• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سیہون دھماکا:ہلاکتیں 80ہوگئیں، دھمال معمول کے مطابق کرنے کا اعلان

شائع February 17, 2017
لال شہباز قلندر کے مزار میں دھماکا دھمال کے دوران ہوا—۔فوٹو/ اے ایف پی
لال شہباز قلندر کے مزار میں دھماکا دھمال کے دوران ہوا—۔فوٹو/ اے ایف پی

سیہون: عقیدت مندوں اور زائرین کی دعاؤں، منتوں اور دھمال کے دوران درگاہ لعل شہباز قلندر میں ہونے والے خوفناک خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 80 تک پہنچ گئی۔

سیہون تعلقہ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) کے مطابق تعلقہ ہسپتال میں موجود 75 لاشوں میں سے 13 کی شناخت اب تک ممکن نہیں ہوسکی اور وہ تاحال ہسپتال میں ہی موجود ہیں تاہم بقیہ میتوں کو شناخت کے بعد لواحقین کے سپرد کردیا گیا۔

ایم ایس محمد معین الدین صدیقی کے مطابق تعلقہ ہسپتال لائی گئی 75 لاشوں میں 55 مرد، 13 عورتیں اور 07 بچے شامل تھے۔

مزید پڑھیں: درگاہ لعل شہباز قلندر میں خودکش دھماکا

دوسری جانب نواب شاہ ہسپتال منتقل گئے زخمیوں میں سے بھی 5 افراد جان کی جازی ہار گئے۔

میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے 210 زخمیوں کو تعلقہ ہسپتال سیہون لایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 80 افراد کی جان نگلنے اور سیکڑوں کو زخمی کرنے والے اس دھماکے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

زائرین زبردستی درگاہ میں داخل

دھماکے کے بعد جائے وقوع پر سخت سیکیورٹی اور پولیس کے پہرے کے باوجود صبح سویرے زائرین کی بڑی تعداد درگاہ کے سیل دروازوں پر آپہنچی اور رکاوٹوں کو توڑ کر اندر داخل ہوگئی۔

جبکہ مشتعل افراد کی بڑی تعداد نے اے ایس پی سیہون کے گھر اور دفتر کا گھیراؤ کرلیا اور وہاں موجود پولیس موبائل کو نذر آتش کردیا، جس کے بعد ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے ہوائی فائرنگ کی گئی۔

دوسری جانب ملک کے مختلف شہروں میں واقع مزاروں کی بھی سیکیورٹی سخت کردی گئی۔

ڈان نیوز کے مطابق لاہور میں بی بی پاک دامن کو تاحکم ثانی بند کردیا گیا، رپورٹس ہیں کہ کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کو بھی عارضی طور پر بند کردیا گیا۔

لعل شہباز قلندر کے مزار پر قائم سخت سیکیورٹی کے باوجود مزار کے سرپرست ڈاکٹر سید مہدی رضا شاہ کا کہنا ہے کہ جمعے کی شام بھی دھمال معمول کے مطابق ہوگا۔

'حملہ آور مرد تھا'

دھماکے کے مقام اور درگاہ کے فرش کو تاحال صاف نہیں کیا گیا اور فرانزک و تحقیقاتی ٹیموں کی جانب سے دھماکے کے مقام سے شواہد اکھٹا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن راجا عمر خطاب کے مطابق ابتدائی انکوائری میں حملہ آور کی نشاندہی کی جاچکی ہے اور وہ کوئی خاتون نہیں بلکہ مرد تھا۔

ڈان نیوز سے گفتگو کے دوران راجا عمر خطاب نے کہا کہ حملہ آور درگاہ میں کس راستے سے اور کب داخل ہوا اس کا پتہ لگانے کے لیے تمام سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج دیکھی جائے گی۔

خیال رہے کہ گذشتہ رات ایس ایس پی جامشورو طارق ولایت نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’خودکش دھماکا درگاہ میں خواتین کے حصے میں ہوا، جبکہ دھماکے کی جگہ سے ملنے والے سر کے خدو خال سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور خاتون تھی۔‘

'کہیں نہ کہیں چُوک ہوئی ہے'

دھماکے کے بعد سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مزار پہنچنے والے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے دھماکے کو 'سیکیورٹی لیپس' قرار دے دیا۔

میڈیا سے گفتگو میں اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ 'مزار میں 50 سے زائد اہلکاروں کی ڈیوٹی ہوتی ہے جبکہ ہر شفٹ میں 30 کے قریب اہلکار یہاں موجود ہوتے ہیں جن کا انچارج انسپکٹر ہوتا ہے۔

آئی جی سندھ کے مطابق، 'کہیں نہ کہیں چوک ہوئی ہے جس کی وجہ سے حملہ آور مزار کے اندر داخل ہوا'۔

3 روزہ سوگ کا علان

دھماکے کے نتیجے میں معصوم جانوں کے ضیاع پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے 3 روزہ سوگ کے اعلان کے بعد سندھ کی تمام اہم عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے۔

خیال رہے کہ دھماکے کے بعد مراد علی شاہ نے درگاہ میں قائم کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا دورہ کیا تھا اور اعلیٰ سطح اجلاس میں اہم ہدایات جاری کی تھیں۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے بھی صوبے بھر میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے زخمیوں اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا بھی اظہار کیا۔

بارودی مواد میں 9 ایم ایم گولیوں کی موجودگی کا انکشاف

بم ڈسپوزل اسکواڈ حکام کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں دھماکے میں استعمال ہونے والے بارودی مواد کی مقدار 7 سے 8 کلو گرام ہوسکتی ہے جبکہ پہلی بار بارودی مواد میں 9 ایم ایم کی گولیوں کے استعمال کا انکشاف بھی سامنے آیا ہے۔

واضح رہے کہ دھماکے کے مقام سے بڑی تعداد میں 9 ایم ایم کی گولیوں کے خول برآمد ہوئے ہیں اور اس حوالے سے مزید انکوائری جاری ہے۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کی آمد

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم نوازشریف, وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ سیہون پہنچے اور دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کی۔

گذشتہ روز لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 'درگاہ لال شہباز قلندر پر حملے کو ترقی پسند پاکستان پر حملہ قرار دیا گیا تھا'۔

دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی سیہون آئے اور ہسپتال میں موجود زخمیوں کی عیادت کی۔

اقوام متحدہ اور امریکا کی مذمت

اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے درگاہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

جبکہ ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سیہون میں مزار پر ہونے والے خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام کے ساتھ ہے اور جنوبی ایشیائی خطے کی سلامتی کے لیے پُرعزم ہے۔

دہشت گردی کی نئی لہر

واضح رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ کے دھماکے سے شروع ہوئی جہاں پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردوں نے خودکش حملہ کرکے 13 افراد کو ہلاک اور 85 کو زخمی کردیا تھا، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کی تھی۔

13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بی ڈی ایس کمانڈر سمیت 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

اس کے بعد 15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری بھی ’جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی۔

15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

خود کش دھماکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعرات 16 فروری کو بلوچستان کے علاقے آواران میں سڑک کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024