• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پولیس سیاسی نہیں جمہوری چاہیے

شائع March 24, 2017
لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔
لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

ہمارے دیس میں مجرمانہ روش شدید سے شدید تر ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ کی جانب سے اپنی بے چینی کا اظہار امن و امان قائم کرنے والی تمام فورسز کی اجتماعی آواز ہے۔

1989 میں بطور ان کے کورس کمانڈر ہونے کے ناطے مجھے اپنی تربیت میں رہنے والے اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ، جو کہ اب سندھ پولیس کے انسپیکٹر جنرل ہیں، پر فخر ہے کہ انہوں نے سچ بولنے کی ہمت کی اور 1990 کی دہائی میں ان سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف بہادری کے ساتھ آپریشن کرنے والے پولیس افسران کے انتقامی قتل عام کی طرف دھیان دلاتے ہوئے ارباب اختیار تک بلند آواز کے ساتھ واضح پیغام پہنچایا۔

کوئی بھی اس دور کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی دغا بازی نہیں بھول سکتا جنہوں نے ان نڈر سپاہیوں کو ان وحشت ناک عسکریت پسندوں کے سامنے تنہا چھوڑ دیا جنہیں سیاسی طاقت کے بھوکوں کی پشت پناہی حاصل تھی، وہ بلاروک ٹوک سپاہیوں کو کچلتے رہے۔

یہ بدترین داستان کراچی پولیس کی ادارہ جاتی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ آئی جی سندھ نے ایک بار پھر فورس کے جذبات پر زور دیا اور کہا کہ سندھ پولیس امن و امان کی صورتحال بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ بشرط یہ کہ ان کی پیشہ ورانہ کوششوں میں سیاسی ارادہ بھی شامل کار ہو۔

پولیس میں اصلاحات کے لیے سیاسی ارادے کی کمی کا تذکرہ آئی جی کے دوسرے بیان میں نظر آیا۔ 2011 میں پی پی پی حکومت نے 2002 میں نافذ ہونے والے جدید پولیس قانون کو منسوخ کر دیا اور اس کی جگہ پولیسنگ کے کالونیل کانسٹیبلری ماڈل کو واپس لے آئی۔

یہ اقدام پولیس اصلاحات کے سلسلے کو روکنے کا ایک بدترین اقدام تھا۔ بلوچستان بھی جلد ہی اسی راہ پر گامزن ہوتا گیا اور اس قانون کو متعارف کروا دیا جو 1861 کے پولیس ایکٹ کی کاربن کاپی تھی۔ جبکہ ایگیزیکیٹو میجسٹریسی کو دوبارہ متعارف کرنے جیسی بے پرواہ کوشش کو بہرحال بلوچستان ہائی کورٹ نے ناکام بنا دیا تھا۔

ارسطو کے لفظوں میں کہیں تو، "قانون ایک اصول کی صورت ہوتا ہے؛ اور ایک بہتر قانون کا لازمی طور پر مطلب ایک بہتر اصول ہے۔" اس تناظر میں دیکھیں تو پولیس آرڈر 2002 ایک ایسا قانون ہے جو "موجودہ وقت کی نوعیت کے اعتبار سے موزوں ہے۔" یہ 5 بنیادی نکات پر مشتمل ہے جس کے تحت پولیس "کو آئین، قانون اور لوگوں کی جمہوری جذبات کے مطابق فرائض اور اپنی ڈیوٹی سر انجام دینی ضروری ہے۔"

سب سے پہلا اور اہم مقصد پولیس کو قومی، صوبائی اور ضلعی سطحوں پر پبلک سیفٹی کمیشنز کی صورت میں ادارتی تحفظ دیا جائے تاکہ پولیس پر سیاسی یا بیوروکریسی کے تسلط سے زیادہ جمہوری کنٹرول کو یقینی بنایا جاسکے، یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے غیر جمہوری روایات کے نتیجے میں پورے میں پولیس سروسز سیاسی اور جانبداری کا شکار ہو چکی ہیں۔

جدید قانون کی دوسری خصوصیت وفاقی اور صوبائی سطح پر آزادانہ پولیس شکایتی خود مختیار اداروں کو قائم کر کے پولیس کو بڑی حد تک احتساب کے تابع ادارہ بنانا ہے۔

اس بیرونی نگران میکنیزم کا مقصد پولیس کے غیرجانبدارانہ احتساب کو ممکن بنانا ہے، جو کرپشن، اختیار کا غلط استعمال، تشدد، ناجائز گرفتاریوں، نامناسب تحقیقات اور شہریوں کی ضروریات کو حساسیت سے نہ لینے کے باعث بدنام ہو چکی ہے۔

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ پولیس محکموں کو آپریشنل اور انتظامی خودمختاری دی جائے تاکہ پولیس کے کام میں حد سے زیادہ مداخلت اور غیر متعلقہ اثر و رسوخ صوبائی پولیس سربراہ کے اختیارات کو حکومت کے سیکریٹری کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ختم کیے جا سکیں، مطلب یہ کہ صوبائی پولیس سربراہ کو محمکہ کے سربراہ کے طور پر انتظامی اور مالی طور پر خود مختاری حاصل ہو۔

