بیرونی ہاتھ کے ساتھ ساتھ اندرونی اعضاء کو بھی سنبھالنا ہوگا
لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکے کا سنا تو مجھے میرے ایک دوست یاد آگئے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، فیس بک پر میرے ایک دوست نے ایک ویڈیو شیئر کی۔ عام سی ویڈیو تھی۔
کوئی پیر صاحب تھے جن کی آمد پر ان کے مرید بچھے جا رہے تھے۔ کوئی ہاتھ چوم رہا تھا، کوئی پاؤں پکڑ رہا تھا اور کوئی نوٹ نچھاور کر رہا تھا۔ ویڈیو دیکھنے والے تو شاید بہت سارے ہوں گے مگر ویڈیو پر کمنٹ کرنے والے زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہیں اس میں سے شرک کی بو آرہی تھی۔
چلیں اپنا اپنا عقیدہ ہے، ان پیر صاحب کے مریدوں کو حق تھا کہ وہ اپنے عقیدے پر عمل کرتے اور ان کے مخالفین کو حق تھا کہ اس عمل کو غلط سمجھتے۔ لیکن میرا موڈ تب خراب ہوا جب کمنٹ کرنے والوں میں کسی صاحب نے کہہ دیا کہ خود کش حملہ آور کو کسی اور جگہ پھٹنے کے بجائے یہاں پھٹنا چاہیے۔
وہ صاحب ایک سرکاری افسر تھے، ایک مذہبی جماعت کے سرگرم ممبر اور مجھ سے کچھ سال سینیئر۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خودکش دھماکوں کا عفریت ہمارے گلی محلوں تک نہیں پہنچا تھا اور ابھی ہمارے بچے دھماکوں میں مرنا نہیں شروع ہوئے تھے۔
شاید ان صاحب کے لیے خودکش دھماکے کسی ویڈیو گیم کی طرح تھے کہ جس میں دشمن کا ساتھی مارا جائے تو خوشی کی بات ہوتی ہے اور اپنا اگر کھلاڑی مارا جائے تو کچھ لمحوں کی اداسی۔ خون آلود پیرہن، ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اور روتے ہوئے بچے ہمارے صرف ٹی وی ڈراموں یا خبرناموں تک محدود تھے۔
پڑھیے: سندھ کا صوفی کلچر اور سانحہ شکارپور
ایک سرکاری افسر اور انتہائی پڑھے لکھے آدمی کے منہ سے اتنا غیر ذمہ دارانہ جملہ زبان کی لغزش نہیں بلکہ ایک ایسی فرائیڈیئن سلپ تھی جس کے پیچھے ہمارے قومی تحت الشعور کی تیس سال کی الجھنیں چھپی ہوئی تھیں۔
ویسے تو شدت پسندی کے اندھے کنویں میں ہماری چھلانگ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھی مگر اس سفر میں 'پوائنٹ آف نو ریٹرن' ضیاء دور میں آیا جب ریاست کی نظریاتی سرحدوں کی نئے سرے سے حد بندی کی گئی۔
احمدیوں کا غیر مسلم ہونا پاسپورٹ کی دستاویز میں ثبت کر دیا گیا، عیسائیوں کی بستیوں پر آگ لگنے کے واقعات کو تسلسل عطا کیا گیا اور اہلِ تشیع کے لیے ایک ہزار علما کے فتاویٰ پر مبنی ڈیتھ وارنٹ جاری کیا گیا۔
صدیوں سے جاری صوفیانہ اور عارفانہ روایات کو شرک اور بدعت کے کوڑے مارے جانے کی رسم شروع کی گئی۔ دفتروں میں، کالجوں میں، پارٹیوں میں اور ڈرائینگ روموں میں پیری مریدی کے نام پر بننے والے لطیفوں کے پردے میں نشانہ بنایا گیا۔ امن پسندی کی روایات کو ایک تنگ نظر نظام کی قربان گاہ پر چڑھایا گیا، جہاں بلھے شاہ حسنِ مجازی میں بھی حسنِ حقیقی کی رمز ڈھونڈا کرتے تھے، وہاں اب طالع آزماؤں کو بیٹی جیسے رشتے پر بننے والے اشتہاروں میں بھی جسمانی خطوط کے منظر ستانے لگے۔
پروین شاکر نے کہا تھا کہ
ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولیے
میں جانتی تھی پال رہی ہوں سنپولیے
مزید پڑھیے: تعلیم یافتہ دہشتگرد ملک کے لیے بڑا خطرہ؟
افغان جنگ اور آزادیءِ کشمیر کے جھنڈے تلے ہمارے ملک میں سانپوں کی وہ نسل پروان چڑھی جس نے انتہا پسندی کی نئی منزلیں طے کیں۔ جیسے گاؤں کا چوہدری غنڈے پالتا ہے، ہم ان تربیت یافتہ جنگجوؤں کے ذریعے علاقے میں پولیس اور کچہری کی گنجلیں سنبھالتے رہے۔
کیا ہوا جو یہ لوگ دوسرے ملکوں میں بم شم پھاڑتے تھے؟ ہندوستان میں ریلوے اسٹیشن پر مرنے والے لوگوں کی انسانیت نہیں، بلکہ ان کی وطنیت ان کا مرنا حلال کرتی تھی۔ افغانستان میں مزار شریف پر ہونے والا رقص بسمل اس لیے اچھا تھا کیوں کہ اس کے نتیجے میں ہماری ریاست کو تزویراتی گہرائی مل گئی تھی۔ ایران میں مشہد پر ہونے والا دھماکہ قابل قبول تھا اگر اس سے ان کی کوئی رگ ہمارے قابو میں آ سکتی تھی۔
نوّے کی دہای میں لشکرِ جھنگوی نے شیعہ ڈاکٹروں، انجینیئروں اور سرکاری افسروں کو مارنے کی ایک منظم مہم شروع کی۔ ہزاروں کی تعداد میں ملک کے قابل ترین افراد مارے گئے مگر ان کے قتلِ عام کو فرقہ واریت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔
انیس سو اٹھاسی میں گلگت بلتستان میں عسکریت پسندوں نے اپنے شہریوں پر حملہ کیا تو تھپکی دی گئی کہ بچے ہیں، سمجھا لیں گے۔ صفوت غیور جیسے ہونہار ایس پی نے رپورٹ لکھی تو ردی کی ٹوکری میں ڈال دی گئی کہ ملکی مفادات دو چار ہزار لوگوں کے قتل عام سے نہیں بدلتے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد یہ طالع آزما کچھ عرصہ تو ہماری اپنی بٖغلوں میں چھپتے رہے اور کچھ عرصہ مذاکرات کی تہوں میں اپنا مستقبل کھوجتے رہے۔ لیکن جب کچھ بن نہ پایا تو عام مقامات کو نشانہ بنانے پر کمر کس لی۔
جانیے: چوہدری نثار کے خلاف چارج شیٹ
دہشت گرد دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جذباتی قسم ہے جو نعرے لگاتی ہے، تقریریں کرتی ہے، گردنیں کاٹتی ہے، ویڈیو بناتی ہے اور داعش سے شمولیت کا اظہار کرتی ہے۔ ایسی قسم آسان ہوتی ہے۔ یہ عام جگہوں کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے عوام بھی ان کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور مذہبی جماعتوں کی حیلہ سازیوں کے باوجود بھی آپ ان سے لڑ سکتے ہیں، ان کے خلاف فوج اتار سکتے ہیں، ان کو وزیرستان جیسے کسی علاقے میں پابند کر سکتے ہیں۔ عرب، ازبک، چیچن اور کچھ جذباتی پاکستانی قبائلی اسی لیے شروع میں ہی نمایاں ہو کر سامنے آ گئے۔
دہشت گردوں کی ایک دوسری قسم ہوتی ہے۔ جذباتی ہوتی ہے تو بھی نظر نہیں آتی۔ سبین محمود کے قاتلوں کی طرح ہفتوں میٹنگز اٹینڈ کرتی ہے۔ صرف چیدہ چیدہ لوگوں کو مارتی ہے۔ ان لوگوں کو جن کی رائے، جن کا فن، جن کا عمل معاشرے میں اہم ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر ہزار لوگوں کے لیے مثال ہوتا ہے، ایک نعت خوان لاکھوں لوگوں کی دھڑکنیں تیز کرتا ہے، ایک بیوروکریٹ پورے صوبے کے مقدر کے فیصلے کرتا ہے۔ یہ دہشت گرد صرف ان سروں کو کاٹتے ہیں جن کی بنیاد پر کمیونٹیز قائم ہوتی ہیں۔
یہ دہشتگرد اسٹریٹیجک سوچنے والے، کم خرچ میں بالا نشین والے ہوتے ہیں۔ کام کرکے کریڈٹ نہ لینے والے۔ کریڈٹ لینے کا نقصان یہ بھی ہے کہ آپ کی محفوظ جائے پناہ اور تربیتی صوبے میں کھل کے آپریشن ہو سکتا ہے۔ جب ایک بوری کھلی ہوئی ہو تو دوسری بوری کھولنے کا کیا فائدہ؟
کامیاب دہشت گردی ایک ایسی اشتہاری مہم کی طرح ہوتی ہے جو دونوں طریقوں سے اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ تحریکِ طالبان، دولتِ اسلامیہ، لشکرِ جھنگوی اور یہ سارے نام صرف صارف کو یہ تسلی دلانے کے لیے ہیں کہ وہ مختلف چیزیں ہیں، حالانکہ بنیاد ساری ایک ہی ہے، مقصد اس پوری مہم کا ایک ہی ہے۔
جانیے: دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنے کا نسخہ
لاہور کے مظاہروں، کوئٹہ کے بازاروں، ڈیرہ اسماعیل خان کے قبرستانوں، داتا صاحب کے یا لعل شہباز قلندر کے مزاروں میں پھٹتے جاہلوں کا کھرا یقینا کسی بیروتی طاقت تک بھی جاتا ہوگا مگر بدعت اور شرک کے فتوے لگانے والی فیکٹریوں میں، خود کش حملہ آوروں کے لیے بہترین جگہوں کا تعین کرنے والے میں، نعت اور قصیدوں پر ناک چڑھانے والوں میں، اور ہرے طوطوں پر بننے والے لطیفوں پر ہنسنے والوں میں کہیں نہ کہیں آپ کو اس مہم کا جواز بنانے، اسے نظریاتی، مالی یا معاشرتی کمک لگانے والے مل جائیں گے۔
بیرونی ہاتھ کو ضرور کچلیے مگر ان اندرونی اعضا کو بھی سنبھالنا نہ بھولیے جو اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں