یورپی نشاۃِ ثانیہ کے اولين مصور جاٹو ڈی بونڈون
یہ قرونِ وسطیٰ میں یورپی مصوری پر سلسلے کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھیں۔
یورپ میں فنون لطیفہ کی تاریخ کا ذکر جارجیو وساری (Georgio Vasari) کی 16 ویں صدی میں چھپنے والی کتاب "چیمابوئے سے لے کر آج تک کے عظیم مصور، مجسمہ ساز اور ماہر فن تعمیر" کے ذکر کے بغیر ناممکن ہے۔
وساری، مائیکل اینجلو کا ہم عصر، مصور اور ماہر فنِ تعمیر تھا مگر آج ان کی وجہِ شہرت یورپی اور بالخصوص اطالوی نشاۃِ ثانیہ دور کے فنکاروں پر لکھی گئی ان کی کتاب ہے۔
گو کہ بعض محققین کے مطابق اس کتاب میں کئی مقامات پر مبالغہ آرائی اور غیر مستند معلومات دی گئی ہیں مگر اس کے باوجود یہ کتاب قرونِ وسطی (Medieval Ages) اور ابتدائی نشاۃِ ثانیہ دور کے مصورین کی زندگی اور ان کے کام کے متعلق آگاہی حاصل کرنے کا شاید واحد ذریعہ ہے۔
اس مضمون میں جن مصورین کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے فن کے حوالے سے جو کتب تحریر کی گئیں، ان کا اولین ذریعہ معلومات، جارجیو وساری کی اوپر پیش کردہ کتاب ہے.
اس مضمون میں جس مصور کے کام کو زیرغور لایا گیا ہے، ان کے بارے میں محققین کی متفقہ رائے ہے کہ یورپ میں فنِ مصوری میں جدیدیت، تبدیلی اور احیاء کا آغاز اس مصور نے کیا۔ اس مصور کو یورپی نشاۃِ ثانیہ کا بانی مصور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس مصور کا نام جاٹو ڈی بونڈون (Giotto Di Bondone) ہے اور ان کا تعلق فلورنس کی درسگاہ مصوری سے تھا۔
جاٹو کی ابتدائی زندگی اور پیشہ وارانہ زندگی کے بارے میں ہماری معلومات انتہائی محدود ہے اور بیشتر معلومات کا ذریعہ جارجیو وساری کی کتاب ہے۔ موجودہ دور میں محققین نے مختلف عجائب گھروں، آرٹ گیلری اور کلیساؤں میں موجود جاٹو کی نقاشی کے نمونوں پر تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جیسے ادب میں دانتے اور مجسمہ سازی میں پیسانو نے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کچھ منفرد کیا ٹھیک اسی طرح جاٹو نے اپنے ہم عصر اور بعد میں آنے والوں کو فن مصوری میں حقیقت پسندی اور فطرت سے قریب تر مصوری کی اہمیت سے روشناس کروایا.
