بم دھماکے کی جگہ پر ہی زندگیاں بچانا ممکن ہے

شائع March 16, 2017

میں بطور ایک ڈاکٹر خودکش حملوں کی زد میں آنے والے مقامات پر کام کر چکا ہوں، میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان میں ایمرجنسی میڈیکل امداد کی حالت میری سوچ سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ اگر ملک میں ہسپتال سے قبل طبی امداد فراہمی کے نظام کو بہتر کر دیں تو نہ جانے کتنی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

13 فروری 2017 کو ایک خودکش بمبار نے لاہور میں ایک احتجاجی مظاہرے کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 13 افراد مارے گئے اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔ دھماکے کے چند سیکنڈ بعد جائے وقوعہ پر موجود ایک شخص نے ایک خوفناک وڈیو بنائی جس میں سڑک پر لوگوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ وڈیو ریکارڈنگ کے دوران اس شخص نے لمحے بھر کے لیے خون میں لت پت دھماکے کا شکار ہونے والے شخص پر فوکس کیا جس کے گلے پر واضح زخم تھا۔

اس شخص کی سانسیں ابھی تک چل رہی تھیں اور اس وڈیو میں آپ کسی کو پاس کھڑے افراد سے اس شخص کا بہتا خون روکنے میں اس کی مدد کے لیے چلاتے ہوئے سن سکتے ہیں۔ کوئی شخص زخمی کے قریب آتا ہے مگر پھر اچانک ہر کوئی جائے وقوعہ سے بھاگ جاتا ہے۔

میرے ذہن میں موجود ان انتہائی ہولناک اور خونی مناظر کو لفظوں میں اتارنا بہت ہی مشکل ہے مگر یہ مثال دینا بہت ضروری ہے۔ بنیادی علم اور تربیت کے ساتھ مستقبل میں ہم حادثات کا شکار بننے والے افراد کی مدد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آرتھوپیڈک سرجری ٹیم کا حصہ ہونے کے ناطے میرے کلیگز اور میں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران ہونے والے حادثات کا شکار ہونے والے افراد کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔ ہم نے اپنی وہ تحقیق جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن میں شائع کروائی، اور کراچی میں واقع پاکستان کے سب سے بڑے سرکاری حادثات و ایمرجنسی یونٹس، جناح پوسٹ گریجوئٹ میڈیکل سینٹر میں بھی پیش کی۔

امریکن کالج آف سرجن کی جانب سے تیار کیے گئے ایڈوانس ٹراما لائف سپورٹ کی ہدایات حادثات کی پہچان اور اس کی فوری طبی امداد کو سب سے زیادہ اولیت دیتی ہیں۔ مگر پاکستان میں ہمارے سب سے تازہ اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ حادثات کا شکار ہونے والے افراد ہسپتال منتقلی کے دوران بمشکل ہی کبھی فوری طبی امداد حاصل کر پاتے ہیں۔

کئی سنگین نوعیت کے زخم جو سانس لینے میں دشواری اور دماغ تک آکسیجن کی رسائی بند کرنے کا باعث بنتے ہیں وہ سادہ سے پیچیدہ طریقوں سے درحقیقت قابل علاج ہیں جن پر ہسپتال منتقلی کے دوران ہی عمل کرنا چاہیے تاکہ زخمی کو موت اور معذوری سے بچایا جاسکے۔ آکسیجن کی کمی کے باعث 5 سے 6 منٹوں کے اندر اندر دماغ کے خلیوں (سیل) کی فعالیت مستقل طور پر بند ہو جاتی ہے۔

چند برسوں قبل، کراچی میں سرفراز شاہ نامی ایک نوجوان کو نیم عسکری ادارے کے اہلکار نے گولی مار دی تھی۔ ان مناظر کی دہشت زدہ وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گولی لگنے سے زخمی ہونے والا نوجوان ہوش میں ہے، حواس بھی بحال ہیں اور تکلیف محسوس کرتے ہوئے اپنی زخمی ران کو اٹھائے بیٹھا ہوا ہے۔

زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی۔ اسے موت سے بچایا جاسکتا تھا، اگر زخم پر تھوڑا دباؤ ڈال کر یا لہو روک کی مدد سے خون کا بہنا روک دیا گیا ہوتا۔

2014 میں ہمارے گروپ نے کراچی، رزاق آباد بم دھماکے کے دوران زخمی ہونے والے پولیس کمانڈوز کے زخموں کی نوعیت پر ایک تحقیق شائع کی تھی۔

اس حملے کی تفصیلات میں سے جو سب سے زیادہ پریشان کن تھا پہلے زخمی کو طبی امداد حاصل کرنے میں لگنے والا وقت۔ جو کہ 35 منٹ تھا۔

اعداد و شمار دکھاتے ہیں ٹریفک حادثات، بم دھماکہ یا بلندی سے گرنی سے جسم کے ایک سے زائد حصوں پر آنے والی چوٹ لگنے کے بعد ان کے پاس ’گولڈن آوور' ہوتا ہے، جس کے دوران زخموں کی پہلے سے تشخیص اور طبی امداد سے اموات کو روکا جا سکتا ہے۔

گزشتہ سال شاہ نوارنی کے مزار پر ہونے والے ہولناک واقعے میں حملے کا شکار ہونے والے گھنٹوں تک طبی امداد کے بغیر تڑپتے رہے کیونکہ علاقے میں کوئی بھی فعال ہسپتالیں ہی دستیاب نہیں ہیں۔ کئی زخمی تو زخموں کی طاب نہ لاتے ہوئے چل بسے لیکن اگر تربیت یافتہ نیم طبی عملے یا محتاط شہریوں، جو ایسے واقعات میں سب سے پہلا رد عمل ظاہر کرنے والا کردار کرتے ہیں، کی جانب سے طبی امداد سے تو ان میں سے چند کو بچا پانا ممکن تھا۔

کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زیادہ ہے مگر یہاں کوئی ایک ایسا مخصوص ایمرجنسی نمبر نہیں جسے ڈائل کر کے شہری مدد حاصل کر سکیں۔ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں 911 کی طرح ایک مخصوص ایمرجنسی نمبر ہوتا ہے جو تمام ایمرجنسی کالز کو ایمرجنسی ڈسپیچ آپریٹر کو بھیج دیتا ہے۔ یہ آپریٹر فون پر رہتے ہوئے سوالات کا سلسلہ شروع کرتا ہے (کون، کیا، کہاں، کب، کیوں اور ہتھیار) اور پھر فون پر رہتے ہوئے اور حادثے سے متاثر شخص کو گائیڈ کرنے کے ساتھ مناسب ایمرجنسی امداد کو ایکٹیویٹ کر دیتا ہے۔

ہمارے پاس کئی ایمبولینس نیٹ ورکس کی اپنی اپنی مختلف ہیلپ لائنز ہیں مگر بد قسمتی سے زیادہ تر ایمبولینس میں غیر تربیت یافتہ عملے کے ساتھ طبی آلات کا فقدان ہے۔

2010 میں کراچی میں ہونے والے خود کش دھماکے میں طبی امداد پہنچانے کے دوران میں نے جائے وقوعہ پر افراتفری کا عالم بذات خود دیکھا۔ حملے سے متاثرین ہونے والے افراد جائے وقوعہ پر میڈیکل توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔ حادثے کی جگہ پر فوری طور پر طبی امداد پہنچانے کے بجائے ان باتوں پر لڑائیاں اور ہاتھا پائی ہوتی ہے کہ لاشوں اور زخمیوں کو کون سی ایمبولینس نیٹ ورک لے جائے گی۔

حکومت کی جانب سے ایک جامع طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جو تمام فلاحی تنظیموں کو فون، ریڈیو یا انٹرنیٹ کے ذریعے قابل رسائی واحد ایمرجنسی نمبر کے ساتھ ایک چھت تلے لانے کے بڑے پیمانے پر وسائل، اختیار اور پلیٹ فارم رکھتی ہے۔

ہماری تحقیق کے مطابق لندن میں 7/7 بم دھماکے اور 2004 کی میڈرڈ ٹرین دھماکہ کے مقابلے کراچی میں ہونے والے واقعات میں اموات کی سطح دگنی سے بھی زیادہ رہی۔ 14 برٹش میڈیکل ایسو سی ایشن کے ڈاکٹرز پر مشتمل ٹیم لندن بم دھماکوں کے فوراً بعد حرکت آ گئی اور جائے وقوعہ پر پہنچ کر کئی زندگیوں کو بچانے میں کامیاب رہی۔

