بربادی انڈس ڈیلٹا کا مقدر کیوں بنی؟
سندھ گھوڑوں میں شاہوکار،
رتھوں میں شاہوکار، کپڑوں میں شاہوکار،
عُمدہ بنے ہوئے گہنوں میں شاہوکار،
کھانے پینے میں شاہوکار اور
اس سندھو کے کنارے
شہد دینے والے پھولوں سے بھرے پڑے ہیں۔
(— رگ وید منڈل 10)
زندگی کے سارے رنگ، تمام حُسن اور کُل نعمتیں میٹھے پانی کے دم سے ہی ہیں۔ یہ جہاں سے اپنے راستے بناتا گذرتا ہے، وہاں کناروں پر زندگی اور تہذیبوں کو جنم دیتا جاتا ہے۔ دریائے سندھ بھی جہاں سے گذرتا گیا زندگی کو ایمان دیتا گیا، رگوید کے دسویں منڈل میں دریائے سندھ کی دین کو ان ہی الفاظ میں سراہا گیا ہے۔
ایک مکمل تہذیب کے وجود کے لیے چند مخصوص عناصر کا ہونا بہت ضروری ہے، جیسے طبعی ماحول و حالات، سوچنے اور احساس کی صلاحیت اور سماجی اقدار۔ ان میں سب سے پہلا اور زیادہ اہم عنصر ہے طبعی حالات۔
سبطِ حسن لکھتے ہیں، "تہذیب کی تشکیل و تعمیر میں طبعی حالات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، ہر تہذیب کا اپنا مخصوص جغرافیہ ہوتا ہے، اس کے دریا اور پہاڑ، جنگلات اور میدان، پھل پھول اور سبزیاں، چرند پرند، آب و ہوا، موسم یعنی اُس کا خارجی ماحول اس کے طرز عمل، ذریعہ معاش، رہن سہن، خوراک و پوشاک، مزاج، اخلاق و عادات، جذبات و احساسات غرض یہ کہ اس علاقے کے انسانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ریگستانی علاقوں کی تہذیب قطب شمالی کے برف پوش میدانوں کی تہذیب سے مختلف ہوتی ہے۔ جبکہ سمندر یا دریاؤں کے کناروں پر بسنے والوں کی تہذیب میں زَمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ خارجی حالات سے قوم کی تہذیب ہی متعین نہیں ہوتی بلکہ افراد کی شخصیت کو بنانے بگاڑنے میں بھی خارجی ماحول کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔"
جس طرح ہر خطے کی اپنی کہانی، اپنے دُکھ سُکھ اور نصیب ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انڈس ڈیلٹا کے دکھوں سُکھوں کی بھی ایک الگ کتھا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس ڈیلٹائی پٹی پر ہمیشہ سے دُکھ و دَرد کی خاردار جھاڑیاں ہی اُگتی آئی ہیں، ماضی میں یہاں رعنائیوں اور سُکھوں کی ٹھنڈی چاندنیاں بھی بہت رہی ہیں مگر ان اچھے دنوں کو ڈھونڈنے کے لیے کچھ تگ و دو زیادہ ہی کرنی پڑے گی۔ کیوں کہ بقول ول ڈیورانٹ، "80 فیصد تاریخ مذہبی پیشواؤں اور بادشاہوں کے کارناموں کی تعریف سے بھری پڑی ہے۔" چلیے پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ ڈیلٹا کے اچھے دنوں کے متعلق تاریخ کے اوراق سے کچھ مل ہی جائے۔
مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ ڈیلٹا (مثلث نُما زمین جو کسی دریا کے دہانے پر بن جاتی ہے) کیا ہے؟
اگر ہمارے پاس جواب ہاں میں ہے تو بہت اچھا اور اگر جواب نہیں میں ہے، تب بھی ٹھیک ہے۔ اس نہیں کو ہاں میں بدلنے کے لیے ہمیں ایک مختصر مگر دلچسپ سا سفر کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ یہ ہمارے ملک کی زمین کا ہزاروں کلومیٹرز میں پھیلی ہوئی اور اپنی الگ اور نرالی معروضی منظر رکھنے والی اراضی ہے جس کے بارے میں معلومات رکھنا بھی ضروری ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم اشفاق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، "سندھ کا ڈیلٹا شاید دنیا کی جہازرانی والی بندرگاہوں میں سب سے بڑا دفن ہونے والا ڈیلٹا ہے۔ یہ ڈیلٹا سندھ کی تہذیب کی ابتدا سے گزشتہ صدی کے آخر تک وادئ سندھ اور دور دراز ملکوں مصر، عرب، سمیر، ایران، مشرقی افریقا، مہاراشٹر، سری لنکا اور چین کے باہمی بیوپار کا مرکز رہا ہے۔"