جارجیو وساری کے مطابق جاٹو ایک چرواہے کا بیٹا تھا، اور قرونِ وسطیٰ میں فن مصوری کے ایک بڑے نام چیمابوئے (Cimabue) نے جاٹو کو مٹی پر بھیڑوں کی تصویر بناتے دیکھا، وہ ان سے اس قدر متاثر ہوا کہ جاٹو کو اپنے ہنرخانے میں جگہ دی اور اپنے زیرِ سایہ تربیت دینے کا اہتمام کیا۔ جلد ہی جاٹو نے چیمابوئے کے ساتھ کلیساؤں میں دیوار گری کرنا شروع کر دی۔
ان کے منفرد انداز کو خوب پذیرائی ملی، یہاں تک کہ مشہور اطالوی شاعر اور "ڈیوائن کامیڈی" کے مصنف دانتے (Dante) جو کہ جاٹو کا ہم عصر بھی تھے، نے کہا کہ "چیمابوئے کی شہرت پر بادل چھا رہے ہیں، اور اب جاٹو ہے کہ جسے پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔"
تاریخ مصوری میں نشاۃ ثانیہ کے آغاز سے پہلے کے دور کو قرون وسطیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دور کی مصوری بازنطینی (Byzantine) انداز سے متاثر تھی۔ اس انداز کے مطابق نقاشی کا مقصد کسی مذہبی واقعے کا اظہار اور خدا کی خوشنودی اور تکریم تھا۔
نقاشی میں چہرے پر تاثرات اور ظاہری خدوخال کی حیثیت ثانوی تھی۔ بازنطینی مصوری اس گہرائی سے عاری تھی جو کہ کسی بھی نقش کو اصل زندگی سے قریب کرتی ہے۔ تکنیکی اصطلاح میں اسے پرسپیکٹو (perspective) کہتے ہیں، اس سے مراد وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت مصوری میں تین جہتی (تھری ڈی) اشیاء کو دو جہتی (ٹو ڈی) انداز میں اس طرح پیش کیا جاتا کہ دیکھنے پر گہرائی اور وسعت کا احساس ہو۔
اس باریک مگر اہم فرق کو جاننے کے لیے آپ اس بلاگ میں پیش کردہ مصوری کے (13 ویں صدی میں تخلیق کردہ) نمونوں کا موازنہ اسی سلسلے کے پہلے بلاگ میں پیش کی گئی (16 ویں صدی میں تخلیق کردہ) پینٹنگز سے کریں، تو پائیں گے کہ پرسپیکٹو، رنگ و روشنی کے زبردست استعمال نے انہیں حقیقت سے قریب تر کر دیا ہے۔
جاٹو نے اپنی مصوری میں پرسپیکٹو کی تکنیک کا بخوبی استعمال کیا اور روایتی انداز سے ہٹ کر اپنی مصوری میں افراد اور آس پاس کے ماحول پر خاص توجہ دی اور ان کو مرکز نگاہ بنا کر پیش کیا۔ انسانی چہرے پر جذبات اور احساسات کو پیش کیا جس نے جاٹو کی مصوری کو حقیقی زندگی سے قریب تر کیا۔
جاٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے یورپی مصوری کا ناطہ مشرق سے توڑا (یہاں مشرق سے مراد بازنطینی سلطنت ہے جس کو مشرقی رومی سلطنت بھی کہتے ہیں، اس سلطنت کا صدر مقام قسطنطنیہ موجودہ دور کا استنبول تھا) اور ایک ایسا اندازِ مصوری اپنایا جو مغرب کی پہچان بنا۔ دانتے نے جاٹو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'جاٹو نے مصوری کو زبان دی'۔
جاٹو کے انداز مصوری اور اس دور کے رائج اصولوں کے مطابق کی جانے والی مصوری کے فرق کو جاننے کے لیے ذیل میں جاٹو اور، اس کے استاد چیمابوئے اور سیینا (Siena) کی درسگاہ مصوری سے تعلق رکھنے والے بازنطینی انداز کے ماہر مصور، ڈوچیو (Duccio) کی ایک ہی موضوع پر کی گئی نقاشی کا تقابلی جائزہ کیا گیا ہے۔
اس نقاشی کا موضوع 'میڈونا اور بچہ' ہے، عیسائیت میں میڈونا، بی بی مریم علیہ السلام اور بچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ایسا موضوع ہے کہ جسے تقریباً تمام اطالوی اور بہت سے یورپی مصورین نے اپنے فن کے اظہار کا موضوع بنایا چیمابوئے اور ڈوچیو کی نقاشی بازنطینی انداز کے عین مطابق ہے، جبکہ جاٹو کی نقاشی قدرے مختلف ہے۔