کیوبیک میں ہونے والے حالیہ فائرنگ کے واقعے میں ڈاکٹرز کے فوری رد عمل کی وجہ سے سنگین زخموں کا شکار ہونے والے افراد 45 منٹ کے اندر اندر سرجری کے مرحلے سے گزر رہے تھے جس کے باعث اموات کی تعداد 6 سے زیادہ نہیں ہوئی۔

رزاق آباد میں پولیس بس پر ہونے والے حملے کی مجموعی شرح اموات 18.6 فیصد کے مقابلے میں لندن بم دھماکوں میں یہ شرح 7.2 فیصد رہی۔ اس سے ہمیں جائے وقوعہ اور دوران ہسپتال منتقلی حادثے کے بہتر انتظام اور فوری طبی امداد کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، خاص طور پر جب حادثاتی سینٹر کئی منٹ دوری پر واقع ہوں۔

ہم میں، حادثات اور اس کے بعد کی صورتحال کے لیے تیار رہنے، نقصان کو کم حد تک رکھنے اور منصوبہ بندی کرنے کی عادت نہیں ہے۔ شاید ہی کبھی ہم نے طبی امداد کے پلان میں تبدیلیاں لانے کے لیے تفتیش سے حاصل ہونے والی معلومات پر اجلاس منعقد کروایا ہو اور مختلف ذرائع سے فیڈ بیک اکھٹا کیا ہو۔

اگرچہ ایسے بھی چند ادارے ہیں جن میں تربیت یافتہ طبی عملہ موجود ہے مگر ملکی صحت پالیسی میں حادثے کی صورت میں امدادی کارروائی کے نظام میں بنیادی طبی امداد کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

فرسٹ ریسپانس انیشیئیٹو آف پاکستان کی بات کریں تو، ہمارا ماننا یہ ہے کہ حادثات کی صورت میں بنیادی نگہداشت یا بیسک ٹراما کیئر اور ایمرجنسی کی صورتحال میں طبی امداد کے طریقوں اور علاج یا لائف سپورٹ کے بارے عام عوام کو تربیت دے کر حادثات کے نتیجے میں ہونے والی شرح اموات میں واضح کمی واقع ہو سکتی ہے۔

خون رسنے والے زخموں پر دباؤ ڈالنے اور سنگین نوعیت کے زخموں یا کٹے ہوئے ہاتھ یا پیر، جیسا کہ عام طور پر بم دھماکوں کے نتیجے میں ہوتا ہے، کے لیے لہو روک کا استعمال، جیسی سادہ تدابیر کے بارے میں لوگوں کو تربیت فراہم کرنے سے ایمرجنسی طبی امداد پہنچنے سے قبل زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔

ضرورت صرف حکومتی معاونت اور مداخلت کی ہے۔

انگلش پڑھیں۔

جہانزیب آفندی

جہانزیب آفندی کراچی میں مقیم میڈیکل ڈاکٹر اور فرسٹ رسپانس انیشی ایٹو آف پاکستان (ایف آر آئی پی) کے شریک بانی ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Jahanzebeffendi@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

ali Mar 16, 2017 12:30pm
kya zabardast tehreer likhi hai dr afandi ne,, aisy musbat log aur ideas hi mulk ko upper le kar ajin gy,,
رابعہ جمیل Mar 16, 2017 03:53pm
ڈاکٹر صاحب نے بالکل ٹھیک ہی لکھا ہے ۔کاش ہمارے سرکاری اور نجی تعلمی اداروں میں ابتدا سے ہی بچوں کو ابتدائی فرسٹ ایڈ کی تعلیم دی جائے ۔اس سے کسی بھی ہنگامی حالت میں مدد مل سکتی ہے ۔عمومی طورپر ہم حادثے کے انتظار میں ہوتے ہیں ،حادثہ ہوتا ہے،نقصانات ہوتے ہیں ۔لیکن ہماری ناقص منصوبہ بندی سے حادثہ کے بعد ایک اور حادثہ جنم لیتا ہے ۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024