کراچی ادبی میلے کی غیر ادبی کہانی
پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی کے تحت 8 برس سے "کراچی لٹریچر فیسٹیول" کاانعقاد کیا جا رہا ہے۔ رواں برس بھی یہ ادبی میلہ منعقد ہوا۔
اس میلے کے ابتدائی کچھ سال بہت اچھے تھے، مگر ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کے معیار میں بڑی تیزی سے تنزلی واقع ہوئی ہے اور یہ بتدریج ایک تجارتی (کمرشل) سرگرمی کا روپ دھار چکا ہے جس میں 'ادب کا فروغ' خال خال ہی نظر آتا ہے۔
فیسٹیول انتظامیہ کے دیے گئے کتابچے میں درج فخریہ معلومات اور بعد میں جاری کی جانے والی پریس ریلیز کے مطابق خلاصہ یہ ہے "پہلی مرتبہ جب یہ میلہ منعقد کیا گیا تھا، تب اس میں شرکا کی تعداد پانچ سے دس ہزار تک تھی، آٹھویں برس تک آتے آتے وہ دو لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے، پاکستان میں ادب سے محبت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔"
فیسٹیول انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی اور بین الاقوامی قلم کاروں کے ساتھ مل کر مطالعے کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، اور فرانسیسی سفارت خانوں کی معاونت بھی حاصل ہے۔
برطانیہ کے اپنے ذیلی ادارے بشمول بی بی سی اردو سروس اور برٹش کونسل بھی مددگار ہیں۔ تشہیر کے تناظرمیں امدادی کمک کے طور پر پاکستان کے تمام بڑے ٹیلی وژن اور اخبارات بھی شامل ہیں۔
حیرت کا مقام دیکھیے، ان تمام وسائل کے باوجود بھی رواں برس کراچی لٹریچر فیسٹیول کو مغرب سے ایک بھی 'خالص ادیب' میسر نہ آسکا، جبکہ دوسری طرف فیسٹیول انتظامیہ نے ہی اپنے کتابچے میں یہ خبر دی ہے کہ قیام پاکستان کے 70 برس مکمل ہونے پر لندن میں بھی کراچی لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا۔
جے پور لٹریچر فیسٹیول میں آخری برس میں مدر انڈیا جیسی فلم کو موضوع بنایا گیا۔ فلم ساز کرن جوہر نے جعلی جمہوریت اور مصنوعی آزادیءِ اظہارِ رائے پر روشنی ڈالی۔
کیا کراچی لٹریچر فیسٹیول میں پاکستان میں گزشتہ برس پابندی کا شکار ہونے والی فلم مالک موضوع نہیں بن سکتی تھی؟ جے پور فلمی میلے سمیت دیگر کئی فلمی میلوں کاحصہ بننے والی آسکر کے لیے نامزد فلم ماہِ میر کراچی لٹریچر فیسٹیول کا موضوع نہیں ہوسکتا تھا؟
فیسٹیول انتظامیہ کے تعارفی کتابچے کے مطابق، رواں برس 194 شخصیات فیسٹیول میں بحیثیت اسکالر اور فنکار حصہ تھیں، مگر کوئی ایک بھی فکشن نگار یعنی ناول ، افسانہ یا کہانی لکھنے والا مغربی ادیب نہیں تھا۔ کل 24 غیر ملکی شخصیات کا تعارف کتابچے میں شامل ہے، جس میں سے ایک تو بنگلہ دیشی اداکارہ شبنم ہیں، ان کے بعد دس تو صرف انڈین ہیں۔
پاکستانی اداکار فواد خان اور ماہرہ خان، دونوں اپنی حال ہی میں ریلیز ہونے والی انڈین فلموں کی تشہیر تک کے لیے انڈیا نہ جاسکے۔ ماضی قریب میں دو پاکستانی سفارت کار، جن کی پوسٹنگ انڈیا میں ہی تھی، وہ جے پورلٹریچر فیسٹیول میں جانا چاہتے تھے مگر انہیں انڈین حکومت سے اجازت نہ ملی، مگر یہاں پاکستان میں کئی ہندوستانی افراد نے شرکت کی۔
یہ پاکستانی اداروں کی جانب سے جذبہءِ خیر سگالی کے تحت ایک مثبت اقدام تھا، مگر اس کا جواب ہندوستانی ہائی کمشنر نے کس طرح دیا؟ آئے دیکھتے ہیں۔
ہندوستانی ہائی کمشنر گوتم بھمباوالے نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کے پہلے روز سفارت کاروں والے سیشن میں پاکستانیوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی نصیحت کرتے ہوئے باور کروایا کہ انڈیا تو ہمارا دوست بننا چاہتا ہے مگر ہمیں دہشت گردی کی سرپرستی ختم کرنا ہوگی۔ اگلے ہی دن ہندوستان میں یہ خبر ہندوستان ٹائمز سمیت متعدد اخبارات کی زینت بن گئی۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال معروف ہندوستانی صحافی برکھا دت بھی کراچی لٹریچر فیسٹیول میں اس طرح کے تند و تیز بیانات دے کر گئی تھیں جبکہ اس سال ہندوستانی ہائی کمشنر یہ بیان داغ گئے۔ یہ معمول بنتا جا رہا ہے جس پر فیسٹیول انتظامیہ کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انڈینز کے بعد باقی بچے 14 غیر ملکی، تو اس میں اسکالرز کے علاوہ پاکستان میں مقیم سفارت کاروں سمیت ملا کر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نان فکشن کے کچھ قلم کاروں کی ہے۔
لطف کی بات یہ ہے، پاکستان اور دیارِ غیر میں مقیم اردو اور انگریزی زبان کے پاکستانی اسکالرز کی تعداد کو بھی جمع کیا جائے تو فیسٹیول کے 194 میں سے بمشکل 50 نام ایسے ہیں، جن کو خالص ادیب و شاعر کہا جاسکتا ہے۔
فیسٹیول میں منعقد ہونے والے مشاعرے میں برسوں سے مخصوص شعراء کے نام دکھائی دیتے ہیں، اس سے فیسٹیول انتظامیہ کی ذہنی حالت اور جمود کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ان بیس پچیس شعراء کے علاوہ 8 برسوں میں کسی نے شاعری نہیں کی؟ یا ان سے پہلے کوئی شاعر نہیں ہے؟ جواب سب جانتے ہیں۔
آٹھویں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں لٹریچر کتنا تھا، رواں برس کے عنوانات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ معاشی و معاشرتی مسائل، سیاسیات، قانون، پالیسی سازی وغیرہ جیسے موضوعات کی اہمیت سے انکار نہیں ہے، مگر پہلی بات تو یہ کہ ادبی میلے میں اس طرح کے موضوعات کی تعداد کم اور ادبی موضوعات کی تعداد غالب ہونی چاہیے، اور دوسرا یہ کہ ان موضوعات کا انتخاب کرتے ہوئے قومی اہمیت و مفاد کے کئی مسائل نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ جیسا کہ میں اپنے پچھلے بلاگز میں بھی ذکر کر چکا ہوں، موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے ایسے افراد کو بطور ثالث مدعو کیا جاتا ہے جس کا یا تو اس موضوع سے بالواسطہ تعلق ہوتا ہے، یا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
اس کی مزید تفصیل جاننی ہو تو پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور پاکستان میں پہلی انگریزی فلم بنانے والے فلم ساز جاوید جبار کا مدیرِ ڈان کو لکھا گیا یہ خط ملاحظہ کیجیے جس میں وہ کراچی لٹریچر فیسٹیول 2015 کا انہی وجوہات کی بناء پر بائیکاٹ کر چکے۔
معروف مدرس اور ماہرِ لسانیات ڈاکٹر رؤف پاریکھ سے بھی پوچھا جاسکتا ہے، جو اوکسفرڈیونیورسٹی پریس ، کراچی سے منسلک ہونے کے باوجود آج تک کسی سال بھی کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شریک نہیں ہوئے۔
ان دوشخصیات کے علاوہ بھی کئی ادبی شخصیات خاموش ہیں۔ پاکستان کے انگریزی ادب کی ایک نئی آواز، ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی، فاطمہ بھٹو دنیا بھر کے ادبی میلوں میں شریک ہوتی ہیں۔ وہ فکشن نگار ہیں مگر نان فکشن موضوعات پر عالمی اخبارات کے ادارتی صفحات کا حصہ بنتی رہی ہیں۔ 8 برسوں میں ان کا تذکرہ بھی ندارد ہے۔ وہ بھی کراچی سے تعلق رکھتی ہیں۔
نئی آوازوں کی تلاش میں بھی اتنی عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایک ناول نگار، جو ہمارے دوست اور بہت اچھے شاعر ہیں، مگر ابھی ان کا پہلا ناول، جو کتابی شکل میں شایع بھی نہیں ہوا، ان کو اسی برس نئی آوازوں میں شمار کر کے ناول نگار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔
اسی شہر میں متعدد نئی اور کئی ایک معروف آوازیں بھی ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ اور کئی اچھے ناول لکھے، مگر وہ ابھی تک پہچانے نہیں گئے۔
اس شہر کے لوگ سماجی سرگرمیوں کے لیے ترستے ہیں، دو لاکھ کیا اگلے چند سالوں میں دس لاکھ لوگ بھی یہاں آئیں گے، مگر منتظمین کو اس کی کامیابی کا پیمانہ لوگوں کی آمد کو نہیں بنانا چاہیے بلکہ اس کا معیار قائم رکھنا چاہیے تاکہ بھلے چند ہزار لوگ آئیں مگر متاثر ہو کر جائیں۔
مگر کراچی لٹریچر فیسٹیول میں سال در سال انہی غلطیوں کا دہرایا جانا اور اسی روش پر قائم رہنا اس بات کا غماز ہے کہ آنے والے سالوں میں بھی اس کے معیار میں تنزلی واقع ہوگی، ترقی نہیں۔
ادب سے لگاؤ رکھنے والے اور بالخصوص وہ لوگ جو اس ادبی سرگرمی کو اپنے شہر کی پہچان سمجھنے لگے تھے، ان کے لیے شاید اگلا فیسٹیول بھی مایوسی کا پیغام لائے۔
تبصرے (2) بند ہیں