• KHI: Fajr 5:53am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:33am Sunrise 7:00am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
  • KHI: Fajr 5:53am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:33am Sunrise 7:00am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am

پاکستان اور افغانستان محاذ آرائی سے گریز کریں، امریکا

شائع February 24, 2017

واشنگٹن: امریکا نے پاکستان اور افغانستان سے کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے گریز کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے پر زور دیا ہے۔

سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ پاکستان اور افغان حکام کے ساتھ امریکی حکام نے ان سے اپنے تنازعات کے حل کیلئے طریقہ کار وضع کرنے کیلئے بھی کہا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت چاہتی ہے کہ دونوں حکومتیں سرحد کے دونوں جانب دہشت گردی کے خلاف مشترکہ آپریشن کی کوششیں کریں۔

افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن نے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو رواں ماہ اس بات کی نشاندہی بھی کی تھی کہ امریکا، افغانستان میں 'پائیدار انسداد دہشت پلیٹ فارم' کا قیام چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حمایت کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں اور وہ دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے افغانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے پاکستانی حکام پر زور دیں گے۔

حال ہی میں واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک میں ہونے والی بات چیت کے دوران کچھ امریکی ماہرین نے زور دیا کہ پاک افغان خطے میں امن کے قیام کیلئے اوباما انتظامیہ کے مقابلے میں ٹرمپ انتظامیہ مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ ان کے پاس اسباب نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ اوباما انتظامیہ کو جنگ بش انتظامیہ کی جانب سے وراثت میں ملی تھی اور انھوں نے ابتدائی عرصے میں اس میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی، جس نے ان کیلئے طالبان سے مذاکرات میں مشکلات پیدا کردیں۔

اس کے علاوہ امریکا کے نئے حکمرانوں نے کابل میں موجودہ سیاسی نظام میں گٹھ جوڑ کے حوالے سے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا، جس کے باعث دونوں مخالفین کے درمیان اتحاد ممکن ہوا، ان میں صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ شامل ہیں۔

ایک ماہر کا کہنا تھا کہ 'یہ بات نئی انتظامیہ کو مزید مدد فراہم کرتی ہے کہ وہ دونوں، طالبان اور کابل حکومت، سے رابطہ قائم کرسکیں'۔

ایک موقع پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق عہدیدار نے اس خطے کے حوالے سے اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے زور دیا۔

عہدیدار نے زور دیا کہ 'طالبان کو ختم کرنا ایک غلطی تھی جیسا کہ یہ مذاکرات کیلئے مشکلات کا باعث ہوا'۔

امریکی عہدیدار نے نشاندہی کی کہ اب جب امریکی انتظامیہ طالبان سے رابطہ کرنا چاہتی ہے تو 'اب مزاحمت کا سامنا ہے، خاص طور پر امریکا میں جہاں لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی حکومت طالبان سے کیوں بات چیت کرنا چاہتی ہے'۔

پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکا کے سابق خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز نے حال ہی میں وائس آف امریکا کو بتایا ہے کہ امریکا ہمیشہ سے طالبان کے ساتھ رابطے کی ضرورت کو جانتا ہے اس لیے انھوں نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو اپنی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا لیکن افغان طالبان کو دہشت گرد قرار نہیں دیا۔

وائس آف امریکا کے مطابق افغان طالبان کے معاملے میں 'اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ گروپ پر دہشت گردی کا لیبل لگانے سے امریکا اور افغان حکومت کیلئے طالبان سے رابطے کرنا مشکل ہوجائے گا اور یہ امن مذاکرات کو مزید مشکل بنا دیتا'۔

جیمز ڈوبنز کا کہنا تھا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کبھی کبھار شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہیں، یہ حادثاتی طور پر نہیں ہوتا اور یہ دہشت گردی کی تعریف ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ کابل کی حکومت طالبان کو دہشت گرد قرار دینے کے عمل کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ وہ 'اُمید کرتے ہیں کہ مذاکراتی عمل کا آغاز کریں گے'۔

انھوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ان پر دہشت گردی کا لیبل اسی صورت میں لگائے گی جب وہ 'طالبان سے رابطے میں مداخلت چاہتے ہوں گے'۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ وہ طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کسی بھی تجویز سے ناواقف ہیں۔

علاوہ ازایں، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے پاکستانی اقدام کی بھرپور حمایت کی۔

پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف حالیہ آپریشن کے آغاز کے حوالے سے امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کے طویل مدتی مفادات کا تحفظ پاکستان کے شدت پسندی کے خلاف جنگ کے اقدامات کی حمایت سے حاصل ہو گا اور اس سے مزید مستحکم، روادار اور جمہوری معاشرہ موجود میں آئے گا'۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ'دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں پاکستان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، امریکا پاکستان کے شہریوں سے طویل اظہار یکجہتی کیلئے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہے'۔

پاکستانی میڈیا رپورٹس یہ تجویز پیش کرتی ہیں کہ پاکستان نے افغان سرحد کے ساتھ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر شیلنگ کی ہے، جبکہ مہمند اور خیبر ایجنسی کے قریب سرحدی علاقوں میں آپریشن پر افغان حکومت کی جانب سے سخت رد عمل پیش کیا گیا ہے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ہم پاکستانی فوج اور عوام کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو بند کرنے اور پاکستانی علاقوں میں، جہاں دہشت گردوں نے کئی سالوں سے محفوظ پناہ گاہیں قائم کررکھیں تھیں، پر حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے کی جانے والی کوششوں اور قربانیوں کا احترام کرتے ہیں'۔

یہ رپورٹ 24 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2024
کارٹون : 24 دسمبر 2024