کرشن چندر، اردو ادب کے حقیقت پسند افسانہ نگار
امریکی شاعرہ مرئیل رکیسر نے کہا ہے کہ “یہ کائنات ایٹمز سے نہیں بلکہ کہانیوں سے بنی ہے”۔
کہانیاں جو صدیوں سے انسان سنتا آ رہا ہے۔ قصہ گوئی سے لے کر آج کے جدید ادب تک یہ کہانیاں ہی ہیں جو کرداروں کے ذریعے انسانی تاریخ، احساسات اور جذبات کو بیان کرتی آ رہی ہیں۔ ان تمام کہانیوں کی جڑیں انسانی سماج میں پیوست ہوتی ہیں۔ جنہیں کوئی افسانہ نگار تخلیق کر کے کبھی معاشرے میں پنپتے سوالات کا جواب دیتا ہے تو کبھی ان گنت سوال چھوڑ کر ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
برصغیر میں اردو افسانے کا ذکر دو ناموں کے سوائے ادھورا ہے۔ وہ نام ہیں کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو تو قارئین کا ایک حلقہ جنسی لذت کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے مگر وہ اپنی تحاریر میں جن نفسیاتی اور معاشرتی پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں، ان پر فکر انگیزی کی اشد ضرورت ہے۔
کرشن چندر اور منٹو نے تقسیم ہند کے درد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے اپنی کہانیوں میں جا بجا بیان بھی کیا ہے۔ کرشن چندر کی کہانیوں کے حوالے سے ایک خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی کہانیوں میں طبقاتی سوال کو اٹھاتے رہے ہیں، لہٰذا ان کے کردار، مل مزدور، کسان، نمک کی کان میں کام کرنے والے، نچلے طبقے کے لوگ اور جاگیردار رہے ہیں۔ کرشن چند کا جنم 23 نومبر 1914 کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ میں ہوا۔
کرشن چندر کا اپنا خالص اسلوب انہیں اپنے دور کے دیگر افسانہ نگاروں پر غالب کر دیتا ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے نثر میں شاعری کی ہے۔ اس کی اہم وجہ ان کے ارد گرد کا وہ ماحول بھی تھا جو انہیں بچپن سے ہی جنت نظیر وادی، کشمیر میں ملا۔ جہاں بہتے دریاؤں سے لے کر، سر سبز میدان، آبشار اور فطرت سے بھرے ایسے مناظر تھے جو ان کے افسانوں میں کسی پینٹنگ کی مانند نظر آتے ہیں۔
ان کے ہاں موضوعات کی ہمہ گیریت تھی۔ یہ موضوعات ان کے پاس ایسے تھے جیسے پھولوں پر منڈلاتی تتلیاں۔
ڈاکٹر اقبال آفاقی اپنی کتاب “اردو افسانہ” میں کرشن چندر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “کرشن چندر کے قلم میں پہاڑی ندی کا سا تیز بہاؤ ہے اور میدان میں بہنے والے دریا کا سا پھیلاؤ بھی۔ وہ دونوں کے درد پہچانتا ہے، تبھی اس نے “درد گردہ” کی نرس مس جائے جیسے شفیق اور مہربان کردار تخلیق کیے۔ کرشن چندر کے ادراک کا کینوس بہت وسیع ہے، سرینگر سے لاہور، کلکتہ اور نیچے بمبئی تک پھیلا ہوا۔
"اس کی وجہ فطری وسیع المشربی، بلند خیالی اور رواداری جیسی اقدار پر ایمان ہے۔ ان کے ہاں تکنیک کے تجربات بھی ملتے ہیں، مثلاً ان کا افسانہ “غالیچہ” ایک سورئیلی تصویر اور پھر مثبت اور منفی تکنیک کے تجربات کا قابل ذکر مثال ہے۔ وہ ہر طرح کے موضوعات اور کرداروں پر کہانیاں کسی مذہبی یا نسلی تعصب یا نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر فطری بہاؤ میں لکھتا چلا جاتا ہے”۔
اپنی کہانیوں میں حقیقت نگاری کو پیش کرنے لیے انہوں نے اپنے تخلیق کردہ کرداروں کا سہارا لیا ہے۔ جدید افسانہ نگاری میں بھی انہوں نے لوک ادب سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے بلکہ لوک ادب کے عنصر کو اپنی کہانیوں میں شامل کر کے انہیں اور بھی جاندار طریقے سے بیان کیا ہے۔ یہی ان کی ایک ایسی خاصیت ہے جو کہ انہیں باقی افسانہ نگاروں سے ممتاز بناتی ہے۔ جس کی مثالیں ہمیں “کالا سورج” اور “پانی کا درخت” میں نظر آتی ہیں۔
ویسے تو ہمارے آس پاس کئی کردار موجود ہوتے ہیں مگر انہیں کہانی کے سانچے میں ڈھالنے کا فن کرشن چندر کو بخوبی آتا ہے۔ ان کے افسانے ایک ایسا طلسم کدہ ہیں جس کے سحر کو محسوس کرنے اور اس کا حصہ بننے کو جی چاہتا ہے۔ یہ عنصر ان کی تحریر میں بیان کی گئی تشبیہات اور استعاروں میں واضح عکساں ہے۔ انہوں نے اگر کسی گاؤں کی کہانی بیان کی ہے تو اس میں تشبیہات اور استعارے بھی اسی ماحول کی مطابقت سے رکھے ہیں۔

