• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

فوجی عدالتوں کی بحالی: پیپلز پارٹی اور متحدہ کی حمایت ضروری

شائع March 2, 2017

اسلام آباد: حکومت متنازع فوجی عدالتوں کی بحالی سے متعلق آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے پارلیمانی اجلاس کے شرکاء کو منانے میں کامیاب ہوگئی ہے لیکن وہ اب بھی اس معاہدے پر دو سیاسی جماعتوں — پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) — کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہے، جس پر پارلیمانی رہنماؤں نے گذشتہ کے اجلاس میں اتفاق کیا تھا۔

صدر مملکت ممنون حسین نے رواں ہفتے جمعے کے روز قومی اسمبلی جبکہ 6 مارچ کو سینیٹ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود سیاسی جماعتوں کی نمائندگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کو سینیٹ سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پی پی پی اور ایم کیو ایم کی حمایت کی ضرورت ہوگی کیونکہ یہاں حکمران جماعت اقلیت میں ہے۔

گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں تقریبا تمام ہی جماعتوں کے نمائندوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ فوجی عدالتوں کی بحالی پر رضامند ہیں۔

تاہم انھوں نے ایک شرط عائد کی تھی کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے اور عدالتی و قانونی نظام کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

دوسری جانب اس معاملے پر پی پی پی نے 4 مارچ کو کثیر جماعتی کانفرنس طلب کررکھی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے مجوزہ مسودے میں ترمیم کیلئے انھیں اعتماد میں نہ لینے اور اسپیکر قومی اسمبلی کے اس حوالے سے کردار پر پی پی پی نے گذشتہ کے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔

ایم کیو ایم نے بھی اس حوالے سے حکومت کے سامنے اصولی طور پر اس کی حمایت کا اظہار کیا لیکن کہا تھا کہ مسودے پر ان کے کچھ خدشات ہیں جبکہ اس کی حمایت سے قبل وزیراعظم نواز شریف سے براہ راست یقین دہانی اور ضمانت طلب کی تھی۔

خیال رہے کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کو آئین میں ترمیم کی منظوری کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے فوجی عدالتوں کو 7 جنوری 2019 تک بحال کردیا جائے گا۔

یاد رہے کہ حکومت کو قومی اسمبلی میں بل کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تاہم سینیٹ میں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے حکومت کو پی پی پی اور ایم کیو ایم کی حمایت درکار ہوگئی۔

104 اراکان پر مشتمل سینیٹ میں حکومت کو بل کی منظوری کیلئے 70 ووٹوں کی ضرورت ہوگی، لیکن اگر مکمل حاضری کو یقینی بنایا جائے، جو ناممکن ہے، تو وہ 69 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اسے ایک ووٹ کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایوان بالا میں پی پی پی اپنے 27 سینیٹرز اور ایم کیو ایم اپنے 8 سینیٹرز کے ساتھ قانون سازی پر اثر انداز ہوسکتی ہے، اگر حکومت ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ پی پی پی کی مخالفت کے باوجوس بل کو منظور کرانا ممکن ہوگا۔

تاہم اس حوالے سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی حمایت، پہلے سے تعطل کاشکار فاٹا اصلاحات پیکج کے باعث، کے حصول میں مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔

تاریخی طور پر فاٹا کے اراکین اس قسم کے معاملے میں سیاسی جوڑ توڑ کرتے ہیں اور اس مرتبہ بھی بظاہر کچھ مختلف نہیں ہوگا۔

اس معاملے کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے فاٹا اصلاحات پر بات چیت کیلئے آج بروز جمعرات کابینہ کا اجلاس بھی طلب کرلیا ہے۔

فوجی عدالتوں کی بحالی کے بارے میں پارلیمانی رہنماؤں کے معاہدے نے عملی طور پر پیپلز پارٹی کی کثیر جماعتی کانفرنس کو غیر مؤثر کردیا ہے، جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی نے اس میں شرکت سے انکار کردیا ہے، لیکن پی پی پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کانفرنس کا انعقاد کرے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بدھ کو اسلام آباد پہنچے ہیں تاکہ وہ اس معاملے پر پارٹی کے اندر اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے مشاورت کرسکیں۔

یہ رپورٹ 2 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 26 اپریل 2025
کارٹون : 25 اپریل 2025