• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

افسانہ 'سیلن' (آخری قسط)

شائع August 4, 2017 اپ ڈیٹ September 6, 2017

ڈان نیوز کے قارئین کے لیے افسانوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جس میں سب سے پہلا افسانہ 'سیلن' ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کے دل کی کیفیت ہے جو یورپ میں اپنی محبت کو چھوڑ کر واپس برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں آ بسا ہے۔ اپنی آراء اور تجاویز سے ہمیں [email protected] پر ضرور آگاہ کیجیے۔

گذشتہ اقساط یہاں ملاحظہ کیجیے۔


مجھے لگتا کہ اگر میں دیر تک یوں ہی پانی میں سانس روکے بیٹھا رہوں تو کوئی جل پری مجھے اپنے نرم بازوؤں میں گھیر کر کسی رنگین دنیا میں لے جائے گی۔ جہاں سمندری پھول ہوں گے اور گہرے سمندر کی مخلوق، طرح طرح کے آفرینش ہوں گے۔ وہ ایسی جگہ ہوگی جہاں سانس لینے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ وقت کا کوئی تصور ہی نہ ہوگا۔

تب مجھے سمندر کے ساحل پر نم ریت پر گھنٹوں پڑے رہنے میں بھی بہت مزا آتا تھا۔ میں گیلی ریت پر لیٹا رہتا اور بہن میرے جسم کو گیلی ریت میں دفن کر دیتی۔ سوائے چہرے کے، پورا جسم ریت میں ڈوب جاتا۔ میں یوں ہی بے حس و حرکت پڑا رہتا۔ پھر کوئی لہر آتی اور کھارا پانی میرے جسم کو دھو کر، چومتا چاٹتا ہوا واپس سمندر میں مل جاتا۔

میں نے اب نیا اصول اپنا لیا ہے۔ کوپا کابانا کے ساحل پر جو لہروں کی طرح سفید اور سیاہ پتھروں سے بنا بغلی راستہ ہے، اس پر صرف سیاہ پتھر پر ہی قدم رکھ کر چلتا ہوں۔ اگر کبھی بے دھیانی میں، سفید پتھر پر چلتا ہوا پایا جاؤں تو شرط یہ ہے کہ وہیں سے واپس، پگڈنڈی کے پہلے سرے سے دوبارہ شروع کروں گا۔

ہر دفعہ جب دھیان جما کر اس راستے سے گزرتا ہوں تو اپنے حال میں زندہ رہتا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا میری ٹانگوں کو چھوتی ہوئی، جسم میں نئی توانائی بھر دیتی ہے۔ ہر قدم پر ہمت از سر نو بڑھ جاتی ہے۔ لیکن، ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر چلتے چلتے اچانک شرط کا خیال آتا ہے تو خود کو ماضی میں کھویا ہوا پاتا ہوں۔ سیاہ کے بجائے سفید پتھروں پر چلتا ہوا دیکھتا ہوں اور پھر وہیں پہنچ جاتا ہوں جہاں سے شروعات کی تھی۔

اسی لیے اب فون کی گھنٹی بجتی ہے تو میں اسے بجنے دیتا ہوں۔ میں جواب ہی نہیں دیتا۔ آج میں نے بندھے ہوئے سوٹ کیس صحن سے اٹھا لیے ہیں۔ ان میں بھرا سامان سلیقے سے الماریوں میں منتقل کر دیا ہے۔

ریو میں خوشی کا ایک اور تصور بھی ہے۔ وہ یہ کہ عریانی میں خوشی چھپی ہے۔ عورتیں عریاں لباس پہن کر نکلیں تو انہیں مسلسل توجہ ملتی ہے، وہ تعریف سمیٹتی رہتی ہیں۔ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اکثر مرد انہیں چھوٹے لباس میں دیکھ سیٹی بجاتے ہیں۔ کچھ تعریف کرتے ہیں اور کئی فحش گوئی سے بھی باز نہیں آتے۔

ریو کے مرد اور عورتیں، ان عادات کا بالکل برا نہیں مناتے۔ بجائے غصہ ہوں یا حقارت دکھائیں، ایک دوسرے کی طرف مسکراہٹ اچھال دیتے ہیں۔ یوں ہر کوئی خوش رہتا ہے۔