چیمابوئے اپنے دور کا عظیم مصور تھا اور اور بازنطینی انداز مصوری کا ماہر تھا۔ اوپر پیش کی گئی نقاشی میں مریم علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور فرشتوں کو دکھایا گیا ہے۔ نقاشی کے ذیلی حصے میں انبیاء کرام کو دکھایا گیا ہے جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اس نقش کو دیکھنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے چپٹے کاغذ پر رنگ بھرے ہوں، افراد ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر کیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
چیمابوئے اور جاٹو کا تعلق فلورنس کی درسگاہ مصوری سے تھا جبکہ ڈوچیو کا تعلق سیینا (Siena) سے تھا۔ سیینا میں بازنطینی انداز مصوری دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ مقبول تھا اور یہاں کے مصورین نے آنے والی صدیوں میں اس انداز کو زندہ رکھا۔
ڈوچیو کی نقاشی میں میڈونا کے بیٹھنے کا انداز اور پس منظر میں قالین کی شکنیں اسے چیمابوئے کے نقش سے کسی حد تک زیادہ گہرائی بخشتی ہیں، مگر چیمابوئے کی طرح یہاں بھی دائیں اور بائیں جانب ظاہر کردہ فرشتے ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہوئے معلوم ہوتے۔
چیمابوئے اور ڈوچیو کے برعکس جاٹو کی نقش کردہ 'میڈونا اور بچہ' میں چہرے کہ تاثرات نہ صرف بازنطینی انداز سے یکسر مختلف ہیں بلکہ یہ زندگی سے بھرپور اور جاذب نظر آتے ہیں۔ دائیں اور بائیں جانب موجود لوگوں کے چہرہ دوسرے سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔
انسانی وجود کو پیش کرنے کا طریقہ کار، میڈونا کے بیٹھنے کا انداز اور دو فرشتوں کی آگے کی جانب پوزیشن نقش کے تین جہتی ہونے کا گمان دیتا ہے۔ جاٹو کی نقاشی میں یہ احساس نہیں ہوتا کہ افراد ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہیں بلکہ سب مختلف جگہوں پر کھڑے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔
چیمابوئے اور ڈوچیو کی نقاشی میں مماثلت، اس خیال کو تقویت بخشتی ہے کہ ان مصورین نے کسی خاص قاعدے اور قانون کے تحت نقاشی کی ہے۔ اس بات میں کافی حد تک حقیقت ہے کہ دور نشاۃ ثانیہ سے قبل، مصورین اپنا جداگانہ انداز اپنانے کے بجائے اپنے ہنر کدے میں وضع کردہ اصول کے مطابق مصوری کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بیشتر مصور کلیساؤں کے لیے کام کیا کرتے تھے اور مذہبی واقعات و اشخاص کی توہین کے ڈر سے کچھ مختلف کرنے سے گھبراتے تھے۔
جاٹو کے ہم عصر اور اس کے کام سے متاثر مصور، برنارڈو ڈاڈی (Bernardo Daddi) کے کام کا جاٹو کے ساتھ موازنہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جاٹو کے شاگرد تھے۔ اس کے ساتھ سیینا سے تعلق رکھنے والے ایک مصور، سیمیونی مارٹینی (Simone Martini) جو کہ ڈوچیو کے کام سے متاثر تھے کہ کام کو تقابلی جائزہ کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس دور میں سیینا اور فلورنس دو الگ ریاستیں تھیں اور دونوں جگہوں پر انداز مصوری میں فرق تھا۔
یہ نقش جاٹو کی موت سے کچھ عرصہ پہلے کا ہے۔ رنگوں کا انتخاب اور ان کا استعمال اس نقش کا خاصہ ہے۔ جبریل، میکال، پیٹر اور پال کا جسمانی تناسب حقیقی انسانوں سا لگتا ہے اور ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ان کی جسمانی ساخت غیر معمولی ہے۔ اس کے برعکس آپ اس سے پہلے پیش کی گئی چیمابوئے اور ڈوچیو کی بنائی ہوئی 'میڈونا اوربچہ' میں دیکھ سکتے ہیں کہ مریم علیہ السلام کی انگلیاں غیرمعمولی طور پر لمبی ہیں۔ ان معمولی تفریقات کی وجہ سے بازنطینی مصوری غیر طبیعی معلوم ہوتی ہیں۔
برنارڈو ڈاڈی کا تعلق فلورنس کی درسگاہ مصوری سے تھا اور یہ جاٹو کے کام سے متاثر تھا۔ جاٹو کے انداز کی کچھ جھلک ان کے کام میں بھی واضح ہے۔ مثالاً جاٹو کی طرح پرسپیکٹو کے لیے لوگوں کو مختلف جگہوں پر دکھایا گیا ہے، جس سے نقش کے تھری ڈی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
مارٹینی کی مصوری روایتی بازنطینی انداز اور سیینا کی درسگاہ مصوری کے مطابق ہے جس میں رنگوں پر خاص توجہ دی جاتی۔
رنگوں کے استعمال کے حوالے سے مارٹینی اور جاٹو میں مماثلت ہے۔ دونوں نے بی بی مریم علیہ السلام کو نیلے رنگ میں پیش کیا جو کہ اس دور میں قیمتی رنگ تھا اور مریم علیہ السلام کے لیے اس رنگ کا استعمال ان کی اہمیت اور مقام کو ظاہر کرتا ہے۔
جاٹو کی اصل وجہ شہرت دیوار گری (فریسکو) کے حوالے سے ہے۔ فن مصوری میں دیوار گری یقیناً سب سے پرانا فن ہے، اور اس کے بیشتر نمونے آج دنیا کی بہت سی جگہوں پر موجود ہیں۔ جاٹو سے پہلے اطالوی مصورین خشک پلاسٹر پر دیوار گری کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے رنگ روشن نہیں دکھتے تھے اور نقش بے جان محسوس ہوتا تھا۔ جاٹو نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے گیلے پلاسٹر پر دیوار گری کا آغاز کیا۔ اس کا یہ طریقہ نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ اس سے دیوار پر کیے گئے نقش پرکشش اور دیرپا ہو گئے۔
جاٹو نے مضامین کا چناؤ، نقاشی میں مختلف واقعات اور ان میں پیش کردہ جاندار و بے جان وجود کی علامتی حیثیت کے متعلق اپنے استاد چیمابوئے سے سیکھا مگر کرداروں کو پیش کرنے کا انداز، رنگوں کا چناؤ، روشنی اور عکس کا مناسب استعمال سے جاٹو کی نقاشی اپنے استاد اور دیگر ہم عصروں سے منفرد بن جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر جاٹو نے چیمابوئے کے زیرسایہ مختلف کلیساؤں میں کام کیا۔ ان میں سینٹ فرانسس کے اسیسی میں موجود کلیسا کی دیوارگری قابلِ ذکر ہے۔
جاٹو کا متاثرکن کام جس کی بنا پر انہیں شہرت حاصل ہوئی وہ سکرووینی کلیسا (ایرینا چیپل) میں موجود دیوار گری کے نسخے ہیں۔ یہ کلیسا موجودہ اٹلی کے شمال میں واقع ہے۔ اس کلیسا کو سکرووینی خاندان نے تعمیر کروایا، جو کہ جاٹو کے سرپرست بھی تھے۔ روایت ہے کہ اینریکو سکرووینی نے اس کلیسا کی تعمیر اپنے باپ کے سود خوری جیسے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے کی تھی۔
اس کلیسا کے داخلی دروازے کی اوپری دیوار پر روزِ قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے، جو بلاشبہ جاٹو کی پہچان بنا۔ اسی منظر کو بعد میں سییسٹائن چیپل (ویٹیکن سٹی) میں مائیکل اینجلو نے بھی پینٹ کیا جو کہ مائیکل اینجلو کی بھی وجہ شہرت بنا۔
