پاکستان اپنا تجارتی خسارہ کیسے کم کر سکتا ہے؟
اس وقت پاکستان کے بارے میں ہر طرف بہت کچھ اچھا لکھا جا رہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پاکستانی معیشت میں ہونے والی تبدیلی اور بہتری کے ساتھ ساتھ ملک میں قائم ہونے والے مثالی امن کو بھی سراہ رہے ہیں اور یہ ایک بڑی حد تک درست بھی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ، افراط زر اور شرحِ سود کی کم ترین شرح اور دیگر میکرو اکنامک اعشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔
مگر ایسے میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر رواں کھاتوں کے بڑھتے خسارے کا سامنا ہے جس کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو مشکلات ایک مرتبہ پھر سر پر آن کھڑی ہوں گی۔ پاکستان میں معیشت کو جس سب سے بڑے بحران کا سامنا رہا ہے وہ ہے بیرونی ادائیگیوں اور آمدنی میں توازن قائم کرنا، جس کو معیشت کی زبان میں رواں کھاتوں کا خسارہ کہا جاتا ہے۔
اس خسارے نے پاکستانی معیشت کو ہمیشہ بحران کا شکار رکھا ہے۔ گزشتہ حکومت کے اختتام اور الیکشن کے بعد نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے وقت عالمی ذرائع ابلاغ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ وہ ایسے غلط بھی نہ تھے کیوں کہ اگر سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر تحفہ اور چین سے فوری طور پر 50 کروڑ ڈالر قرض کی سہولت نہ ملتی تو پاکستان یقیناً عالمی ادائیگیوں سے قاصر رہتا اور دیوالیہ قرار پاتا۔
رواں کھاتوں کا توازن ہے کیا اور اس کے خسارے سے کیا مراد ہے؟ آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کو واضح کرنا بہتر ہوگا۔
پاکستان دنیا بھر میں لین دین کرتا ہے، کاروبار کے علاوہ مختلف عالمی مالیاتی اداروں جیسے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور دیگر مالی اداروں سے قرض بھی لیتا ہے۔ بین الاقوامی لین دین پاکستانی کرنسی کے بجائے ڈالر میں ہوتے ہیں، اس لیے ہر ملک کو ڈالر کمانے اور خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
پاکستان کے پاس زرمبادلہ کمانے کے دو بڑے ذریعے ہیں، سب سے پہلا ہے برآمدات اور دوسرا ہے سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات، جبکہ بیرونی ادائیگیوں کے لیے پاکستان کو درآمدات، اور عالمی اداروں سے لیے گئے قرض کی ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں۔
جب پاکستان کی زرمبادلہ میں آمدنی (برآمدات + ترسیلات) زرمبادلہ کے اخراجات (درآمدات + بیرونی قرضوں کی ادائیگی) سے کم ہو جائے تو اس کو رواں کھاتوں کا خسارہ کہتے ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے پاکستان ایک بڑا زرمبادلہ ذخیرہ رکھتا ہے۔
اگر پاکستان کے زرمبادلہ کا ذخیرہ اس قدر کم ہو جائے کہ وہ رواں کھاتوں کے خسارے کو پورا نہ کر سکے تو اس صورتحال میں ملک کے دیوالیہ یا ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ سال 2013 میں پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ ایسے میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) یا دیگر اداروں اور ممالک سے کڑی شرائط پر قرض لینا پڑتا ہے۔
بعض اوقات تو قرض واپس کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑ جاتا ہے۔ اگر عالمی ادارے قرض دینے سے معذرت کر لیں تو ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا مگر لاطینی امریکا کا ملک ارجنٹینا دو مرتبہ عالمی سطح پر ڈیفالٹ قرار دیا جا چکا ہے۔
اس سے ظاہر ہوا کہ پاکستان کو رواں کھاتوں کے خسارے کو کم سے کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمانے کی ضرورت ہے۔ مگر طویل عرصے سے اس حوالے سے کیے گئے اقدامات کے خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس حوالے سے کرپشن اور لوٹی گئی رقوم کی اسمگلنگ (ماڈل ایان علی کیس)، اشیائے تعیش کی درآمد، اور ایسی ضروری اشیاء جو مقامی پیداوار کے ذریعے درآمدی فہرست سے ہٹائی جاسکتی ہوں ان کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پڑھیے: معیشت پر بھاری 'چائنہ کا مال'