دیہی اور شہری دونوں زندگیاں ان کے زیر مشاہدہ رہیں۔ ان کی کمال فن تحریر کا ہی یہ خاصا ہے کہ جب دیہی زندگی کی لفظوں میں عکسبندی کی تو خالص دیہی زندگی کی سوندھی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ جس کی اہم ترین مثال ان کا افسانہ “پانی کا درخت” ہے جو کہ انہوں نے نمک کے ان مزدوروں کے بارے میں لکھا ہے جن کے لیے میٹھا پانی نایاب ہو جاتا ہے۔
پانی کا درخت میں بانو چاہتے ہوئے بھی اپنے محبوب کے ساتھ نہیں رہ پاتی کیونکہ گاؤں میں میٹھا پانی دستیاب نہیں ہوتا اور وہ اس شخص سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیتی ہے جہاں میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے۔ اس افسانے میں پانی زندگی کی علامت نہیں ہے بلکہ خود ایک زندگی ہے اور اس کی عدم موجودگی موت ہے۔
“میں نے اس کے بالکل قریب آ کر اسے دونوں شانوں سے پکڑ لیا اور غور سے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ اس نے ایک لمحہ میری طرف دیکھ کر آنکھیں جھکا لیں۔اس کی نگاہوں میں میری محبت سے انکار نہیں تھا بلکہ پانی کا اقرار تھا۔ میں نے آہستہ سے اس کے شانے چھوڑ دیے اور الگ ہو کے کھڑا ہو گیا۔ یکا یک مجھے محسوس ہوا کہ محبت سچائی خلوص اور جذبے کی گہرائی کے ساتھ ساتھ تھوڑا پانی بھی مانگتی ہے۔ بانو کی جھکی ہوئی نگاہوں میں اک ایسے جانکسل شکایت کا گریز تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو: جانتے ہو ہمارے گاؤں میں کہیں پانی نہیں ملتا۔ یہاں میں دو دو مہینے نہا نہیں سکتی۔
"مجھے اپنے آپ سے اپنے جسم سے نفرت ہو گئی ہے۔ بانو چپ چپ زمین پر چشمے کے کنارے بیٹھ گئی۔ میں اس تاریکی میں بھی اس کی آنکھوں کے اندر اس کی محبت کے خواب کو دیکھ سکتا تھا جو گندے بدبو دار جسموں پسوؤں، جوؤں اور کھٹملوں کی ماری غلیظ چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی محبت نہ تھی۔ اس محبت سے نہائے ہوئے جسموں، دھلے ہوئے کپڑوں اور نئے لباس کی مہک آتی تھی۔ میں بالکل مجبور اور بے بس ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ رات کے دو بجے۔
"بانو اور میں۔ دونوں چپ چاپ کبھی ایسا سناٹا جیسے ساری دنیا کالی ہے کبھی ایسی خاموشی جیسے سارے آنسو سو گئے ہیں۔ چشمے کے کنارے بیٹھی ہوئی بانو آہستہ آہستہ گھڑے میں پانی بھرتی رہی۔ آہستہ آہستہ پانی گھڑے میں گرتا ہوا بانو سے باتیں کرتا رہا اس سے کچھ کہتا رہا، مجھ سے کچھ کہتا رہا۔ پانی کی باتیں انسان کی بہترین باتیں ہیں۔”
رومان، منظرنگاری، عشق و محبت اور المیہ، ان کے افسانون میں جابجا نظر آتے ہیں۔ “اندھا چھتر پتی” کا کردار اپنی آنکھوں کا نور اس لیے رو رو کر گنوا دیتا ہے کہ اس کی محبوبہ کا لالچی باپ اپنی بیٹی مکھنی کا رشتہ گاؤں کے نمبردار سے طے کر لیتا ہے۔ یہ کہانی بھی اسی طبقاتی فرق کو بیان کرتی ہے جو آج بھی ہمارے معاشرے میں مروج ہے۔
بٹوارے کے موضوع پر لکھا گیا ناول “غدار” بیج ناتھ کا ایک ایسا قصہ ہے جسے اچانک پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ جسے محض اس لیے غدار قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کسی کا قتل نہیں کرتا۔ اپنی حاملہ کتیا سے کہتا کہ وہ لوٹ جائے اسے انسان کچھ نہیں کریں گے کیونکہ اس کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی مسلک۔ یہ تمام معاملات انسان سے وابستہ ہیں۔ اس ناول میں انہوں اپنے لوگوں اور اپنی دھرتی سے بچھڑنے کے درد کو بیان کیا ہے۔
کرشن چندر کے تخلیق کردہ کردار ہمیشہ ظلم و بربریت کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر لکھی گئی ان کی کہانی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ منظر نگاری کو کسی بھی طرح کہانی سے الگ نہیں کرتے۔
گو کہ انہوں نے کئی فلموں کے لیے بھی مکالمے لکھے مگر ان کی حقیقی پہچان افسانوں کی کتابیں اور ناول ہیں۔ جن کی تعداد لگ بھگ پچاس ہے۔ ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘، ’شکست’ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کافی مقبول ہوئے۔
کرشن چندر کو ترقی پسند ادیب کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے افسانوں میں اس نکتے کو بارہا بیان کیا ہے۔ اپنے طویل مکالموں کی وجہ سے اردو ادب میں ان کی ایک الگ شناخت ہے۔ مگر ان کے مکالمے محض طویل ہی نہیں ہیں بلکہ زندگی سے بھرپور بھی ہیں۔ جو ہمیں زندگی کے اور بھی قریب لے آتے ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں