فاٹا اصلاحات میں تاخیر: اپوزیشن کا سینیٹ میں احتجاج
اسلام آباد: اپوزیشن اراکین نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں اصلاحات متعارف کرانے میں تاخیر پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے سینیٹ کے اجلاس کی کارروائی سے واک آؤٹ کیا۔
وقفہ سوالات کے فوری بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پارلیمانی لیڈر الیاس احمد بلور نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے حکومت پر سیاسی مصلحتوں کے باعث فاٹا اصلاحات کمیٹی کی تجاویز پر عمل درآمد میں تاخیر کا الزام لگایا، اس کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کررہے ہیں۔
کسی کا نام لیے بغیر اے این پی کے سینیٹر نے الزام لگایا کہ وزیراعظم نے 'ایک شخص' کے دباؤ پر کابینہ کے اجلاس سے فاٹا اصلاحات پیکج کو ایجنڈے سے ہٹایا۔
الیاس بلور نے اصلاحات کمیٹی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے متفقہ طور پر تجاویز کو حتمی شکل دی تھی جس میں قبائلی علاقے کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنانا بھی شامل تھا۔
واک آؤٹ سے قبل خبردار کرتے ہوئے اے این پی رہنما نے کہا کہ 'اگر اس حوالے سے 12 مارچ تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا، تو ہم بتائیں گے کہ دھرنا کیسا ہوتا ہے'۔
اس کے بعد تمام اپوزیشن اراکین نے سینیٹ کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا تاہم کچھ دیر بعد وہ ایوان میں واپس آگئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی کی مخالفت پر حکومت کی جانب سے یہ اقدام کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ فاٹا کے اراکین اسمبلی اور متعدد اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی جانب سے اصلاحات پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں 12 مارچ کو اسلام آباد میں دھرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کے اقدام کی حمایت کرے گی، جہاں ان کی اتحادی حکومت قائم ہے۔
جماعت اسلامی (جے آئی) کے چیف سراج الحق نے کہا کہ حکمرانوں کیلئے یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ فاٹا کے ایک کروڑ افراد کے فائدے کیلئے ایک بڑا قدم لیں، ان کے مطابق وہ قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر کمیٹی بنا کر موجودہ حکومت نے ایک اہم قدم اٹھایا ہے لیکن ساتھ ہی افسوس کا اظہار کیا کہ اب وہ کمیٹی کی تجاویز پر عمل درآمد کرنے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سردار اعظم موشوخیل کا کہنا تھا کہ فاٹا کے عوام کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا اتحادی ہونے کے باوجود وہ حکومت پر تنقید کے حوال سے جانے جاتے ہیں تاہم انھوں نے سینیٹ کی کارروائی کے دوران اپوزیشن سے بحث نہیں کی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ یہ مسئلہ حساس نوعیت کا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں قومی اسمبلی میں فاٹا اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے فاٹا اصلاحات پیکج کو کابینہ کے ایجنڈے سے نکالنے پر ایوان میں سخت احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے اسے انتہائی افسوس ناک پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں فیصلے کے بعد فاٹا اصلاحات کا پیکج کابینہ کو یہ سوچتے ہوئے بھجوایا گیا تھا حکومت اس مسئلے پر بامعنی پیش رفت کرے گی۔
انھوں نے کہا تھا کہ 'یہ واضح ہوچکا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، جو ابتدا میں فاٹا اصلاحات کی حمایت کررہے تھے، اب اس کی حوصلہ افزائی نہیں کررہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر اصلاحات کا پیکج منظور ہوجاتا ہے تو یہ ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی'۔
تاہم گذشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ فاٹا اصلاحات پیکج کابینہ کے آئندہ ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے فاٹا کے عوام کو بااختیار بنانے کیلئے اتفاق رائے قائم کرنے کیلئے پہل کی ہے اور یہ ان کی ہدایت پر کیا گیا ہے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جاسکے۔
نواز شریف نے ان رپورٹس کی تردید کی جن میں کہا جارہا تھا کہ ان پر کچھ جماعتوں کے دباؤ ہے، وزیراعظم نے انھیں افواہیں قرار دیا۔
آصف علی زرداری کی تشویش
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز (پی پی پی پی) کے چیف آصف علی زرداری نے ان رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے جن کے مطابق حکومت نے فاٹا اصلاحات کی تجاویز کو ملتوی کردیا ہے اور ساتھ ہی قبائلیوں کو ملک کے دیگر شہریوں کے برابر حقوق دینے کیلئے ان اصلاحات پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
سابق صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ 'عرصہ گراز سے قبائلی علاقوں کے محب وطن افراد کے ساتھ نو آبادیاتی قوانین کے تحت برا سلوک روا رکھا گیا اور انھیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا، یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ آئین قبائلی علاقوں کو پاکستان کا حصہ قرار دیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ آئین ان کے بنیادی سیاسی حقوق دینے سے روکتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ناانصافی کو روک کر قبائلی علاقوں کے عوام کو ملک کے دیگر عوام کی طرح برابر کے حقوق دیے جانے چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں ریفرنڈم کے مطالبے سے سوائے تاخیر کے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور یہ ممکنہ طور پر اصلاحات کے عمل کا رخ تبدیل کردے گا۔
آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ بے گھر خاندانوں کی دوبارہ آباد کاری کے ساتھ قبائلی علاقوں کے حوالے سے صدر کو حاصل اختیارات بھی پارلیمنٹ کو منتقل کیے جائیں، انھیں خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی دی جائے، انھیں سپریم کورٹ کے دائرے اختیار میں لایا جائے، کالے قوانین کا خاتمہ کیا جائے اور مقامی حکومتوں کے براہ راست انتخاب سے یہاں کے لوگوں کو با اختیار بنایا جائے۔
سابق صدر نے ایف سی آر کی جگہ مجوزہ ریواج ایکٹ اور ایگزیکٹو آرڈر کی جگہ بلدیاتی قوانین پارلیمنٹ میں متعارف کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔
انھوں نے اصلاحات کی مخالفت کرنے والے سیاسی رہنما سے اپنے موقف پر نظرثانی کی اپیل کی اور پی پی پی رہنماؤں کو مذاکرات کے ذریعے اصلاحات پر اتفاق قائم کرنے کو کہا۔