ریو میں سالانہ جشن کے تہوار، یعنی 'کارنوال' کی آمد آمد ہے۔ شہر بھر کو خوشی کا شدید دورہ پڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ چہار طرف بھرپور تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ سالگیرو کے ہال میں رنگ برنگے نغمے اور دھنیں ترتیب دی جا رہی ہیں۔ میں یہاں ایک دوست کا ساتھ دینے آیا ہوں۔ وہ نغموں کے مقابلے میں حصہ لے رہی ہے۔ اگر اس کی ترتیب دی ہوئی دھن کی جیت ہو گئی تو یہ اس برس جشن کا نغمہ قرار پائے گی۔

اس سماں میں، اس شہر کے مثال دیو سا کپڑے میں میرا وجود صرف سوت کے مہین ریشے کی مانند ہے۔ میری ہی طرح سب لوگ، یعنی خون اور گوشت کے بے شمار ریشے مل کر ایک کمبل بن جاتے ہیں جس نے اس شہر کو ڈھانپ رکھا ہے۔

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اس شہر میں بسر کرتے ہوئے، یہ ممکن ہی نہیں کہ دوسروں سے لاتعلق رہو۔ کچھ بھی ہو، کوئی بھی آدمی بوسے سے باز نہیں آتا۔

ریو میں آپ تنہا نہیں رہ سکتے بلکہ سب لوگ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔ ہر شخص اس شہر کے نظام کا ایک پرزہ ہے۔ میں نے اکثر لاتعلق رہنے کی کوشش کی ہے۔ کئی بار میں نے اس شہر کی اعلیٰ و ارفع ہوا، جسے اس شہر کا ہر باسی بے حد عزیز رکھتا ہے، جس کی بدولت خود کو دوسروں سے جوڑتا ہے، پھیپھڑوں میں بھرنے کی کوشش کی ہے مگر تقریباً ہمیشہ ہی یہ مشق بے سود ثابت ہوئی۔ میں جب بھی گہری سانس لے کر ہوا اپنے اندر بھرتا ہوں تو فوراً ہی ہول اٹھنے لگتے ہیں۔

مجھے یک دم بحر اوقیانوس کے اُس پار یورپ کے شہروں کا خیال آنے لگتا ہے جہاں ہر چیز ترتیب کی متقاضی ہے اور ہر شخص اپنی ہی دھن، دنیا بسائے بیٹھا رہتا ہے۔ یہ سوچ کر ہی خوف و ہراس طاری ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور آکسیجن اتنی کم پڑ جاتی ہے کہ ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹانگوں میں جان نکل جاتی ہے اور پھر جب جی نکلنے کے قریب ہو، سوائے اس کے کوئی حل نہیں رہا کہ میں اپنے جسم کو آزاد چھوڑ دوں۔ اس ہوا کے حوالے کر دوں جسے اس شہر کے لا تعداد لوگ اطمینان سے پھونک رہے ہیں۔

یہاں آپ علیحدہ، بٹ اور کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ جلد یا بدیر خود کو اس شہر میں پائے جانے والی نامعلوم اور دیو ہیکل کشش کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ اپنے جسم کو دوسرے لوگوں کے جسموں کے ساتھ گھل ملانا پڑتا ہے، جسم کی زبان میں بات کرنی پڑتی ہے تا کہ آپ کو وہ جسم مل جائے جو آپ کے جسم اور روح کی چاہ ہے۔

میں گھر لوٹ کر آیا تو مجھے کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ صرف یہ خیال کچوکے لگا رہا تھا کہ آخر مجھے اب شرمندگی کیوں نہیں ہوئی؟

ٹیلی فون پر تم نے بھی جانچ لیا اور کہا کہ میری آواز بدلی ہوئی ہے۔

میں نے حقیقت چھپا کر کہا، یہ نمی کا اثر ہے۔ سیلن کی وجہ سے آواز کھنکنے لگتی ہے۔

ریو کی ایک بات مجھے بہت ناپسند ہے۔ گرمیوں میں گندی نالیوں سے کاکروچ نکل آتے ہیں اور ہر جگہ دوڑتے پھرتے ہیں۔