زرمبادلہ ذخائر کا انتظام، رواں کھاتوں کے خسارے کو کم کرنا، ترسیلات زر، روپے کی شرح تبادلہ اور دیگر میکرو اکنامک انتظامات بہتر طریقے سے چلانے کی ذمہ داری اسٹیٹ بینک کی ہے۔
اس حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک نے چند دن قبل مانیٹری پالیسی پر میڈیا بریفنگ منعقد کی۔ اس بریفنگ میں بھی گورنر اسٹیٹ بینک یہی کہتے رہے کہ معیشت میں سب اچھا ہے۔ جبکہ صحافی ان سے گرتی ہوئی برآمدات اور ترسیلات، پاکستان ریمیٹنس انیشیئٹیو کی کارکردگی، بڑھتی ہوئی درآمدات، زرمبادلہ ذخائر میں ہونے والی کمی پر اسی طرح تابڑ توڑ سوالات کرتے رہے جیسا کہ یکم اکتوبر 2016 کے بلاگ میں تحریر کیا گیا ہے۔ مگر تمام تر سوالات کا جواب اعداد و شمار اور اقدامات کے بجائے سب اچھا ہے کی صورت میں ملتا رہا۔
پاکستان کس طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور رواں کھاتوں کے خسارے کو کم کرسکتا ہے؟ اس حوالے سے چند تجاویز گوش گزار ہیں۔
درآمدات کوکم کرنے کی پالیسی
پاکستان کے پالیسی سازوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ برآمدات کے بڑھانے پر مسلسل توجہ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ٹیکسٹائل کے برآمدی شعبے کو 180 ارب روپے کا پیکج دیا ہے، جو کہ ایک اچھی بات بھی ہے، مگر معیشت میں رواں کھاتوں کے خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کے لیے اس سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔
پاکستانی معیشت کے اعداد و شمار پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان جس قدر برآمدات کرتا ہے، اس سے دگنی سے بھی زیادہ درآمدات کی جاتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے گزشتہ جون میں ختم ہونے والے مالی سال 2016 کے دوران 27.36 ارب ڈالر برآمدات میں کمائے مگر اسی سال 48.58 ارب ڈالر کی ادائیگیاں درآمدات کے لیے کیں اس طرح پاکستان کا تجارتی خسارہ 21 ارب ڈالر رہا۔
مگر پاکستان میں بڑے پیمانے کی پرتعیش اشیاء بھی درآمد کی جاتی ہیں۔ جس میں دودھ ، ڈیری مصنوعات، چاکلیٹس، بسکٹ، انڈے ، شہد، جوتے، ملبوسات، چمڑے کے بیش قیمت بیگز، پرفیوم، صابن اور دیگر اشیاء کی درآمد ہوتی ہے۔ اور یہ اشیاء کھلے عام اسٹورز پر دستیاب ہیں۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ان اشیاء کی درآمد پر پاکستان 3ارب ڈالر سے زائد قیمتی زرمبادلہ خرچ کر چکا ہے۔
ڈالر کے ضیاع کو روکنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے ان اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے جیسا کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے کیا تھا، جس کے خاطر خواہ نتائج بھی ملے اور کئی سال پاکستان کے رواں کھاتوں میں خسارے کے بجائے منافع ہوا۔
پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر دالیں، دودھ، کریم، خوردنی تیل درآمد کرتا ہے۔ ان اشیاء خورد و نوش کی مقامی پیداوار پر سہولت دے کر درآمدات میں مناسب کمی کی جاسکتی ہے۔ فوڈ گروپ کی درآمدات ہی مالی سال 2016 میں 4 ارب 60 کروڑ ڈالر سے زائد تھی۔ اگر صرف فوڈ گروپ اور پر تعیش اشیاء کی درآمدات میں کمی کی جائے تو سالانہ تقریباً 7 ارب ڈالر سے زائد رقم بچائی جاسکتی ہے اور ان کی پیداوار بڑھا کر پاکستان برآمدی ممالک میں بھی شامل ہو سکتا ہے۔
حکومت اور پالیسی سازوں کو اس حوالے سے جامع پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔ خصوصاً دودھ، کریم، اور پام آئل کی صورت میں باہر جانے والے زرمبادلہ کو روکنے کی جہاں تک بات ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل کے مختلف بیج جیسے سرسوں، سورج مکھی، اور مکئی کے کشید کردہ تیل دستیاب ہیں۔ یہ خوردنی تیل مقامی بھی ہیں اور پام آئل کے مقابلے صحت کے لئے بہتر ہیں۔ انہیں فروغ دینا ہوگا۔
اس کے علاوہ بڑی فصلوں گنے، چاول، کپاس اور گندم کی طرح دالوں کی کاشت بڑھانے کے لیے کسانوں کو مراعات دی جانی چاہئیں۔ بیرون ملک زرمبادلہ خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ مقامی کرنسی میں مراعات دے کر زرمبادلہ بچایا جائے۔
ترسیلات زر میں اضافے کے اقدامات
ایک اندازے کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد 88 لاکھ ہے جو کہ ملکی آباد کا چار فی صد یا اس سے کچھ زائد بنتے ہیں۔ انہی پاکستانیوں کی جانب سے اپنے اہل خانہ کے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے ترسیلات زر وطن بھجوائی جاتی ہیں۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کے اکثر ترقی پذیر ملک ترسیلات زر پر انحصار کرتے ہیں۔
عالمی بینک سے وابستہ ادارے ریمٹنس پرائس ورلڈ وائیڈ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 582 ارب ڈالر کی ترسیلات کی جاتی ہیں جس میں سے 432 ارب ڈالر ترقی پذیر ملکوں میں جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں 48 ملکوں سے بڑے پیمانے پر ترسیلات زر 105 ترقی پذیر ملکوں میں بھجوائی جاتی ہیں۔ یہ ترسیلات 23 کروڑ 20 لاکھ معاشی مہاجرین کی جانب سے کی جاتی ہے۔
پاکستان کے زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ترسیلات زر ہیں۔ مگر ان میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک اشرف وتھرا کے مطابق وطن بینکاری نظام کے زریعے ترسیلات بھجوانے والے پاکستانی تین اہم خطوں میں آباد ہیں۔ خلیج تعاون کونسل، بشمول سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکا۔ مگر خلیجی ملکوں میں تیل کی قیمت کم ہونے سے مالی بحران، امریکا اور برطانیہ میں سخت قوانین کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی ہو رہی ہے۔
پاکستان کی ترسیلات زر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2014 کے اختتام پر 15 ارب 83 کروڑ ڈالر بینکاری نظام کے ذریعے وطن آئے، مالی سال 2015 کے اختتام پر ترسیلات زر کا حجم 18 ارب 71 کروڑ ڈالر، اور مالی سال 2016 کے اختتام پر 19 ارب 91 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر ہوئیں۔ گزشتہ مالی سال کے آخری چند ماہ سے ترسیلات زر میں کمی دیکھی جا رہی تھی۔ رواں مالی سال کے آغاز سے ان میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اور مالی سال 2017 کی پہلی ششماہی میں ترسیلات زر کا حجم 9 ارب 45 کروڑ ڈالر ہے۔
ایسے میں اسٹیٹ بینک میں قائم پاکستان ریمٹنس انیشیئٹیو کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ گرتی ہوئی ترسیلات زر کو بڑھانے کا کام اسی ادارے کا ہے مگر تاحال کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔ اس ادارے کے قیام کے بعد ترسیلات کا کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کے کاروبار کو بینکوں کے حوالے کر دیا گیا۔ بینک فی ڈالر پاکستان لانے پر 8 روپے ری بیٹ لیتے ہیں۔ مالی سال 2016 میں یہ ری بیٹ 50 ارب روپے سے تجاوز کر گیا۔
ترسیلات زرمیں اضافے کے لیے ریمٹنس انیشیئٹیو کو فعال کرنا ہوگا اور اسے محض بینکوں کو ری بیٹ دینے والا ادارے بنانے کے بجائے ترسیلات بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کی تجاویز دینی ہو گی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ہے کہ ایکسچینج کمپنیوں کو ترسیلات بڑھانے کے عمل میں شامل کیا جائے۔
انہیں بھی بینکوں کی طرح ترسیلات وطن لانے کے لیے بیرون ملک منی ٹرانسفر کمپنیوں سے معاہدے کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ زرمبادلہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں مسابقت قائم کی جائے تاکہ ڈالر کی قدر میں کسی بھی فریق کی جانب سے سٹے بازی نہ کی جاسکے۔
ڈالر کی اسمگلنگ روکنے
پاکستان سے بیرون ملک ڈالر لے جانے کے لیے ایک منظم گروہ کام کر رہا ہے۔ خود سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور نے ستمبر 2013 میں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ پاکستان سے یومیہ ڈھائی کروڑ ڈالر اسمگل کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور جامع حکمت عملی اور قانون سازی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
