پاکستان کرکٹ کے نوجوان ستارے
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا دوسرا ایڈیشن جس طرح مکمل ہوا ہے اس سے قومی سلیکٹرز خاصے مطمئن ہوں گے۔ پوری دنیا میں فرنچائز کی بیناد پر ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں نئے جوہر نایاب دریافت ہوتے ہیں اور پی ایس ایل بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔
2016 کے پہلے ایڈیشن میں دائیں ہاتھ کے تیز باؤلر حسن علی سامنے آئے جو بتدریج پاکستان کی ایک روزہ ٹیم کا حصہ بن رہے ہیں۔
بابر اعظم دوسرے نوجوان ہیں جو افتتاحی ایونٹ سے ابھرے، وہ بلاشبہ بیٹنگ کے چمکتے ستارے ہیں جیسے چیف سلیکٹرانضمام الحق سالوں پہلے آئے تھے۔ تیسرا لڑکا جس نے ایک سال قبل منزل کو چھوا وہ محمد اصغر ہے۔ بائیں ہاتھ کے اسپنر نے تاحال بین الاقوامی کرکٹ کا مزہ نہیں چکھا لیکن وہ اس کے بہت قریب ہیں۔ انہیں آخری مرتبہ متبادل کے طور پر آسٹریلیا بھیج دیا گیا تھا لیکن پاکستان کی نمائندگی کا کوئی موقع حاصل نہیں کرپائے تھے۔ وہ بڑے پیمانے پر نظر انداز کیے گئے صوبہ بلوچستان کے پہلے ٹیسٹ کھلاڑی بن کر تاریخ رقم کرنے کو تیار ہیں۔
بہرحال اس مرتبہ پھر پی ایس ایل میں نوجوان کھلاڑی توقعات پر پورے اترے ہیں۔ تمام پانچوں فرنچائز کم ازکم ایک نہایت باصلاحیت کھلاڑی کو متعارف کرانے میں کامیاب رہیں لیکن چھ نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے پاکستانی عوام کو خشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔
پی ایس ایل کے پہلے سیزن کی طرح پی ایس ایل 2 نے 'ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں' کی اپنی کھیپ دی ہے جنھوں نے متاثر کیا اور قومی ٹیم کی نمائندگی کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔
روشن ترین مثال 18 سالہ نوجوانوں شاداب خان اور حسان کی جوڑی ہے جو محض ایک سال قبل پاکستان کی نوجوان ٹیم کے ساتھی تھے جو بنگلہ دیش میں آئی سی سی انڈر 19 ورلڈکپ کے چوتھے مرحلے میں پہنچی تھی۔ شاداب اور حسان ایک دوسرے سے مشابہت نہیں رکھتے لیکن وہ اعتماد کے حامل ہیں۔ ایک لیگ اسپنر ہے اور دوسرا بائیں ہاتھ کا مکمل اسپنر ہے۔ دونوں بہترین آل راؤنڈر بننے کے حامل کرکٹر ہیں جن پر پاکستان آنے والے برسوں میں فخر کرسکتا ہے۔
کراچی کنگز نے عثمان خان شنواری اور اسامہ میر جیسے دو نوجوانوں کو واقعتاً تیار کیا ہے جو میرٹ کے لحاظ سے اچھا کرچکے ہیں۔ یہی بات لاہور قلندرز کے دونوں کھلاڑیوں فخرزمان اور پرجوش محمد عرفان جونیئر کے لیے بھی درست ثابت ہوتی ہے۔ محمد عرفان کے نام پر اسلام آباد یونائیٹڈ کے دراز قامت بین الاقوامی کرکٹ کے ستارے سے مغالطے کا شکار نہ ہوں۔
ایک قابل فخر نشاندہی اسلام آباد یونائیٹڈ کے 20 سالہ بلے باز حسین طلعت کی بھی ہے حالانکہ انہیں ٹورنامنٹ کے آغاز سے موقع نہیں دیا گیا اور وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف اپنے ڈیبیو میچ میں شاندار 56 رنز بنا کر عالمی افق پر ابھر کر سامنے آئے۔ اس اننگز کا کمنٹیٹرز ایلن ویلکنز اور ای این بشپ نے کمار سنگاکارا کی اننگز سے موازنہ کیا۔ طلعت 16 سال کی عمر سے کرکٹ کھیل رہے ہیں اور اکتوبر 2013 میں اپنی 17 ویں سالگرہ سے دو ماہ قبل فرسٹ کلاس کرکٹ میں ڈیبیو کیا اور اسی سال کے اواخر میں ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی طرز میں قومی سطح پر بھی اپنی کارکردگی کے جوہر دکھائے۔ پی ایس ایل کا تیسرا سیزن ان کے لیے سنگ میل ہوسکتا ہے۔
یہاں پر ہم رواں سال ابھر کرسامنے آنے والے 6 سپر ٹیلنٹس کا تعارف کرواتے ہیں۔
شاداب خان
عمر: 18 سال
ٹیم:اسلام آباد یونائیٹڈ
اکتوبر 1998 میں پیدا ہونے والے شاداب خان کی بنیادیں عمران خان اور مصباح الحق کے شہر میانوالی سے جڑتی ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش سے واپسی کے بعد انڈر19 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ محمد مسرور کی ٹیلنٹ بھانپ لینے والی نظر کے زیر سایہ انہوں نے بڑی ترقی کی اور ساتھ ساتھ صبیح حسن نے بھی ان کی رہنمائی کی جو اپنے آبائی قصبے راولپنڈی میں کئی اوربچوں کی تربیت کررہے ہیں۔
پی ایس ایل میں ہمارے اپنے تبصرہ نگاروں رمیز راجہ اور بازید خان کے ساتھ کمنٹری کے فرائض انجام دینے والے غیر ملکی ای این بشپ، ڈینی موریسن، ایلن ویلکنز اور میل جونز بھی اسلام آباد کے نوجوان کھلاڑی کی بھرپور تعریف کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان تمام نے ویسٹ انڈیز کے دورے کے لیے انہیں بھی ساتھ رکھنے کا مشورہ دیا ہے جو اسی مہینے شروع ہوگا۔ ان سب کی مجموعی اور غیرجانب دار پیش گوئی کے مطابق شاداب کے تابناک مستقبل پر کوئی شک نہیں ہے لیکن بدستور تحمل مزاجی اور محنت شرط ہے۔
شاداب خان کی کرکٹ میں مہارت بلے بازوں کو اپنی گیند کی رفتار میں تبدیلی سے بدحواس کرنے سے لیس ہے جس سے وہ مالا مال ہیں۔ ان کی بہترین لیگ اسپن اور گوگلی میں غیرمعمولی کنٹرول بطور نوجوان حیران کن ہے۔ لیگ کے راؤنڈ میچوں میں بابر اعظم ان کی گیند مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہے تھے اور گیند سیدھی جا کر وکٹوں کو اڑالے گئی تھی!
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شاداب خان کے کوٹے میں فرسٹ کلاس سطح پر ایک سنچری بھی ہے،انھوں نے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز رواں ڈومیسٹک سیزن سے کیا تھا اور صرف چار میچوں کا تجربہ ہے۔ اس پی ایس ایل میں ان کی بہترین کارکردگی کچھ اس طرح سامنے آئی، لاہور قلندرز کے خلاف شارجہ میں 23 گیندوں پر 42 رنز اور کراچی کنگز کے خلاف گزشتہ اتوار کو دبئی میں 13 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کیں اور دونوں میچوں کا خاتمہ شکست پر ہوا تھا۔ مزید اضافہ کریں تو نوجوان کی ڈیپ مڈ وکٹ پر برق رفتار فیلڈنگ بھی نمایاں ہے جہاں انھوں نے کئی بڑی غلطیوں کو گرفت میں لیتے ہوئے اپنے کپتان کو خوش کردیا۔
حسان خان
عمر: 18
ٹیم:کوئٹہ گلیڈی ایٹرز
اگر شاداب خان کو 'پی ایس ایل 2017 کا انتخاب' کہا جارہا ہے تو حسان خان اسی صف میں ایک اور حیران کن اضافہ ہیں۔ شاداب سے صرف 14 روز بڑے حسان خان نے ایک منفرد کھلاڑی ہونے کا تاثر دیا ہے۔ کراچی سے پی ایس ایل میں نمایاں ہونے والے کھلاڑی کے کیرئیر میں چند لسٹ اے (ایک روزہ)میچ ہیں جن کی مجموعی تعداد چھ ہے مگر ان میں سے کسی بھی میچ میں کارکردگی ان کی صلاحیتوں کے شایان شان نہیں۔ لیکن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بڑے دماغ ندیم عمر اور عقابی آنکھوں کے مالک کپتان سرفراز نے ان میں وہ صلاحیت دیکھی جو کسی اور کے پاس نہیں ہے۔
او-لیول کے طالب علم حسان خان ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو تعلیم کو کرکٹ پر مقدم رکھنے پر زور دیتا ہے اسی طرح جیسے ہم نے ہر دوسرے کرکٹر کی کہانی کے بارے میں سن رکھا ہے۔ نصراللہ خان کرکٹ سے اتنا ہی زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں جتنا کوئی اور باپ رکھتا ہے لیکن انھوں نے اپنے تینوں بیٹوں میں سب چھوٹے پر یہ واضح کردیا ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کی زندگی ایک مخصوص وقت پر اختتام کو پہنچتی ہے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ حسان کوئی معمولی کرکٹر نہیں ہیں۔
بطخ کے بچے کے پانی کے سفر کی طرح حسان خان نے دبئی میں ڈیبیو کیا جس کو وہ کبھی نہیں بھلا پائیں گے جب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو لاہور کے خلاف 136 رنز کا دفاع کرنا تھا۔ آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 16 گیندوں پر 11 رنز کے ساتھ آغاز کیا اور جب آٹھویں اوورز کے ابتدا میں ہی انھیں گیند تھما دی گئی تو حسان نے پہلی ہی گیند پر محمد رضوان کو قابو کرتے ہوئے پہلی کامیابی حاصل کی۔ چونکا دینے والے آغاز کا یہ اختتام نہیں تھا اور حسان بڑے اسٹیج پر صفائی سے کیچ تھام کر کوئٹہ کو مکمل طور پر میچ میں واپس لے آیا، 16 رنز کے عوض 2 وکٹیں اور مشکل وقت میں اچھی بیٹنگ نے جیوری کو حسان خان کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دینے پر مجبور کردیا۔
حسان خان نے پلے آف کے شروع ہونے سے قبل شاداب خان کے 8 وکٹوں سے ایک کم یعنی 7 وکٹیں حاصل کیں اور دونوں نے اپنی ٹیموں کی جانب سے تمام آٹھ میچ کھیلے لیکن 6.15 کی اکانومی کے ساتھ وہ ان باؤلرز میں چوتھے نمبر پر رہے جنھوں نے پی ایس ایل میں 20 اوورز کیے۔
شاداب خان اپنی گیند کی رفتار میں تبدیلی سے بلے بازوں کو بدحواس کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ان کی بہترین لیگ اسپن اور گوگلی میں غیرمعمولی کنٹرول بطور نوجوان حیران کن ہے۔
شاداب کی طرح حسان بھی فیلڈنگ میں چیتے کی طرح پھرتیلے ہیں۔ ان میں کہیں ایتھلیٹکس کا رنگ بھی ہوگا اور یہ فیلڈنگ کے عظیم کھلاڑی جونٹی رہوڈز کی لڑکوں پر محنت کا قابل فخر نتیجہ بھی ہوگا۔ لاہورقلندرز کے خلاف بڑے اسکور کے مقابلے میں جہاں کوئٹہ نے 201 رنز کے ہدف کو عبور کیا تھا وہاں حسان نے جادوئی لمحات بنائے تھے جب انھوں نے اڑتے ہوئے ایک یقینی چھکے کو نہ صرف روکا بلکہ چار قیمتی رنز بھی بچا لیے تھے۔
اسامہ میر
عمر: 21 سال
ٹیم: کراچی کنگز
اسامہ میر نے پی ایس ایل کے پہلے سیزن کے میچوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا لیکن سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ لیگ اسپنر نے اس مرتبہ کراچی کنگز کی دوبارہ ایونٹ واپسی میں انتہائی مددگار رہے۔ گیند کو زیادہ گھمانے اور گوگلی کرنے کی کی صلاحیت رکھنے والے کھلاڑی نے پی ایس ایل کے پہلے مرحلے میں 9 وکٹیں حاصل کیں۔
اسامہ کا موازنہ پاکستان کے مستقل لیگ اسپنر یاسر شاہ سے کیا گیا اور وہ ہمیں انیل کمبلے کی یاد دلاتے ہیں کیونکہ اسامہ انڈیا کے سابق لیگ اسپنر ک طرح درازقامت ہیں لیکن اسامہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے جب بلے باز ان کو گرفت میں لیتا ہے تو وہ اپنی صلاحیت کھو دیتے ہیں اور پی ایس ایل میں کئی ایسے مواقع آئے جس سے اس دعویٰ کو تقویت ملتی ہے۔
عثمان شنواری
عمر:19 سال
ٹیم: کراچی کنگز
عثمان شنواری کو مستقبل کے حوالے سے بہترین کھلاڑی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ خیبرایجنسی سے تعلق رکھنے والے بائیں ہاتھ کے 19 سالہ اسپیڈ اسٹار کو دسمبر 2013 میں دبئی میں سری لنکا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ میں 30 گیندوں پر 61 رنز دینے کی پاداش میں ٹیم سے باہر کردیا گیا تھا۔
پی ایس ایل میں عثمان نے چھ میچوں میں اتنے ہی شکار کر کے ثابت کیا کہ تیز رفتار سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کراچی کنگز اور قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر باقاعدہ اس نوجوان باؤلر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں تاکہ جتنا ہوسکے پاکستانی باؤلنگ اٹیک کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔
فخر زمان
عمر: 26 سال
ٹیم: لاہور قلندرز
عظیم بلے باز یونس خان کی طرح مردان سے تعلق رکھنے والے بائیں ہاتھ کے فخر زمان ان چند نئے کھلاڑیوں میں سے ہیں جنھوں نے پی ایس ایل میں اپنے کچھ اثرات ضرور چھوڑے ہیں۔ وہ لاہور قلندرز کی لیگ سے اخراج سے قبل کی مہم میں بینڈن مک کولم اور عمر اکمل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سرفہرست رنز بنانے والے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے تمام آٹھ میچوں میں حصہ لیتے ہوئے 138.22 کی اسٹرائیک ریٹ سے 177 رنز بنائے۔ قومی ٹیم کے ویسٹ انڈیز کےدورے میں شرجیل خان اور خالد لطیف کی غیرموجودگی میں نظریں ان پر جم سکتی ہیں۔
محمد عرفان جونئیر
عمر:21 سال
ٹیم: لاہور قلندرز
ڈومیسٹک کرکٹ کے گزشتہ سیزن میں کم ازکم محمد عرفان کے نام سے آٹھ کھلاڑی نہ ختم ہونے والے ابہام کے ساتھ نظر آئے اور اس وقت پر حیرانی پھیل گئی کہ کس عرفان نے حقیقتاً سرخیوں میں جگہ بنائی ہے لیکن یہاں پر زیربحث عرفان وہ ہیں جو کچھ کرنے والے ہیں۔
سہیل تنویر کے ایکشن سے مشابہہ دائیں ہاتھ کے اس باؤلر کے بارے میں مختصراً یہ کہا جائے کہ ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والے عرفان بجا طورپر کارآمد ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ 21 سالہ باؤلر جس نے پی ایس ایل کے سات میچوں میں سات وکٹیں حاصل کیں، انھیں سب سے پہلے پاکستانی ٹیم کےسابق فاسٹ باؤلر عاقب جاوید نے گزشتہ سال لاہور قلندرز کے ٹیلنٹ ہنٹ کے دوران منتخب کیا تھا گوکہ انھوں نے 13 فرسٹ کلاس میچوں میں 52 وکٹیں حاصل کی ہیں۔
ان کے باؤلنگ کا عجیب ایکشن ہمیں کولن کرافٹ کی یاد تازہ کردیتا ہے جو 1980 کی دہائی میں کھلی چھاتی کے ایکشن کے ساتھ ویسٹ انڈیز کے بہترین فاسٹ باؤلرز میں سے تھے۔ عرفان کا ابھر کر آنا پاکستان کے لیے اچھی علامت ہے اگر اور کچھ نہ ہو تو!