اوپر کی جانب جنت کی منظر کشی کی گئی ہے۔ درمیان میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کے دائیں و بائیں جانب بارہ حواریوں کو دکھایا گیا ہے۔ نیچے بائیں جانب ان لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو جنت میں داخل کیے جائیں گے اور دائیں جانب دوزخیوں کی حالت دکھائی گئی ہے۔ سکرووینی چونکہ جاٹو کا سرپرست تھا، شاید اسی لیے اینریکو سکرووینی کو یہ کلیسا (نیچے درمیان میں داخلی دروازے کے اوپر کی جانب) بی بی مریم علیہ السلام کے حوالے کرتے دکھایا گیا ہے۔
اس کلیسا کی تمام دیواروں پر بائیبل سے لیے گئے مختلف واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تقسیم کی تفصیل اور چند مناظر کو ذیل میں پیش کیا گیا ہے۔
1۔ حضرت عمران (مریم علیہ السلام کے والد) اور ان کی اہلیہ حنہ کی زندگی کے مختلف واقعات کو داخلی دروازے سے دائیں جانب کی دیوار پر اوپر والی سطر میں پیش کیا گیا ہے۔
2۔ بی بی مریم علیہ السلام کی زندگی کے حالات و واقعات کو داخلی دروازے سے بائیں جانب دیوار پر سب سے اوپر والی سطر میں پیش کیا گیا ہے۔
3۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور وفات کے مناظر دائیں اور بائیں دونوں دیواروں پر درمیان والی سطر میں پیش کیے گئے ہیں۔
4۔ زندگی گزارنے کے افضل اعمال اور برائیوں کو دونوں دیواروں پر نیچے والی سطر میں پیش کیا گیا ہے۔
جاٹو نے اس نقاشی میں عمران (بی بی مریم علیہ السلام کے والد) اور ان کی اہلیہ حنہ کے ملنے کی منظر کشی کی ہے۔ اس منظر میں جاٹو نے حضرت عمران کی یروشلم واپسی پر پیدا ہونے والی ڈرامائی صورتحال کا اظہار کرتے ہوئے مسکراہٹ، بوسہ جیسے انسانی جذبات کو پیش کیا۔ گو کہ اس منظر کو جاٹو سے پہلے اور ان کے ہم عصر مصورین نے بھی بنایا، مگر جاٹو نے میاں اور بیوی میں جو قربت دکھائی وہ اس کو حقیقت سے قریب تر کرتی ہے۔ یاد رہے کے بائبل کے مطابق حضرات عمران کی قربانی قبول نہ ہونے پر انہیں یروشلم چھوڑنا پڑا تھا۔
حضرت عمران اور حضرت حنہ کی کوئی اولاد نہیں تھی، جب خدا کی جانب سے انہیں اولاد کی خوشخبری ملی تو بی بی مریم علیہ السلام کی والدہ نے اپنی ہونے والی اولاد کو خدا کی راہ میں وقف کرنے کا عہد کیا۔ اس منظر کو جاٹو نے یہاں پیش کیا ہے کہ جب مریم علیہ السلام کی والدہ انہیں یروشلم کے مندر میں چھوڑنے کے لیے آتی ہیں۔ مریم علیہ السلام کی والدہ کو سرخ رنگ کے کپڑوں میں دکھایا گیا ہے جو اولاد کے لیے شفقت اور پرواہ کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس سے ملتے جلتے واقعے کا ذکر ہے۔
اس منظر میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کو سودی کاروبار کرنے والے شخص کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتے دکھایا گیا ہے۔ پس منظر میں محرابوں کا استعمال اور افراد کے پہنے ہوئے چوغہ کی لہردار شکنیں جاٹو کی مصوری میں پرسپیکٹیو کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ سہمے ہوئے بچے لوگوں کی آپس میں تکرار اور ماحول کی کشیدگی کی عکاسی کرتے ہیں۔
اوپر پیش کردہ مصوری کے نمونوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی واقعے کی منظر کشی کے علاوہ جاٹو کا مقصد ماحول کی حقیقت پسندانہ عکاسی، انسانی وجود کو واقعے کی مناسبت سے اس طرح پیش کرنا کہ ان کا انداز قدرتی لگے نہ کے مصنوعی۔
