• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
شائع March 12, 2017 اپ ڈیٹ March 14, 2017

مانسہرہ کے تاریخی شہر میں ایک دن

دانیال شاہ

مانسہرہ میونسپل لائبریری کی عمارت کا خوشنما بیرونی منظر —دانیال شاہ
مانسہرہ میونسپل لائبریری کی عمارت کا خوشنما بیرونی منظر —دانیال شاہ

یہ دیکھ کر مجھ میں تجسس پیدا ہو جاتا ہے کہ کس طرح چند تاریخی اور سیاسی واقعات عمارتوں کا سماجی کردار بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہی باتوں کو اپنے ذہن میں بٹھائے میں قراقرم ہائی وے کے سفر پر نکل پڑا اور میری پہلی منزل اسلام آباد کے شمال میں 160 کلومیٹر دوری پر مانسہرہ تھی۔

ہزارہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور میرے دوست فہیم اعوان مانسہرہ میں میرے میزبان تھے۔ میں نے اس شہر میں موجود تیسری صدی کے اشوکا دور کے آثار قدیمہ کے مقامات کو قریب سے جاننے کا ارادہ کیا، مگر فہیم نے مجھے شہر میں موجود سکھوں کے تاریخی ورثے کی عمارتوں میں سے ایک سب سے نمایاں عمارت کو دیکھنے پر قائل کر لیا۔

مانہسرہ شہر دو ہائی وے، این-35 (قراقرم ہائی وے) اور این-15، کو ملانے والے مقام پر واقع ہے؛ دونوں سڑکیں ملک کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے داخلی راستے ہیں۔ 19 ویں صدی کی ابتدا میں سکھ فوجی چھاؤنی کا شہر رہنے والے مانسہرہ کی آبادیاتی تبدیلی 1947 میں تقسیم ہند کے بعد اس وقت رونما ہوئی جب ہزاروں سکھ خاندان ہندوستان ہجرت کر گئے تھے۔ وہ اپنے پیچھے تاریخی عمارتیں اور اپنے ثقافتی ورثے کے مقامات کو مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھما کر چھوڑ گئے جنہوں نے مارکیٹوں، گھروں، زمینوں اور عبادت گاہوں جیسی جگہوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

جب فہیم گاڑی میں مجھے تنگ اور لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ بدنظم ٹریفک والی سڑکوں پر گاڑی پر لے جا رہے تھے تب دن تو سرد تھا مگر دھوپ بھی کھلی تھی۔ ہماری منزل وہ عمارت تھی جو 1937 میں ایک گردوارے کے طور پر تعمیر ہوئی تھی، اب اسے ایک پبلک لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو مانسہرہ میونسپل لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔

مرکزی کشمیر شارع پر کشمیر مارکیٹ کے چھوٹی دکانوں کے بیچ ایک تین منزلہ عمارت کھڑی ہے۔

ایک شخص لائبریری کے  داخلی راستے پر بیٹھا ہے۔ دونوں اطراف سکھوں کا مذہبی نشان، کھندا بھی دیکھا جا سکتا ہے—دانیال شاہ
ایک شخص لائبریری کے داخلی راستے پر بیٹھا ہے۔ دونوں اطراف سکھوں کا مذہبی نشان، کھندا بھی دیکھا جا سکتا ہے—دانیال شاہ

عمارت کو باہر سے دیکھیں تو تو عمارت کی سب سے اوپری منزل چھوٹی مثلثی محرابوں والی بالکونیوں سے سجی ہوئی ہے۔ جبکہ پہلی منزل لکڑیوں کی تین کھڑکیاں سے ڈھکی ہوئی ہے جبکہ گراؤنڈ منزل کو دیکھیں تو ماربل جعلیاں ہیں جن میں چار کھندا کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ کھندا سکھوں کا ایک مذہبی نشان ہے جس میں تین ہتھیار اور ایک دائرہ بنا ہوتا ہے۔ درمیان میں لکڑی کا داخلی دروازہ ہے اور اس کے اوپر انگلش، اردو اور گرمکھی رسم الخط میں پنجابی میں لکھا ہوا ہے، "گردوارہ سری گرو سنگھ سبھا"۔