دنیا میں جہاں جہاں بڑے دریا ہیں اُن سارے دریاؤں میں ایک ہی جنونیت بھری ہوتی ہے کہ وہ اونچائی سے نیچے کی طرف جائیں اور سمندر کی گود میں خود کو سما دیں۔ مگر دریا کا میٹھا پانی اُس دھرتی سے کبھی بیوفائی نہیں کرتا جس پر سے وہ گاتا گنگناتا، زمین کو مالا مال اور خوشحالی کے پھول بانٹتا بہتا سمندر کی گود میں تو سما جاتا ہے۔
جہاں جہاں سے سمندر سے ملتا ہے وہاں اپنے ساتھ لائی ہوئی مٹی اور ریت سے زمین بُننا شروع کردیتا ہے بالکل ایسے جیسے ننھی منی چڑیائیں گھاس کے تنکوں سے گھونسلے بُنتی ہیں۔ دریا اور سمندر مل کر جو زمین بناتے ہیں اُس زمین کو ’ڈیلٹائی زمین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
انڈس ڈیلٹا کی موجودہ زمینی پٹی جو 16,000 مربع میل یعنی 41,440 مربع کلومیٹرز کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، اس پٹی کی زمین سمندر کے ساتھ 130 میل یعنی 210 کلومیٹرز تک ساتھ چلتی ہے۔
دریائے سندھ 3000 کلومیٹر کا سفر کرتا یہاں جنوبی سندھ تک آتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اب برائے نام پانی آتا ہے اس شہنشاہ دریا میں وہ زمانہ کب کا گزر گیا جب 350 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی آتا تھا اور سمندر سے مل کر ڈیلٹا کی اس زرخیز زمین کی تخلیق کرتا۔ ساتھ میں جنم دیا اُس کلچر کو جو اپنی الگ، خوبصورت اور حیاتیاتی تنوع سے بھرپور پہچان رکھتا ہے۔
چلیے جنوبی سندھ (جس کو لاڑ، سندھو ستھین، پتالینی، سندھی، سندھو ، ڈیلٹا اور بہت سارے دوسرے ناموں سے پکارا جاتا ہے) کے متعلق اور کچھ دلچسپ حقائق جانتے ہیں۔
انڈس ڈیلٹا کیسے بنا؟
آپ کوہستان، کاچھو یا تھر جائیں، وہاں کے لوگ اس ڈیلٹائی پٹی کو 'سندھ' کے نام سے جانتے ہیں۔ خشک سالی میں جب تھر سے یہاں کی طرف نقل مکانی زیادہ ہوتی ہے۔ ان دنوں میں آپ اگر تھر جائیں اور اُن کے خالی گھروں کو دیکھ کر مقامی لوگوں سے پوچھیں کہ، ’یہ لوگ کہاں گئے ہیں؟‘ تو فوری جواب ملے گا ’سندھ‘ ۔ یہ جواب وہ ایسے ہی نہیں دیتے بلکہ یہ ایک فطری جواب ہے جو طبعی حالات کی کوکھ سے جنما ہے۔
ان کے سامنے سندھ کی زمین وہ ہے جسے دریائے سندھ کی مٹی اور ریت نے بنایا ہے۔ جہاں کا منظر نامہ اور ساری سندھ سے مختلف ہے کہ یہاں جھیلوں کی بہتات ہے اور کیوں نہ ہو آخر دریائے سندھ کا ہزاروں کلومیٹرز کا سفر یہاں اس ساحلی پٹی پر آکر جو ختم ہوتا۔
سمندر تک پہنچنے کے لیے جتنے راستے اور بہاؤ دریائے سندھ نے تبدیل کیے ہیں وہ کسی دوسرے دریا نے شاید ہی کیے ہوں گے۔ "انسائیکلوپیڈیا سندھیانا" میں اس بارے میں تحریر ہے کہ، "دریائے سندھ کے سفر کی آخری منزل سے آگے سمندر تک کافی تعداد میں کھاڑیاں یا کریکس (Creeks) جاتی ہیں۔
جنوب مشرق میں ’سیر‘ نامی کھاڑی ہے جو پانی میں پاک و ہند سرحد کا کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، کھارک، کوچی واڑی، کاجھر، مل، کانھر، ادھیاڑی، سنہڑی، گھوڑو، کھوبر، قلندری، مٹنی، ترچھان، حجامڑو، چھان، دبو، پئٹانی، کھائی، وڈی کُھڈی، ننڈھی کُھڈی، پھٹی، کورنگی اور گذری کریکس ہیں۔" یہ کھاڑیاں وہ راستے ہیں جو دریا سمندر تک پہنچنے کے لیے جنوبی سندھ میں آ کر بناتا ہے۔
دریا کی دو اقسام ہیں، ایک وہ جن میں ریت اور مٹی کم آتی ہے اور دوسرے وہ جو اپنے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اور مٹی لاتے ہیں، ایسے دریاؤں میں ’دریائے نیل‘ اور ’دریائے سندھ‘ قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں میں سے دریائے سندھ اپنے ساتھ سب سے زیادہ زرخیز ریت اور مٹی لانے والا دریا ہے۔
ڈیلٹا کا اعزاز اُن دریاؤں کے نصیب میں ہوتا ہے جو اپنے ساتھ زیادہ ریت لائیں۔ سکندر اعظم جب 325 قبلِ مسیح میں ’پٹالا‘ (پاتل، پاتال، پتالینی) پہنچا تھا تو دریا وہاں تک کافی عرصہ پہلے زمین بنا چکا تھا۔ جس طرح دریائے سندھ بحیرہءِ عرب میں جا گرتا ہے بالکل اسی طرح دریائے نیل اپنا 6695 کلومیٹرز کا طویل سفر کرتا ڈیلٹا بناتا بحیرہءِ روم میں جا گرتا ہے۔ اگر قریب سے مشاہدہ کیا جائے ان دونوں دریاؤں کا زمینی لینڈ اسکیپ اور ڈیلٹائی کلچر ایک جیسا ہے۔
نئے اور پرانے ڈیلٹا کے فرق کو ایچ ٹی لیمبرک نے بڑی تفصیل اور گہرائی سے سمجھایا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں، "نئے ڈیلٹا اور پرانے ڈیلٹا کو نام دے کر الگ کرنا شاید ممکن نہ ہو، مگر ان دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ، پرانا ڈیلٹا ندیوں کے بیچ میں بن چکا ہوتا ہے اور نیا ڈیلٹا جسے ہم ایکٹیو ڈیلٹا کا نام دیتے ہیں وہ ایک تو نرم ہوتا ہے اور جب سیلاب آتا ہے تو ڈوب جاتا ہے، ایکٹیو ڈیلٹا دریا اور سمندر کے بیچ میں کشمکش کا میدان ہوتا ہے جس کی وجہ سے نئی زمین بنتی رہتی ہے۔
دریا کا پانی سمندر کو آگے آتا دیکھ کر چھوٹے پنکھے (بادکش) کی شکل جیسا پھیل جاتا ہے اور اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت پھیلاتا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے سے زمین بنتی جاتی ہے اور جیسے جیسے زمین بنتی جاتی ہے سمندر پیچھے کی طرف ہٹتا جاتا ہے مگر اس کی سطح وہ ہی رہتی ہے۔
جب تیز ہواؤں کے دنوں میں سمندر کی مدافعت بڑھتی ہے تو دریا شاخوں میں بٹ جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت سمندر کے اندر پھینکتا رہتا ہے۔ اسی طرح سمندر کے اندر ریت کے ٹیلے بنتے جاتے ہیں اور زمین بنتی جاتی ہے"۔ اس حوالے سے ہم یہ بخوبی کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں جنوبی سندھ کا مشرقی جانب والا حصہ (بدین) ایکٹیو ڈیلٹا تھا اور اب مغرب کی طرف (ٹھٹھہ) والا حصہ ایکٹیو ڈیلٹا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، جب دریائے سندھ میں طغیانی آتی تھی تو اس طغیانی کے ایک سو دنوں میں یہ ریت کے گیارہ کروڑ نوے لاکھ معکب گز سمندر کی طرف لے چلتا ہے۔ اگر اس ریت کا مقابلہ ہم نیل ندی سے کریں جو خود ایک زیادہ ریت لانے والا دریا ہے تو یہ پورے ایک برس میں 4 کروڑ معکب گز ہے اور ہم جانتے ہیں کہ، دریائے سندھ میں ریت کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہے۔