یہ شام گئے، سات بجے کے بعد کا وقت ہوگا، میں ارپوڈار کی چٹان پر جو واحد بار ہے، اس میں بیٹھا برازیل کے مشہور کاپیرینا کے مشروب سے جی بہلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ حالانکہ شام ڈھلنے کے قریب تھی مگر گلیاں اور ساحل کی ریت ابھی تک گرمی سے تپ رہی تھیں۔

سورج چونکہ ڈوب رہا ہے، زمین پر زردی پھیل گئی تھی جبکہ سمندر شانت اور افق پر سرخی جم رہی تھی۔ آج بدھ کا دن ہے مگر پھر بھی ارپوڈار پر لوگوں کا خاصا رش لگا ہوا تھا۔ کچھ عرصہ قبل تک اسی چٹان پر کھڑے ہو کر ماہی گیر وہیل مچھلیوں کو ہارپون مار کر شکار کیا کرتے تھے۔ مگر اب یہ حال ہو گیا ہے کہ شاذ و نادر ہی کبھی کوئی وہیل مچھلی گہرے سمندر میں چھپکیاں لگاتے نظر آتی ہے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب وہیل نظر آئے تو لوگ چٹان کے کنارے کھڑے، حیرت سے اسے یوں دیکھتے ہیں جیسے کوئی عجوبہ ہو۔

ارد گرد رش ہے اور لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ فضا قہقہوں سے گونج رہی ہے۔ کئی سائیکل سوار نیچے چٹان کے پچھواڑے سے گزرتے راستے پر گھنٹیاں بجاتے گزر رہے ہیں اور بہت سے لوگ سیمنٹ کی بینچوں پر بیٹھے ناریل کے پانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

ریو میں موسم گرما کی شامیں عام سی ہوتی ہیں۔ یہاں فرسودہ قصے مشہور ہیں مگر سب سچی باتیں ہیں۔ مثال کے طور پر ریو کے باسیوں کا ماننا ہے کہ زندگی جیسی سادہ چیز کو پیچیدہ بنانا انتہائی بے کار اور بے فائدہ عمل ہے۔ اسی طرح درد اور غم پالنا وقت کا ضیاع ہے۔ ایک اور مثل یہ ہے کہ دلچسپی کا کوئی بھی سامان، بھلے روح سے خالی ہو ۔ ۔ ۔ بہر حال مزاج کے لیے سود مند ہوتا ہے۔ یہ سب کتنی واہیات مگر سچی باتیں ہیں۔

جب سورج ڈوب گیا تو میرا مشروب بھی ختم ہو گیا۔ لوگ ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھنے کے لیے چٹان پر اس طرح جمع ہیں جیسے روز محشر کے لیے اکٹھے، فیصلے کا انتظار کرتے ہوں۔ جب جلتا ہوا زرد سورج دور گویا سمندر کے پانی میں ڈوب گیا تو سب نے خواہ مخواہ خوشی سے تالیاں پیٹیں اور سیٹیاں بجائیں۔

بعض شام کے دھندلکوں میں کھڑے دعا میں مشغول ہو گئے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ میں آج تک اس چٹان پر ہر روز اس تماشے کو احمقانہ سمجھتا آیا تھا۔ آج پہلی بار، اچانک دل میں دوسروں کے ساتھ مل کر سیٹی بجا کر تالیاں پیٹنے کی تمنا پیدا ہوئی۔ اس ہجوم میں مجھ سمیت ہر شخص بے نام تھا۔ میں بھی اسی احساس میں مستغرق، خوش تھا کہ چلو عرصے بعد ایک بار پھر دل میں کچھ امنگ، خوشی اور جوش و خروش کا احساس تو پیدا ہوا.

جب یہ تماشا تمام ہوا تو لوگ بکھر گئے۔ میں نے بھی اپنے گھر کی راہ لی اور واپسی پر میں سوچتا رہا کہ شاید میرے ساتھ رہنے کے لیے تمہاری موجودگی کچھ اتنی ضروری بھی نہیں ہے۔

کئی دن گزر گئے۔ ٹیلی فون کی گھنٹی نہیں بجی۔ شاید تم اس جواب سے کیوں کترا رہی ہو جو میرے لیے نہایت سادہ اور اب بہت آسان ہو چکا ہے۔ تمہارے لیے یہ سننا بہت دشوار ہو گا، تم جانتی ہو کہ اس جواب کو سہہ نہ پاؤ گی۔

ہاں، میں نے تمہیں ایک شہر کے بدلے چھوڑ دیا ہے!

ظاہر ہے، تم اس شہر کو جلا دینا چاہو گی۔ اسی لیے اگر ریو کے خاتمے کے لیے اگر کوئی شایان شان طریقہ ہو تو میں کہوں گا، گرمیوں کے موسم میں، اتوار کے دن سونامی آ جائے۔

ایپانما اور لب لون کے ساحلوں پر لوگ دیکھیں کہ کیسے سمندر پیچھے ہٹ کر کاگرس کے جزیروں تک سمٹ گیا ہے۔ کوپاکابانا میں لوگوں کو نظر آئے کہ گوانا بارا کی خلیج نیٹوری تک سوکھ گئی ہے۔ سمندر یوں پیچھے ہٹے جیسے اپنی ہی کھال کھینچ رہا ہو۔ ساحل چند منٹوں کے لیے بیابان ہو جائیں، لہریں اپنا گھر چھوڑ جائیں۔ پھر بھرپور قوت سے سمندر لوٹ کر ایک بہت ہی بڑی موج کی صورت میں واپس آئے اور ساحل کو چیرتا ہوا شہر کو ڈبو دے۔

ہم سب پانی کی اس دیو سا موج میں بہہ جائیں اور پانی عمارتوں، جنگلوں، لوگوں اور جانوروں کو نمی سمیت نگل لے۔ شہر کے گلی کوچوں میں سمندر کا نمکین پانی بھر جائے۔ سیاہ اور سیلن زدہ کونوں میں بھی پانی بھر جائے۔ اس افتاد کے باوجود ممکن ہے کہ ریو کی پہاڑی چوٹیاں بچ جائیں۔ ارموس، کورکاواڈو، شوگر لوگ اور گاویا کی چوٹیاں پانی میں تیرتی ہوئی نظر آئیں گی۔

ریو کے باسیوں کا، مجھ جیسوں کا اتنا تو حق ہے کہ ہم جو اس محبت کی سیلن میں تر ہیں، آخری بار اس شہر کو وداعی نظروں سے دیکھ سکیں۔ ہم چاہیں گے کہ تصور میں ہی سہی، ریو ہماری آنکھوں کے سامنے سمندر میں غریق ہو جائے۔ یہ ابرک جیسا شہر، دھندلے پانیوں میں ڈوب جائے۔

یہ اس شہر کی شامت کا کیا خوب منظر ہوگا، تم رقابت سے ہمیں غرقاب دیکھو تو تباہی کا کتنا دلچسپ نظارہ ہو گا؟ مگر دیکھو، پھر کئی برس، صدیاں اور ہزاریاں گزر جائیں گی۔ سمندر پھیل کر ریو سے بہت آگے نکل جائے گا اور دور، بہت دور اسے ریت کا اتنا ذخیرہ مل ہی جائے گا، جس پر ٹیک لگا کر یہ ساحل کی لہروں میں جھاگ اڑاتا، آرام کرتا رہے گا۔

تب ریو کہاں ہوگا؟ تب ریو ایک عظیم الشان شہر کا آثار ہوا کرے گا۔ سمندر کی گہرائیوں میں گمشدہ شہر ہوگا، جہاں طرح طرح کی مچھلیوں اور موتی مونگوں کا مسکن رہا کرے گا۔

یہ تم ہو یا ریو ہو،

محبت کب مرتی ہے؟

سیلن آخر کہاں سوکھتی ہے۔

(ختم شد)

عمر بنگش

لکھاری ایک بین الاقوامی ترقیاتی تنظیم کے ساتھ بطور ریلیف ورکر وابستہ ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ان سے فیس بک پر یہاں رابطہ کریں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024