• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

حدیبیہ اور رائے ونڈ ریفرنسز کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش

شائع February 21, 2017

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ایک دہائی قبل دائر ہونے والے دو کرپشن ریفرنسز کا ریکارڈ پیش کردیا۔

نیب کی جانب سے پروسیکیوٹر جنرل وقاص قادر ڈار نے ریفرنسز کی دستاویزات عدالت میں پیش کیں، جبکہ عدالت نے آج نیب کے چیئرمین کو طلب کیا ہے۔

عدالت میں پیش کیے جانے والے ریفرنسز نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کی جانب سے 2000 میں منظور کیے تھے۔

ایک ریفرنس حدیبیہ پیپر ملز اسکینڈل اور دوسرا ریفرنس رائے ونڈ میں شریف خاندان کی غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیف ڈاکٹر محمد ارشد کو منگل کے روز عدالت میں طلب کیا تاکہ وہ پاناما پیپرز سے متعلق ان کے محکموں کی جانب سے عمل میں لائی جانے والی کارروائیوں کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کریں۔

نیب کے چیئرمین سے خصوصی طور پر حدیبیہ پیپر ملز میں ہونے والی منی لانڈرنگ ریفرنس کے حوالے سے تفصیلات پوچھی جائیں گی جس کا آغاز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے بعد 25 اپریل 2000 میں کیا گیا تھا، وفاقی وزیر خزانہ نے اپنے اعترافی بیان میں تسلیم کیا تھا کہ وہ شریف خاندان کے کہنے پر ایک کروڑ 40 لاکھ 86 ہزار ڈالر کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔

تاہم بعد ازاں نیب کے چیئرمین نے گواہ کو معاف کردیا تھا۔

یاد رہے کہ مارچ 2000 میں دائر ہونے والے ابتدائی ریفرنس میں وزیراعظم کا نام شامل نہیں تھا لیکن بعد ازاں حدیبیہ پیپر ملز کے حتمی ریفرنس میں نیب کے چیئرمین خالد مقبول کی منظوری کے بعد نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف، حسین نواز، حمزہ شہباز، شمیم اختر، صبیہا عباس اور مریم نواز کے نام شامل کیے گئے تھے۔

یہ ریفرنس کمپنی کے 64 کروڑ 20 لاکھ اور 74 ہزار روپے کی سرمایہ کاری کے حوالے سے ہے، جس کی تفصیلات کمپنی کے آکاؤنٹس میں موجود نہیں۔

نومبر 1999 میں کمپنی نے اپنے قرضے کا تصفیہ التوفیق کمپنی سے کیا تھا، جس کیلئے 80 لاکھ 70 ہزار ڈالر کی ادائیگی کی گئی تھی جبکہ اس ادائیگی کے ذرائع بھی مشتبہ تھے۔

ریفرنس کے مطابق کمپنی کے 64 کروڑ 20 لاکھ روپے کی مجموعی سرمائے میں اس کا ادا شدہ سرمایہ 9 کروڑ 50 لاکھ تھا، جبکہ کمپنی ہر سال نقصان اٹھا رہی تھی اور 1998 میں یہ حیران کن طور پر 80 کروڑ 90 سے تجاوز کرگیا۔

ریفرنس کے مطابق اس طرح کی صورت حال میں یہ کسی کمپنی کیلئے ممکن نہیں کہ وہ ایسی بڑی سرمایہ کاری کو اپنی جانب متوجہ کرسکے۔

ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے غیر قانونی طور پر فرضی ناموں سے غیر ملکی کرنسی آکاؤنٹس کھلوائے تاکہ دھوکے اور غیر قانونی طریقے سے ناجائز دولت کو اپنے ساتھیوں اور ملازمین کے ناموں سے چھپایا جاسکے۔

رائے ونڈ ریفرنس

لاہور ہائیکورٹ کے ریفری جج جسٹس سردار شمیم نے 11 مارچ 2014 کو رائے ونڈ ریفرنس کی دوبارہ تحقیقات کی اجازت نہ دیتے ہوئے اسے منسوخ کردیا تھا۔

بعد ازاں نیب نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل ایڈووکیٹ نعیم بخاری نے سوال اٹھایا کہ کیا نیب نے شریف خاندان کے خلاف سپریم کورٹ میں مذکورہ ریفرنس کی دوبارہ تحقیقات کیلئے تاخیر سے اپیل دائر کی تھی۔

شمیم اختر اور میاں نواز شریف کے خلاف دائر ہونے والا رائے ونڈ ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ملزمان نے غیر قانونی تعمیرات کیلئے 401 کنال اراضی پر قبضہ کیا تھا۔

ریفرنس کے مطابق یہ تعمیرات 1992 سے 1999 کے درمیان کی گئیں تھیں۔

اس حوالے سے نیسپاک کو ایک سروے کرنے کا کہا گیا تھا تاکہ رائے ونڈ میں شریف خاندان کی جانب سے کی جانے والی غیر قانونی تعمرات کا تخمینہ لگایا جاسکے۔

رپورٹ کے مطابق عمارت اور ڈھانچے کی تعمیر پرہونے والے اخراجات اور سرمایہ کاری کا تخمینہ 24 کروڑ 70 لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ بظاہری نواز شریف نے اپنے اور اپنے بھائی کے گھر کی تعمیر کیلئے 17 کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقم ادائیگی کی۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ 1992 سے 2000 کے درمیان فائل ہونے والے انکم ٹیکس گوشواروں کے مطابق ملزم کی آمدنی 4 کروڑ 10 لاکھ 20 ہزار روپے تھی اور یہ رقم تعمرات پر آنے والے اخراجات سے 20 کروڑ روپے کم تھی۔

جسٹس شمیم کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو تفتیش کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا اور اس کا آغاز اس وقت کیا گیا جب وہ قید میں تھے، جبکہ اس کی دوبارہ تحقیقات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

یہ رپورٹ 21 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024