وہ چاہتے تھے کہ دیکھنے والا محض تماشائی نہ رہے بلکہ وہ خود کو نقاشی کا حصہ سمجھے، اس کو محسوس کر سکے، پیش کردہ انسانی اجسام دیکھ کر جان سکے کے کون خوش ہے اور کون تکلیف میں۔ دیکھنے والے کو پیش کردہ واقعہ کا معلوم ہونا ضروری نہیں بلکہ جو وہ نقوش میں دیکھ رہا ہے اس کی بنا پر وہ رائے قائم کر سکے اور واقعے کو جاننے کے ساتھ سمجھ بھی سکے۔
قرونِ وسطیٰ کے بیشتر مصورین کی نقاشی دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ کسی بے جان اور جامد اشیاء کا نقش ہے۔ ان مصورین کا مقصد مذہبی شخصیات کو اس انداز میں پیش کرنا تھا کہ دیکھنے والے کو مرعوب کر سکیں اور وہ اس قدر متاثر کن دکھیں کہ ان کے دل میں ایک خوف اور احترام کا جذبہ بیدار ہو۔
اس کی ایک مثال جو اکثر بازنطینی مصوری میں دکھائی دیتی ہے وہ اہم مذہبی شخصیات کے سر کے گرد سنہری دائرہ ہے یا پھر اکثر مصور آسمان کو یا پس منظر کو سنہری رنگ میں ظاہر کرتے تھے۔ نشاۃ ثانیہ کے دور میں ان چیزوں کے استعمال میں کمی واقع ہوئی۔ جاٹو نے اس سلسلے میں کوشش کی کے آسمان کو اس کے اصل رنگ میں دکھایا جائے اور پس منظر کو بھی سنہرا کرنے کی بجائے اس کے اصل رنگ میں پیش کیا جائے۔ مثالاً جاٹو اور ڈوچیو کے بنائے گئے بی بی مریم علیہ السلام کے سفرِ مصر میں آسمان کے رنگ کو دیکھا جا سکتا ہے۔
فن مصوری میں تبدیلی اور احیاء کے سفر کو جاننے کے لیے اس سلسلے کے پہلے مضمون میں پیٹر آرٹسن کے بنائے گئے مریم علیہ السلام کے سفر مصر کو ملاحظہ فرمائیں۔
بازنطینی ریاست میں سنہری رنگ کا استعمال صرف مصوری تک محدود نہ تھا بلکہ فنِ تعمیر میں بھی اس کا استعمال عام تھا۔ استنبول میں موجود آیا صوفیہ بازنطینی دور میں تعمیر کیا گیا اور آج بھی اس میں بازنطینی فن مصوری کے چند نمونے موجود ہیں۔
اس میں بھی سنہرے رنگ کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے۔ آج بھی آرتھوڈوکس گرجا گھروں کے گنبد سنہری رنگ میں بنائے جاتے ہیں۔ آرتھوڈوکس عیسائیت آج زیادہ تر انہی علاقوں (فنلینڈ اور روس جیسے ممالک کا شمار ان میں نہیں کیا جا سکتا) میں رائج ہے جو بازنطینی ریاست کا حصہ تھے۔
جاٹو نے فن مصوری میں چند ایسے نئے اصول متعارف کروائے جس سے مستقبل میں فنِ مصوری میں انقلابی تبدیلی آئی اور آج بھی یہ اصول اتنے ہی کارگر ہیں جتنے کہ آج سے سات سو سال قبل تھے۔ ان میں سب سے پہلا مصوری میں پرسپیکٹو کا استعمال ہے جس کا ذکر اوپر بھی کیا جا چکا ہے۔
جاٹو کے انداز کو اپنی مصوری کی بنیاد بنانے والے دو بڑے نام ماساچیو اور لیونارڈو ڈاونچی کے ہیں۔ ان دونوں نے پرسپیکٹو کا نہایت عمدہ استعمال کیا۔ اس حوالے سے لیونارڈو ڈاونچی کی آخری عشائیہ (The Last Supper) دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
دوسرا، مصوری میں روشنی اور عکس کا مناسب استعمال، بازنطینی انداز مصوری میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور یہ ایک اہم وجہ تھی کہ بازنطینی مصوری حقیقی زندگی کی عکاس محسوس نہیں ہوتی تھی۔ روشنی اور عکس کا مناسب استعمال جدید فن مصوری میں 'ماڈلنگ' کہلاتا ہے۔ اسے چاروسکورو (chiaroscuro) بھی کہتے ہیں، چارو کا مطلب روشن اور سکورو معانی تاریک سے ہے۔
