انٹرپول کا الطاف حسین کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار
اسلام آباد: انٹر پول نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی ملک کے سیاسی اور مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔
وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ انٹر پول نے الطاف حسین کے خلاف الزامات کی تفصیلات طلب کرنے کے بجائے پاکستانی حکومت سے ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی درخواست پر وضاحت طلب کرلی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ انٹرپول کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو اعلیٰ حکام تک پہنچا دیا گیا ہے اور آئندہ دو ہفتوں میں اس کا جواب دے دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ انٹرپول کی جانب سے دیا جانے والا نوٹس ایک بین الاقوامی الرٹ ہوتا ہے جس میں مختلف ریاستوں کی پولیس یا انتظامیہ اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے جرم، مجرموں اور خطروں کے حوالے سے تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔
مذکورہ نوٹس کے ذریعے مطلوب افراد کے جرائم کی تفصیلات، لاپتہ افراد، غیر شناخت لاشیں، ممکنہ خطرات، فرار قیدی اور فوجداری کے طریقہ کار کے حوالے سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
بین الاقوامی ادارے کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹس کی آٹھ اقسام ہیں جنھیں مختلف رنگوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، ان میں سرخ، نیلا، سبز، پیلا، سیاہ، اورنج اور جامنی رنگ شامل ہے۔
ان میں سب سے زیادہ معروف ریڈ نوٹس ہے جو کسی بھی فرد کیلئے بین الاقومی گرفتاری کا وارنٹ ہوتا ہے جبکہ آٹھواں خصوصی نوٹس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درخواست پر جاری کیا جاتا ہے۔
پالیسی کے مطابق انٹرپول صرف نوٹس جاری کرتا ہے جو مناسب قانونی ضابطے کی تکمیل کے بعد جاری کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر انٹرپول کے آئین کی خلاف ورزی کی صورت میں نوٹس پبلش نہیں کیا جاتا جس کے مطابق ادارہ سیاسی، فوجی، مذہبی یا نسلی سرگرمیوں کی بنیاد پر کسی کے خلاف نوٹس جاری نہیں کرسکتا، اس کے علاوہ انٹرپول ایسے نوٹس کو شائع کرنے سے بھی منع کرسکتا ہے جو ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہو۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے حال ہی میں انٹر پول کو ایک تحریری درخواست میں لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے ایم کیو ایم کے بانی رہنما کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کو کہا تھا۔
درخواست کے ساتھ ایف آئی اے نے ایم کیو ایم کے بانی رہنما کے خلاف درج ایف آئی آر کی کاپی منسلک کی تھی، یہ مقدمہ ان پر گذشتہ سال 22 اگست کو کراچی پریس کلب کے سامنے جاری پارٹی کے دھرنے سے ٹیلی فونک خطاب کے دوران کارکنوں کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے پر درج کیا گیا تھا۔
اس تقریر میں الطاف حسین نے نہ صرف پاکستان مخالف نعرے لگائے تھے بلکہ ملک کو دنیا کے لیے کینسر قرار دیا تھا۔
مذکورہ متنازع تقریر کے کچھ دن کے بعد پاکستان نے ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف باقائدہ ایک ریفرنس برطانوی حکومت کو بھیجا تھا۔
22 اگست کے واقعے میں ایک شخص ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے تھے، جبکہ اس میں ایم کیو ایم کے مشتعل کارکنوں کی جانب سے متعدد گاڑیاں نذر آتش کی گئیں تھی اور پولیس سے چھڑپوں کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کا گھیراؤ بھی کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن سیکریٹریٹ میں موجود ان کے ساتھیوں سے 'لاتعلقی کا اظہار' کیا۔
میڈیا کے نمائندوں کو قانونی ریفرنس کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا تھا کہ حکومت نے برطانوی حکام کو پاکستان میں تشدد میں ملوث ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کو کہا تھا۔
ریفرنس کے مطابق الطاف حسین نے نہ صرف برطانیہ کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کو بھی توڑا ہے اس لیے انھیں متعلقہ قوانین کے مطابق سزا دی جائے۔
الطاف حسین کی تقریر کے ثبوت صرف برطانوی حکومت سے شیئر کیے گئے ہیں۔
ریفرنس کے ساتھ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کی کاپی بھی منسلک کی گئی تھی ، اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی جانب سے میڈیا ہاؤسز پر حملے کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
تاہم ترجمان کا کہنا تھا کہ ' الطاف حسین کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا'۔
تبصرے (1) بند ہیں