جنرل ہیگ اپنی کتاب ’انڈس ڈیلٹا کنٹری‘ میں دریا سے بنی ہوئی نئی زمین کے متعلق تحریر کرتے ہیں، "برٹش راج کے بعد سمندر کی طرف زمین کے بڑھ جانے کے متعلق جاننے کے لیے ہماری بڑی دلچسپی رہی۔ ہم نے اس پر بڑے سروے بھی کیے اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دریائے سندھ جن مختلف ندیوں کی صورت میں سمندر کی طرف سفر کرتا سمندر سے جا ملتا ہے، وہاں نئی زمین بڑی تیزی سے بن رہی ہوتی ہے اور سمندر کو مسلسل پیچھے دھکیل رہی ہوتی ہے۔
ہم نے پہلے 1877 میں اس پر کام کیا تھا۔ جس سے ہمیں پتہ لگا کہ گزشتہ دس برسوں میں ان نہروں کے سمندر میں پانی ڈالنے سے ساڑھے تین مربع میل نئی زمین بنی ہے۔ اور زمین بڑھنے کی رفتار ہر بہاؤ میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کہیں زمین زیادہ بنتی ہے اور کہیں کم۔"
مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈس ڈیلٹا کا علاقہ دریائے سندھ کی دین ہے۔ اور اس کا بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ اس علاقے کی زرخیزی ایک جیسی نہیں ہے۔ اگر آپ ایک ایکڑ کا بھی کیمیائی تجزیہ کریں تو اس ایک ایکڑ میں بھی زرخیزی مختلف ہوگی۔
اور یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کی ڈیلٹائی پٹی اپنی زرخیزی کے حوالے سے خوشحال بھی تھی اور مشہور بھی۔ دھان اُگانے کے لیے اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ دھان کے بیج زمینوں میں ڈال دیے جاتے اور دھان کی فصل کے جیسے جنگل اُگ آتے۔ اُس وقت جو دھان کی جنس تھی وہ پانی بڑھنے کے ساتھ بڑی ہوتی جاتی۔
جیمز میکمرڈو لکھتے ہیں، "پانی کے ساتھ دھان بھی بڑھتی جاتی، کسی کسی علاقے میں تو یہ تین سے چار فٹ تک بڑی ہو جاتی۔" اور دھان اتنی اراضی میں ہوتی کہ فصل کی کٹائی کے لیے کَچھ اور مُلتان سے لوگ یہاں فصل کی کٹائی کے لیے آتے۔
19 ویں صدی کی ابتدا میں ڈیلٹا کے قدرتی حسن کا منظر جیمس برنس نے کچھ اس طرح سے تراشا ہے، "یہاں کے مرکزی بہاؤ اور دوسری ندیوں میں سفر کرتے آپ کو پرندوں کی میٹھی آوازیں سننے کو ملیں گی۔ کناروں پر آپ کو گنے کے کھیت ملیں گے جن کو پانی دینے کے لیے رہٹوں کا استعمال عام ہے. ان رہٹوں کو اونٹ اور بیل بھی کھینچتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہاں ٹھنڈے دنوں میں پرندوں کی اتنی بہتات ہے کہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ مچھلی کے شکار کی تو کیا بات ہے، ایسا لگتا ہے کہ مچھلی پیدا ہی یہاں ہوئی ہے۔ یہاں کیکر اور لئی کے بڑے درختوں کے جنگل ہیں جو یقیناً ایک ڈیلٹا کی خوبصورتی کے زیور ہیں۔‘‘
یہ سارے مناظر ماضی کی خوبصورت ڈیلٹا کے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے، جب سے بیراج اور ڈیموں کو ترقی کا مرکزی نقطہ سمجھا جانے لگا ہے تب سے فطرت کی خوبصورتیاں اور مناظر فقط ماضی کا قصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ماضی میں جہاں جھیلیں تھیں وہاں مغرب کی گرم ہوائیں مٹی اُڑاتی ہیں۔
دریا نے سمندر سے مل کر زمین بنانی چھوڑ دی ہے۔ ایک زمانے میں دریا سمندر سے لڑ کر اُس کو دھکیلتا اور نئی زمین بناتا۔ اب سمندر سے لڑنے اور دھکیلنے والا کوئی نہیں اس لیے سمندر مسلسل زمین کھا رہا ہے۔
فطرت کے چلن کا اپنا ایک اُصول ہے، انسان اگر اُس کے راستے میں آئے گا تو فطرت اپنا انتقام لینا جانتی ہے، اور فطرت کے سامنے انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں