ڈھونے والی کشتیاں بھی نظر آئیں جو ڈبل روٹیاں اور دیگر بیکری مصنوعات کا سامان لادے گزر رہی تھیں۔
میں کنارے کے ساتھ ساتھ دور تک چلا آیا، یہاں کنارے کے دوسری طرف وینس کا مرکزی حصہ پھیلا ہوا دکھائی دے رہا تھا، اور درمیان میں موجود سمندر سے چھوٹی اور بڑی کشتیوں کی آمد و رفت جاری تھی، ایک دو جمبو سائز کے سفری جہاز بھی دیکھنے کو ملے۔
اسی کنارے پر ایک دو بوڑھے مچھلی پکڑنے کی تیاریوں میں بھی مصروف تھے۔ مچھلی پکڑنے والے بابوں کی اتنی صبح خیزی کی کچھ خاص سمجھ نہ آئی، راستے میں ایک گرجے کے باہر پادری جی کے بھی درشن ہوئے، جو ایک معتقد سے بڑے راز و نیاز سے باتیں کر رہے تھے۔
میں اس کنارے پر اتنی دیر چلتا رہا کہ لوگ دکانیں کھولنے لگے۔ سب سے پہلے بیکری کی دکانیں کھلیں اور ایسی ہی ایک دکان پر میں نے اطالوی کی پیسٹری اور کافی لاتے کا ناشتہ کیا۔ کچھ دیر بعد ایک پھل سبزی کی دکان کھلی تو وہاں سے میں اطالوی سنگترے، خربوزے اور کھیرے خریدے تاکہ واپسی کے سفر میں کام آ سکیں۔
ابھی آج کے دن میں 12 گھنٹے کی مسافت بھی کرنی تھی۔ واپس برسلز پہنچنا تھا، جہاں ہمیں گاڑی لوٹانی تھی۔ وینس کے اس ساحل پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ ابھی وینس سے دل نہیں بھرا، ابھی تو پہلی ملاقات کی جھجک بھی دور نہ ہوئی تھی کہ واپس جانا پڑا، پھر یہ سوچ کر چلا آیا کہ یار زندہ صحبت باقی!
رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (9) بند ہیں