تیسرا، رنگوں کو ہلکا اور گہرا کر کے ان کے مختلف شیڈ کو مصوری میں بروئے کار لانا۔ جاٹو شاید مغربی یورپ کا پہلا مصور تھا جنہوں نے روشنی کے اثر کو ظاہر کرنے کے لیے رنگوں کو گہرا اور ہلکا کر کے پیش کیا۔ اس طریقے سے پینٹنگ میں وہ گہرائی اور وسعت، جو بازنطینی مصوری سے مفقود تھی، نظر آئی۔ رنگوں کو گہرا اور ہلکا کر کے پیش کرنے کو فن مصوری میں ویلیو سکیل (value scale) کہتے ہیں۔ جاٹو کے بعد آنے والوں مصوروں نے اس تکنیک کا بخوبی اور جاٹو سے بھی بڑھ کر استعمال کیا۔
جاٹو کی میراث کی بات کریں تو گو کہ جاٹو نے بے شمار طالب علموں کی فن مصوری میں تربیت کی مگر جاٹو کی وفات کے بعد اس کا اپنایا گیا انداز اپنا زور قائم نہ رکھ سکا اور مصورین میں اپنی مقبولیت کھونے لگا۔ جاٹو کی متعارف کردہ جدیدیت کا صحیح معنوں میں اثر اس کی وفات کے تقریباً سو سال بعد ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے، جب مائیکل اینجلو نے جاٹو کے بنائے گئے نسخوں کا گہرا مطالعہ کیا اور جاٹو کے انداز مصوری کی بنیاد پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
جاٹو کا اثر ہمیں رافیل کے کام میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ مصوری سے ہم شغف رکھتے ہوں یا نہیں، مائیکل اینجلو، رافیل اور لیونارڈو ڈا وینچی وہ نام ہیں کہ جن سے بیشتر لوگ واقف ہیں۔ یہ تینوں ہم عصر بھی تھے اور جاٹو کے انداز مصوری کو دوام بخشنے والے بھی۔
لیونارڈو نے جاٹو کے بارے میں کہا کہ "وہ عظیم ہے کیونکہ اس نے اپنا فن اساتذہ سے نہیں سیکھا بلکہ قدرت سے سیکھا ہے، اور قدرت بہترین استاد ہے۔"
محققین کے نزدیک جاٹو کے انداز کو اپنانے میں اس دیر کی ایک وجہ 1348 میں پھوٹنے والی طاعون کی وباء بھی ہے، اس وباء کو لوگ خدا کا عذاب کہتے اور وہ مذہبی مصوری میں کسی بھی ایسی تبدیلی سے اجتناب برتتے جو کہ روایتی اور مروجہ طریقوں سے مختلف ہو اور خدا کی ناراضگی کا باعث بنے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں جاٹو کے پسندیدہ شاگرد ٹاڈیو گاڈی کے فن پاروں میں بھی وہ جدیدیت اور جذبہ دکھائی نہیں دیتا جو جاٹو کا خاصہ ہے۔
بازنطینی مصوری کا مقصد خدا کی تکریم تھا، جبکہ جاٹو کی مصوری میں خدا کے ساتھ افراد اور ارد گرد کے ماحول کو تقدم حاصل ہے۔ اس کے انداز مصوری نے مستقبل کے مصورین کو اپنا جداگانہ اور منفرد انداز اپنانے کی ترغیب دی۔
جاٹو کے پیروکاروں نے آنے والے دور میں مذہب کے علاوہ عام لوگوں کی زندگی اور ان کے رہن سہن کو بھی اپنے فن کا موضوع بنایا۔ گو کہ جاٹو کے تمام موجود فن پارے مذہبی واقعات کے عکاس ہیں مگر اہم مذہبی شخصیات کو اس انداز میں پیش کرنے سے کہ ان میں معاشرے کے عام افراد کی جھلک نظر آئے.
انہوں نے نہ صرف عام افراد کو اپنے آپ کو زیادہ بہتر اور مؤثر انداز میں ان واقعات اور شخصیات سے منسلک ہونے کا موقعہ فراہم کیا، بلکہ ان میں یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ یہ واقعات جو پیش کیے جاتے ہیں یہ من گھڑت نہیں اور جو مذہبی شخصیات پیش کی جاتی وہ بھی ان کے جیسے خوشی اور غم کے احساسات رکھتے تھے۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے مکینیکل انجینئر ہیں، تاریخ اور مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں ٹریول ڈاکیومینٹری دیکھنا پسند ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: goharkhokhar@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں