پاک-افغان سرحد بند: تاجروں کا خطیر سرمایہ ڈوبنے کا خدشہ
کراچی: پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد افغانستان کی سرحد بند ہے، راستے بند ہونے سے بارڈر کے دونوں جانب تجارتی سامان لے جانے والے ٹرکوں کی طویل قطاریں لگ گئی ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ ہلاکت خیز بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کی زمین استعمال ہونے کی اطلعات سامنے آئی تھیں، جس کے بعد دہشت گردوں کی سرحد پار سے داخلے کو روکنے کے معاملے میں کئی اقدامات کیے گئے جبکہ دو اہم سرحدی راستے بند ہونے پر سیکڑوں ٹرک بھی پھنس گئے، جس سے دونوں ممالک کے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کے لاکھوں روپے ڈوب جانے کا خدشہ ہے، کیوں کہ ان ٹرکوں میں جلد خراب ہوجانے والے مال سمیت دیگر تجارتی سامان موجود ہے۔
ٹرانسپورٹرز کے مطابق گزشتہ ہفتے لعل شہباز قلندرکے مزار میں ہونے والے دھماکے میں 90 افراد کی ہلاکت کے بعد فوج کی جانب سے سرحد بند کی گئی، جس سے پاکستان سے افغانستان جانے والے 5 ہزار جبکہ سرحد کی دوسری جانب سے آنے والے 3 ہزار ٹرک پھنس گئے ہیں۔
ڈان سے گفتگو کے دوران ٹرانسپورٹرز اور تاجروں کے نمائندوں نے سرحد کو بند کیے جانے کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بحران کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'پاک افغان سرحد اور سفارتخانے بند کر دینے چاہیے'
آئل ٹینکرز اور مال بردار گاڑیوں کے ٹرانسپورٹرز کی انجمن کے ترجمان اسرار احمد شنواری کے مطابق ہم طورخم اورچمن سرحد سے افغانستان یومیہ 700 ٹرک روانہ کرتے ہیں، جبکہ 300 ٹرک وہاں سے آتے ہیں۔
اسرار احمد شنواری کا کہنا تھا کہ لوگ گزشتہ ایک ہفتے سے سرحد بند ہونے کے باعث پیدا ہونے والی خراب صورتحال کا اندازہ لگا سکتے ہیں، ہم انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی سے متعلق اٹھائے گئے تمام اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، مگر ہم حکام سے درخواست کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے، کیوں کہ اس سے 2 لاکھ افراد کا روزگار منسلک ہے۔
واضح رہے کہ درگاہ لعل شہباز قلندر میں دھماکے کے بعد رات گئے 16 فروری کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئیٹ کیا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث دیگر احکامات جاری ہونے تک پاک-افغان سرحد فوری طور پر بند کردی گئی ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مہمند اور باجوڑ ایجنسی کے دورے کا دوران کہا کہ دہشت گرد افغانستانمیں موجود محفوظ پناہ گاہوں میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔
ایسے بیانات پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر میں افٖغانستان کے دہشت گرد گروپ کے ملوث ہونے کے سول و ملٹری قیادت کے اتفاق رائے کے بعد سامنے آئے ۔
پاک-افغان سرحدبند کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر جب بھی سرحد بند ہوتی ہے تو دونوں اطراف موجود لوگوں کے لیے معاشی اور سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں، جب کہ موجودہ صورتحال میں مختلف وجوہات کے باعث تاجر پریشانی کا شکار ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک ۔ افغان طورخم گیٹ غیر معینہ مدت کیلئے بند
پاکستان-افغانستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے شریک چیئرمین اور معروف تاجر محمد زبیر موتی والا کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران پاک-افغان تجارت 2.5 بلین ڈالر سے کم ہو کر 1.5 بلین تک پہنچ گئی ہے۔
یاد رہے کہ پاک-افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز دونوں حکومتوں کی جانب سے تسلیم شدہ باڈی ہے اور اس کے ممبران میں دونوں ممالک کے سیکڑوں تاجران شامل ہیں۔
محمد زبیر نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے تاجر مزید نقصان برداشت نہیں کرسکتے، مگر ساتھ ہی ہم اپنے ملک اور عوام کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کی حمایت بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم صرف دونوں حکومتوں کو درخواست کرسکتے ہیں کہ محفوظ تجارت اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ایک میکانزم ترتیب دیا جائے۔
محمد زبیر موتی والا نے بتایا کہ انہوں نے اس معاملے سے متعلق متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں، انہوں نے سب سے پہلے پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر سے ملاقات کی جبکہ انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے سمیت مسئلے کو حل کرنے کے لیے تجاویز پیش کیں۔
یہ خبر 24 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی