• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

'سی پیک کے تحفظ کیلئے 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات'

شائع February 21, 2017

اسلام آباد: پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت جاری منصوبوں کے تحفظ کے لیے حکومت نے 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات کیے ہیں جو خصوصی سیکیورٹی ڈویژن (ایس ایس ڈی) اور میری ٹائم سیکیورٹی فورس (ایم ایس ایف) کا حصہ ہوں گے۔

دونوں فورسز صوبوں کے تعاون سے وزارت داخلہ کے ماتحت کام کریں گی، جن کا کام سی پیک کے تحت جاری منصوبوں پر کام کرنے والے مقامی اور غیر ملکیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں کابینہ کے اجلاس کے بعد ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے بتایا کہ 'ایس ایس ڈی وہ فورس ہے جو سی پیک کے تحت جاری 34 منصوبوں کو سیکیورٹی فراہم کرے گی جبکہ ایم ایس ایف گوادر پورٹ اور ملک کے ساحلی علاقوں کی سیکیورٹی کی ذمہ دار ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ ایس ایس ڈی کو گوادر سے گلگت بلتستان تک 6 مختلف زونز میں تعینات کیا گیا ہے جس میں چاروں صوبے اور آزاد جموں اور کشمیر بھی شامل ہے۔

انھوں نے بتایا کہ 'ایس ایس ڈی کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ سی پیک کے تحت جاری منصوبے کے اطراف میں 5 کلومیٹر تک کے علاقے کے تحفظ کی ذمہ دار ہوں گی'۔

اس کے علاوہ ایس ایس ڈی راہداری کے مختلف حصوں پر پیٹرولنگ بھی کرے گی، خاص طور پر جہاں سڑکیں زیر تعمیر ہیں۔

دونوں فورسز، ایس ایس ڈی اور ایم ایس ایف، کو 48 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے سی پیک منصوبے اور اس کے تحت جاری غیر ملکی سرمایہ کاری کے توانائی کے منصوبوں اور دیگر کے تحفظ کیلئے وجود میں لایا گیا ہے۔

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ایس ایس ڈی اور ایم ایس ایف کا قیام ایک سال کے دوران عمل میں لایا گیا ہے اور دونوں ہی فروسز کو جدید جنگی ہتھیاروں، آلات اور گاڑیوں سے لیس کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بیشتر ایس ایس ڈی کے اہلکار حاضر سروس فوجی ہیں'۔

بعد ازاں ایک جاری بیان کے مطابق کمیٹی کو وزارت دفاع، داخلہ اور مواصلات کے سینئر افسران نے بریفنگ دی۔

اجلاس کے شرکاء کو نئی تشکیل دی گئی سیکیورٹی ایجنسی کو درپیش چیلنجز، ان کے کام، اختیارات اور قیام کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

یہ رپورٹ 21 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024