شناخت اور ثقافت کی عکاس 'اجرک' کے کاریگر
سندھ ثقافت کے حوالے سے گونا گونیت کا مالک ہے۔ لباس سے لے کر اوڑھنے بچھونے تک اس خطے کے ہزاروں رنگ ہیں جو دل کو ہمیشہ لبھاتے رہتے ہیں۔ سندھی ثقافت کا ایک اہم ترین حصہ اجرک بھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ موئن جو دڑو سے ملنے والے پروہت کی زیب تن کی ہوئی چادر بھی اجرک کی ہی ایک قسم ہے، اس حساب سے ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ اجرک موئن جو دڑو کے دور میں بھی استعمال کی جاتی تھی اور اس کا ڈیزائن آج کے دور میں تیار کی جانی والی "ککر والی اجرک" سے ملتا جلتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق موئن جو دڑو کے پروہت روز صبح نہانے کے بعد ایک قسم کی چادر اوڑھا کرتے تھے۔ ایک روز انہیں اجرک پہننے کو ملی جو کہ انہیں بے حد اچھی لگی، بس پھر تب سے وہ اجرک استعمال کرنے لگے۔ عربی زبان میں اسے ازرق کہا جاتا ہے جس کے معنیٰ نیلا رنگ ہے۔
یہ ایک قسم کی رنگین اور نقوش والی چادر ہے، جسے سندھ میں کاندھوں پر اور پگڑی باندھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں انڈیگو رنگ (نیل) نمایاں ہوتا ہے۔
سندھ میں اجرک، ماتلی، ٹنڈو محمد خان، مٹیاری، کھیبر، ہالا، بھٹ شاہ اور سیکھاٹ میں تیار کی جاتی ہے۔ ایک روز میں نے اجرک تیار کرنے والے مزدوروں سے ملنے کے لیے بھٹ شاہ کا رخ کر لیا، جسے شاہ لطیف کی نگری بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں بہترین اقسام کی اجرک تیار کی جاتی ہے جو سندھ سمیت پورے ملک میں فروخت کی جاتی ہے۔
مختلف رنگوں سے سجی اس حسین چادر کو تیار کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس کی تیاری میں نہ صرف بہت زیادہ محنت بلکہ صبر اور حوصلہ بھی درکار ہے۔ اجرک کی تیاری کے 16 مراحل ہیں۔ ان تمام مراحل سے گزر کر ایک اجرک تیار ہو کر ہمارے ہاتھوں میں پہنچتی ہے۔
عبدالعزیز سومرو تین نسلوں سے یہ کام کرتے آ رہے ہیں۔ بھٹ شاہ میں ان کی ایک چھوٹی سی دکان ہے جہاں وہ سالوں سے اجرک تیار کرتے آ رہے ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو اس وقت بھی وہ اجرک کی تیاری میں مصروف تھے اور ٹھپوں سے اجرک کے ابتدائی مرحلے پر کام کر رہے تھے۔ نیلے رنگ میں ڈوبے ہوئے ان کے ہاتھ اور ناخن اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ان کا کام کس قدر کٹھن ہے، ان کے ہاتھوں پر نہ جانے کتنے برسوں کے رنگ نقش تھے۔
“سائیں ہم کئی پشتوں سے اس کام کو کرتے آ رہے ہیں، مگر اب کام میں پہلے جیسا مزہ نہیں رہا ہے۔” اس نے اجرک پر نقوش بنانے والے ٹھپے کو تھوڑی دیر روکتے ہوئے کہا۔
“میں سمجھا نہیں، آج بھی اجرک کی بہت اچھی خاصی مارکیٹ ہے اور سندھ میں اجرک کی کھپت بھی بہت زیادہ ہے۔ وہاں آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا یہ فن ماند پڑ گیا ہے۔”
“دیکھیں نہ پہلے کی بات اور تھی، تب سستا زمانہ تھا۔ اب ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ اجرک میں صرف رنگ ہی استعمال نہیں ہوتے ہیں بلکہ اور چیزیں بھی استعمال ہوتی ہیں، جو کہ بہت مہنگی ہیں۔” وہ پھر سے ٹھپوں کو برق رفتاری سے اجرک کے کپڑے پر لگانے میں جُت گیا۔
میں ان تمام باتوں سے انجان تھا، مجھے لگتا تھا کہ اجرک صرف رنگوں کا امتزاج ہوتی ہے اور اس میں رنگوں کی آمیزش شامل کر کے اسے تیار کر لیا جاتا ہے۔ مگر عبدالعزیز کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اجرک کی تیاری میں گڑ، مصری، گوند، کیسو پھول، نیل، اونٹ کی لید، تیل، پھٹکری اور دیگر مصالحے استعمال کیے جاتے ہیں۔
“وہ چیزیں جنہیں ہم اجرک کی تیاری میں استعمال کرتے ہیں وہ کافی مہنگی ملتی ہیں، ہم مصری کے بجائے گڑ استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں سستا پڑتا ہے مگر اجرک کے اچھے رنگ کے لیے مصری کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔” اس نے پھر اپنے ہاتھ روک لیے اور مجھے اجرک کے بارے میں معلومات فراہم کرنے لگا۔
“تو پھر اس سے اجرک کی چھپائی بھی متاثر ہوتی ہوگی، آپ اس کی تیاری میں خالص چیزوں کو استعمال جو نہیں کرتے۔” میں نے کہا۔
“ہاں ظاہر ہے کہ کچھ تو فرق پڑتا ہے، مگر آپ دیکھ سکتے ہیں یہاں پر اجرک کا کوئی کارخانہ یا ورکشاپ نہیں ہے، اس لیے ہمیں اپنی مدد آپ تحت کام کرنا پڑتا ہے۔ اس حال میں ہمارے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ ہم ان تمام چیزوں پر خرچ کر سکیں۔ “
رنگوں کے حساب سے ایک اجرک میں زیادہ تر چار رنگ رنگے ہوتے ہیں۔ جن میں سفید، کالا، سرخ اور نیلا رنگ شامل ہے۔ جبکہ کہیں پر نیلا اور کالا رنگ نہیں استعمال کیا جاتا، اس میں بنے ہوئے پھول سفید ہوتے ہیں، جبکہ باقی نقوش کالے ہوتے ہیں۔
جس ٹھپے سے اجرک کی گلکاری کی جاتی ہے اسے سندھی میں “پور” کہا جاتا ہے۔ یہ پور آٹھ سو سے دو ہزار میں تیار ہوتا ہے۔ اس کے بنا اجرک کی تیاری ممکن نہیں ہے۔ پور کی کئی اقسام ہیں۔ جن میں چکی، چھانبھ، چھلو، عشق پیچ، موتین جڑیو، گڈڑی، چودان، ککر، مہران، قلمدان، کاشی، ونگو، بادام، ڈاڑھوں، جلیب، گل، ڈسکو، فور اسٹار، نارو، وٹ ہانشو، بری، کھارک، مداخل، بوٹو، ریال اور غالیچو وغیرہ شامل ہیں۔ آج یہ ٹھپے لکڑی سے تیار کیے جاتے ہیں مگر کسی زمانے میں یہ مٹی سے بنائے جاتے تھے۔
حاجی وکیو اجرک کے شاہ کاریگر مانے جاتے تھے، انہوں نے مٹی کے ٹھپوں سے کام کیا۔ جبکہ گل محمد سومرو، سیکھاٹ کے حاجی صلاح کٹھی سومرو اور ماتلی کے محمد حسن مشہور کاریگر مانے جاتے تھے۔ اجرک کی اقسام میں ککر، دبلی، بادام، حاشیو، ول، کھارک، مداخل، ریال مہر، سرکاری یا چھلو وغیرہ شامل ہیں۔
جیسا کہ ایک اجرک 16 مراحل سے گزر کر تیار ہوتی ہے، اس میں پہلے کپڑا لیا جاتا ہے، پھر اسے کاٹ کر سوڈا میں بھگو دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو مرحلہ آتا ہے، اسے 'کھنب' کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے پھر دھویا جاتا ہے۔ جس کے بعد ایک محلول تیار کر کے اس میں صابن، کڑوا تیل شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ آتا ہے جسے 'کسائی' کہا جاتا ہے۔