پاکستانی قانون کے مطابق کوئی بھی فرد ایک وقت میں دس ہزار ڈالر اور سال میں 60 ہزار ڈالر بیرون ملک سفر میں اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے۔ایسے ملک میں جہاں زرمبادلہ کی ہمیشہ کمی رہتی ہو وہاں شہریوں کو اتنی بڑی مقدار میں زرمبادلہ بیرون ملک لے جانے کی اجازت کسی عیاشی سے کم نہیں ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد اور نگرانی کا کوئی نظام وضح نہیں کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اسمگلنگ روکنے کے لیے پاکستان کے انٹرنیشنل ایئر پورٹس پر خصوصی کاؤنٹر قائم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر وہ تاحال قائم نہ ہوسکے ہیں۔
کرنسی اسمگلنگ روکنے کے لیے حکومت کو خصوصی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں بیرون ملک ڈالر لے جانے کی حد پر نظر ثانی کرتے ہوئے حد کو کم کیا جائے اور نقد رقم بیرون ملک لے جانے پر شرائط عائد کی جائیں۔ اس کے علاوہ قانون میں ایک ڈیٹا بیس کو بھی مرتب کیا جائے جس میں نقد زرمبادلہ بیرون ملک لے جانے والے افراد کا اندراج ہو سکے۔
مرکزی ڈیٹا بیس نہ ہونے اور نقد زرمبادلہ بیرون ملک لے جانے کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے مسافر مختلف ایئر پورٹس کے زریعے رقوم بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ ڈیٹا بیس کی تیاری سے فرد کسی بھی ایئر پورٹ سے بیرون ملک روانہ ہوگا۔ اس کی منتقل کردہ رقم کا پتہ چل جائے گا۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک اور بینکوں کے ذریعے جاری کردہ کریڈٹ کارڈ پر کیے جانے والے بیرون ملک اخراجات کو بھی اس ڈیٹا بیس میں شامل کیا جائے۔ جبکہ بڑی مقدار میں کرنسی بیرون ملک لے جانے والے افراد کے ٹیکس ریٹرن کا بھی جائزہ لیا جائے کہ وہ اتنی بڑی رقم کو لے جانے کے اہل ہیں بھی یا نہیں۔
کرنسی سواپ معاہدے سے فائدہ اٹھایا جائے
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس میں سے مشینری اور بجلی پیدا کرنے والے صنعتی آلات کو نکال دیا جائے تو درآمدات میں محض 1.2 (ایک اعشاریہ دو ) فی صد کا اضافہ ہے۔ پاک چین اقتصادی راہدری کے لیے لائی جانے والی مشینری پر صرف ہونے والے ڈالرز کو بچایا جاسکتا ہے۔
پاکستان نے سال 2011 میں چین اور سال 2012 میں ترکی کے ساتھ کرنسی سواپ کا معاہدے کیا تھا۔ کرنسی سواپ کے معاہدے میں دونوں ملک ڈالر کے بجائے ایک دوسرے کی کرنسی میں تجارتی لین دین کر سکتے ہیں۔ مگر تاحال ان معاہدوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہدری کے لیے لائے جانے والے پلانٹس اور مشینری کو کرنسی سواپ معاہدے کے تحت کیا جائے تو بہت سا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ مگر نہ جانے کیوں حکومت اور مرکزی بینک اس معاہدے سے فائدہ نہیں اٹھا رہے اور اقتصادی راہدری کے منصوبوں میں زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے۔
بیرونی کرنسی میں سرمایہ کاری کے مواقع
پاکستان سے بیرون ملک جانے والے شہری بڑے پیمانے پر اپنی رقوم وطن بھجواتے ہیں۔ بڑی مقدار میں رقوم ان ملکوں کے بینکوں میں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ جہاں انہیں مناسب منافع نہیں ملتا ہے اور ہر وقت یہی خدشہ لگا رہتا ہے کہ کب حکومت قانون سازی کرتے ہوئے ان رقوم کو ضبط کرنے یا اپنے وطن منتقل کرنے پر پابندی عائد کر دے۔ جیسا کہ امریکا ور برطانیہ میں اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی وجہ سے ایسا دیکھنے میں بھی آ رہا ہے۔
دوسری طرف حکومت پاکستان زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کے لیے زرمبادلہ بانڈز کے کمرشل قرضے لے رہی ہے۔ اس قرض پر شرح سود 6 فی صد تک ہے۔ حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی ایسی ہی اسکیم متعارف کرے تا کہ وہ بھی اپنا پیسہ نہ صرف پاکستان منتقل کرسکیں بلکہ بانڈ میں سرمایہ کاری کر کے منافع بھی کما سکیں۔
تبصرے (6) بند ہیں