علاوہ ازیں، قانون سینئر پولیس افسران کی مدت ملازمت کو صوبائی، علاقائی، شہری اور ضلعی سطح پر تحفظ فراہم کرے۔ سزا سے محفوظ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ کی جانب سے انتظامی استحکام اور خودمختاری کو یقینی بنانے والی اس اہم قانونی شرط کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔

اس کی ایک تازہ مثال آئی جی سندھ کو ’جبری’ چھٹی پر بھیجنے کی ایک غیر منصفانہ اقدام کے دوران دیکھنے کو ملی جس کی سول سوسائٹی، میڈیا اور اعلٰی عدلیا کی جانب سے مخالفت کی گئی۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے جو کہ شاید پولیس سربراہان کو اپنی مرضی یا ذاتی رویوں کی بنیاد پر صوابدیدی اختیارات کے خاتمے کی جانب ایک ابتدا ثابت ہو۔

چوتھی بنیادی خصوصیت منصفانہ اور غیر جانبدار تحقیقات کے لیے پولیس کو قانون کا آلہ کار اور عدلیہ کے سامنے تابع تسلیم کرتی ہے۔ تحقیقاتی مراحل میں بڑے پیمانے پر پیشہ ورانہ صلاحیت کے استعمال کو یقینی بنانے اور عدالت میں سے مجرمان کی سزایابی کے لیے سائنسی طریقہ کاروں پر انحصار کے لیے قانون میں فعلی مہارت (فنکشنل اسپیشلائزیشن) کرنے کا جدید نظریہ متعارف کیا گیا ہے۔

اس طرح ان خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں منطقی نتائج حاصل کر پائیں گی جو انسانی حقوق کی بجاآواری اور حسب قانون کے تحت انصاف کے حصول کی خاطر سرکاری وکیلوں کے ساتھ قریبی طور پر کام کرتی ہیں۔

سر جان فیلڈنگ نے 1768 میں اس افسوس کا اظہار کیا تھا کہ "صوابدیدی حکومت کی پولیس ایک جمہوری ملک میں استعمال ہونے والی پولیس سے مختلف ہوتی ہے" اور "اس پولیس کو ماتحتوں کی نام نہاد آزادی، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے قانون اور آئین کے ساتھ لازمی طور پر ہمیشہ موافق ہونا پڑتا ہے۔" انگلینڈ کے 18 ویں صدی کے اس سب سے بڑے مسئلے کا سایہ 21 ویں صدی میں بھی ہمارے اسلامی جمہوریہ میں ابھی تک موجود ہے۔

2002 کے پولیس قانون کی آخری خصوصیت یہ ہے کہ پولیس کو ریاست کے جابرانہ ہتھیار کا تاثر دیے جانے کے بجائے کمیونٹی خدمات انجام دینے والا محمکہ بنانے کی ضرورت ہے۔

پولیس عوامی خدمت کا محکمہ ہے اور صرف آئین اور قانون کے ہی ماتحت ہیں۔ ان کی ذمہ داریاں اور فرائض قانون میں واضح طور پر درج ہیں اور خلاف ورزی کرنے کا نتیجہ تادیبی کارروائی کی صورت میں نکلے گا اور جان بوجھ کر غفلت کرنے کی صورت میں فوجداری استغاثہ کا سامنا کرنے پڑے گا۔

ایک طویل عرصے سے ہماری پولیس آئرش کانسٹیبلری کے چارلس نیپئر کے فوجی ماڈل پر عمل پیرا ہے اور "عوام کی جمہوری خواہشات" کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔

مذکورہ پانچ خصوصیات پولیس آرڈر 2002 کے بنیادی ڈھانچے کو تشکیل دیتی ہیں۔ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ وفاقی حکومت نے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں اس قانون کو نافذ کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ 2014 میں اعلان کردہ قومی داخلی سیکیورٹی پالیسی پر نیشنل پولیس بیورو کے ذریعے نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن یا آزاد پولیس شکایتی خود مختار اداروں کو قائم کیے بغیر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جہاں سندھ اور بلوچستان کالونیل ماڈلز کی جانب واپس پلٹ چکے ہیں وہاں پنجاب حکومت نے بھی جدید پولیس قانون کو سنجیدہ نہیں لیا۔ پنجاب نے نہ تو صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن قائم کی ہے اور نہ پولیس شکایتی اتھارٹی قائم کی ہے، جو کہ یا تو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا پھر گورنر کے ساتھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے منتخب کردہ معیاری تجربہ رکھنے والے 6 ممبران کی مشاورت کے بعد تین سال کی مدت کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی جانب سے منتخب کردہ غیر متنازع ساکھ رکھنے والے ریٹائرڈ آئی جی پولیس کے تحت پولیس کا احتساب کرنے کے لیے مطلوب ہوتی ہے۔

بلاشبہ اس اخبار کے اداریے میں درست طور پر لکھا گیا تھا کہ، پولیس کو ایک ذمہ دار اور جدید ادارہ بنانے کے لیے اس میں اصلاحات کی خاطر کڑوی گولیاں کھانے ضرورت ہے۔ اس غائب دماغی سے ہماری جان کون چھڑوائے گا؟

انگلش میں پڑھیں۔

طارق کھوسہ

لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

ahmak adami Mar 24, 2017 05:30pm
پولیس سیاسی نہیں جمہوری چاہیےThe poice should be professional
عدنان جداکر Mar 25, 2017 11:17am
خیبر پختون خواہ کی پولیس کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا؟؟ کیوں

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024