لائبریری کی سیلنگ پر سکھوں کی روایتی کہانیاں، نقش و نگار میں نظر آتی ہیں— تصویر دانیال شاہ
لائبریری کی سیلنگ پر سکھوں کی روایتی کہانیاں، نقش و نگار میں نظر آتی ہیں— تصویر دانیال شاہ

لائبریری میں داخل ہونے پر پھولوں نما ڈیزائن کے سفید اور سیاہ ٹائلز کے فرش سے آراستہ ایک وسیع ہال آتا ہے۔ لائبریری کا اندرونی حصہ دیکھیں تو دیواروں پر موجود پلستر کے پھولوں کی طرز کے نقوش نظر آئیں گے اور سیلنگ پر جو نظر ڈالیں تو نقوش میں ظاہر سکھوں کی روایتی داستانیں نظر آتی ہیں۔ تینوں اطراف بک شیلف ہیں، اخباری مطالعے کی میزیں کونوں میں رکھی ہوئی ہیں اور کتب بینی کی میزیں عمارت کے مغربی سمت میں ہیں۔

ایک شخص ’اخباری شیلف’ کے پاس سے گزر رہا ہے — دانیال شاہ
ایک شخص ’اخباری شیلف’ کے پاس سے گزر رہا ہے — دانیال شاہ

شہر کے مقامی افراد اخباروں کا مطالعہ کر رہے ہیں جبکہ چند طلبہ ایک کونے میں علم کی پیاس بجھا رہے ہیں۔ باہر موجود مارکیٹ اور ٹریفک کے شور شرابے سے بالکل بر عکس لائبریری کے اندر ایک گہری خاموشی طاری ہے۔

فہیم میرا تعارف قریب 50 سالہ، اسسٹنٹ لائبریرین نثار احمد سے کرواتے ہیں، جن کی بڑی داڑھی ہے، سبز قمیض شلوار زیب تن ہے اور سر پر ٹوپی ہے۔ احمد کے مطابق لائبریری میں فلسفے سے افسانے اور ادب جیسی مختلف اصناف سے جڑے موضوعات پر 10 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں اور 14 مختلف اخبارات دستیاب ہوتی ہیں۔ لائبریری ہفتے کے چھے دن صبح 8 بجے سے رات 8 بجے تک کھلی رہتی ہے جبکہ جمعے کے دن بند ہوتی ہے۔ عام عوام کے لیے ماہانہ ممبرشپ فیس 20 روپے جبکہ طلبہ کے لیے 10 روپے مختص ہے۔

لائبریری کی تصاویر کھینچنے اور ڈاکومینٹنگ کے بعد میں، شور آلود و مصروف مانسہرہ کے درمیان واقع اس خلوت یا تنہائی بخش پناہ گاہ سے باہر قدم رکھ دیتا ہوں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون 5 مارچ 2017 کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔


دانیال شاہ ڈاکیومنٹری فوٹوگرافر ہیں جنہیں بشریات میں دلچسپی ہے۔ وہ ٹریکنگ، کوہ پیمائی، غوطہ خوری اور چائے کے دلدادہ ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں.

دانیال شاہ

دانیال شاہ ڈاکیومنٹری فوٹوگرافر ہیں جنہیں بشریات میں دلچسپی ہے۔ وہ ٹریکنگ، کوہ پیمائی، غوطہ خوری اور چائے کے دلدادہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Danialshah_@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

سید مہتاب شاہ جی Mar 13, 2017 03:33pm
ماشااللہ سے ایک خوبصورت مضمون کے ساتھ ساتھ خوبصورت فوٹوگرافرکی دلکش بشریات دیکھنے کوملی ہیں ،بہت کچھ علم میں اضافہ ھوا،اللہ کرے ذورقلم اورذوق بشریات مزید زیادہ،آمین
سید آصف جلال Mar 13, 2017 04:35pm
مانسہرہ میرا آبائی ضلع ہے ۔۔ اس ضلع کے متعلق بہت کم لکھا گیا ۔۔ دانیال شاہ کی عمدہ کاوش کو سلام
جاوید شیخ Mar 13, 2017 07:19pm
گردوارہ کو لائبریری میں تبدیل کردیا گیا۔ جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ میری گزارش ہے کہ اس تاریخی ورثہ کو اس کے اصلی اور حقیقی حیثیت میں بحال کیا جائے۔