کسائی میں صابن، تیل اور سوکھے لیموں میں سے ایک محلول تیار کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد چھپائی کا مرحلا آتا ہے۔ مگر اس سے قبل ایک اور مرحلہ بھی ہے جسے 'چھر' کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد کٹ کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے بعد 'کھڑ' کا کام کیا جاتا ہے۔ اور پھر اگلا مرحلہ آتا ہے جسے سندھی میں 'پڑو کن' کہا جاتا ہے۔ جو کہ بھگونے کا ہی عمل ہوتا ہے۔
پھر اسے رنگ دیا جاتا ہے۔ رنگنے کے بعد 'مینا' کا مرحلہ آتا ہے۔ مینا کے مرحلے میں اس پر پھر چھر کی جاتی ہے۔ اسی اجرک کو بٹھی میں تیار کیے گئے، ایک محلول میں بھی بھگویا جاتا ہے۔ اس میں پیتل کا برتن استعمال کیا جاتا ہے، جس سے اس کے رنگ برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ آخر میں اسی اجرک کو انڈیگو یعنی نیل میں بھگویا جاتا ہے۔ پانچ میٹر کی تیار ہونے والی ایک اجرک کی دونوں جانب پانچ ہزار سے نو ہزار تک ٹھپے لگائے جاتے ہیں۔
اجرک کے بھگونے کا عمل کافی دلچسپ ہے۔ اس کے لیے خاص طور پر اس پانی کا انتخاب کیا جاتا ہے جو کہ بہتا ہوا نہ ہو۔ جیسے کسی تالاب کا پانی ہو۔ اسی پانی میں اجرک کو بھگونے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا پانی کسی تالاب میں میسر نہ ہو تو کسی جوہڑ کو بھی اس کام کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اجرک کے بہتر نتائج کے لیے 28 سے 30 دن انتظار کیا جاتا ہے۔
عبدالعزیز جیسے کاریگروں کے لیے یہ ایک ایسا روزگار ہے جس کے بنا اب ان کا گزارا ممکن نہیں ہے۔
“میں اس حالت میں اس کام سے مطمئن تو نہیں ہوں مگر اب اس عمر میں مجھ سے اور کوئی کام نہیں ہوتا ہے اس لیے اس کام کو ہی جاری رکھنا ہے۔ مگر اجرت بہت کم ملتی ہے۔” عبدالعزیز نے کہا ان کے ہاتھ ان ٹھیکیداروں نے باندھ رکھے ہیں جو کہ ان سے آرڈر پر مال تیار کرواتے ہیں۔ اگر وہ بیس اجرک تیار کرتے ہیں تو انہیں اس کے صرف آٹھ سو روپے ملتے ہیں۔ جبکہ ایک اجرک ہی ہزار روپے میں بکتی ہے۔ ایک مزدور کو یومیہ پانچ سو روپے ملتے ہیں اور ایک دن میں 25 سے 30 اجرک تیار ہو جاتی ہیں۔
آج اجرک مشین پر بھی تیار کی جاتی ہے مگر ہاتھ سے تیار کی جانے والی اجرک زیادہ خوش رنگ اور خوبصورت مانی جاتی ہے۔ مشینی اجرک کی تیاری کی وجہ سے بھی ہاتھ کے کاریگروں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے۔ اجرک کی صنعت کے زوال کو محسوس کرتے ہوئے عبدالعزیز جیسے کاریگروں نے اس میں جدت پیدا کی ہے۔
اب اجرک والے کپڑے بھی تیار کیے جاتے ہیں، جوکہ اب عام استعمال میں آچکے ہیں۔ ان کپڑوں کے الگ الگ نقش و نگار ہوتے ہیں اور بہت سی اقسام بھی ہیں۔ یہ جدت آنے والے وقتوں میں ایک نئے رنگ کے ساتھ ان کاریگروں کا تعارف بن جائے گی۔
کسی زمانے میں صرف ٹھٹھہ میں سینکڑوں اجرک کے کارخانے ہوا کرتے تھے مگر اب سندھ میں یہ کاروبار دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
ان کاریگروں کا بس اتنا مطالبہ ہے کہ اجرک سازی کو صنعتی شکل دی جائے تاکہ یہ کسی ٹھیکیدار کے محتاج نہ ہوں۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب اس فن کی قدر کی جائے۔ ان ہاتھوں کی محنت کو محسوس کیا جائے جو دن رات ایک ایسی پوشاک تیار کر رہے ہیں جو ہماری پہچان ، شناخت اور ثقافت کا حصہ ہے۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (7) بند ہیں